پانی چاہیے تو بکریاں دینی پڑیں گی

پاکستان میں صوبہ سندھ کے ریگستانی علاقوں میں جس قدر پانی کی کمی ہے اسی قدر پیسوں کی بھی کمی ہے لیکن وہاں بکریاں وافر تعداد میں ہیں۔ ایک خاتون نے اس علاقے میں پانی کی قلت سے پریشان لوگوں کی مدد کے لیے ایک راہ نکالی ہے اور اس میں بکریاں بہت کام کی ثابت ہو رہی ہیں۔
 

image

بی بی سی ایک رپورٹ کے مطابق فریال صلاح الدین نے سندھ کے صحرا میں گاؤں کی تصویر بدل دی ہے۔ وہ یہاں بکریوں کے بدلے پانی لا رہی ہیں۔

توانائی کی کنسلٹینٹ فریال صلاح الدین بتاتی ہیں: 'میں ایک عرصے کے بعد کراچی گئی تھی۔ میرے چچا آسٹریلیا سے آئے ہوئے تھے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ سندھ جا رہے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ سندھ کے دیہات میں جانا شروع کیا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ یہاں پانی کی شدید ضرورت ہے۔'

پانی کے بدلے بکریاں کیوں؟
پاکستان میں ایک کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور فریال اس تصویر کو تبدیل کرنا چاہتی تھیں۔

سندھ کے دیہات میں بجلی کی بھی قلت ہے اور گاؤں والوں کو ڈیزل سے چلنے والے پمپوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے جو خاصے مہنگے پڑتے ہیں۔
 

image


فریال ان ڈیزل پمپوں کی جگہ شمسی توانائی استعمال کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن پانی کے پمپ کے بدلے پیسے کی جگہ وہ بکریاں کیوں لیتی ہیں؟ اس پر فریال کہتی ہیں کیونکہ گاؤں والوں کے پاس پیسے نہیں ہیں لیکن بکریاں ہیں۔

یوں تو سندھ کے ان گاؤں میں بہت کم لوگ پڑھے لکھے ہیں لیکن یہ لوگ بکریوں کی قیمت کے متعلق خوب تول مول کرتے ہیں۔

فریال ایک گاؤں میں سولر پمپ لگانے کے بدلے میں 80 بکریاں چاہتی ہیں لیکن گاؤں والے 20-25 بکریوں سے زیادہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ایک گاؤں کے رہنے والے شخص نے بی بی سی کو بتایا: ’یہاں دونوں گاؤں میں 170 سے 180 گھر ہیں۔ اگر یہاں کے تمام گھروں کی تلاشی لیں تو دس ہزار روپے بھی بڑی مشکل سے نکلیں گے، شاید اتنے بھی نہ نکلیں۔‘
 

image

وہ کہتے ہیں کہ پیسے نہیں ہیں تو لوگ اس کی جگہ بکریاں دے سکتے ہیں۔

ہر گھر میں دو چار بکریاں ہوتی ہیں جو گھر میں دودھ کے لیے رکھی جاتی ہیں اور اگر کوئی بیماری یا مصیبت آجائے تو ایک بکری بیچ دی جاتی ہے۔

گاؤں والوں کا کہنا بکری دے دینے سے پریشانی تو ہوتی ہے لیکن پانی زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔

بکریوں کے بدلے پمپ دینا کوئی عطیہ نہیں ہے، فریال ان بکریوں کو بقر عید کے وقت فروخت کر دیتی ہیں جب بکریوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔
 

image

سندھ کے ایک گاؤں میں پہلا سولر پمپ لگانے کے بعد جب فریال وہاں پہنچیں تو انھوں نے کہا کہ وہاں پہلے سبمرسیبل پمپ استعمال ہو رہا تھا اب یہاں سولر پینل لگائے گئے ہیں۔

گاؤں میں رہنے والی 50 سال کی سوٹی کہتی ہیں: 'گاؤں کی خواتین کو ہر دن چار گھنٹے پیدل چل کر پانی لانا پڑتا تھا۔ پاؤں میں چھالے پڑ جاتے تھے، بچوں کو چھوڑ کر جانا پڑتا تھا۔ میں نے بھی اپنی ایک بکری دی لیکن مجھے افسوس نہیں ہے۔ ابھی پینے، پکانے اور نہانے کے لیے پانی مل جاتا ہے۔‘

اور اس کے سبب سندھ کے اس گاؤں میں بکریوں کے لیے بھی پانی مل جاتا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Fariel Salahuddin is not the type of person you’d expect to see wandering around rural Pakistan, especially with a herd of goats. She’s a successful energy consultant who has worked around the world.