دین اسلام اور راہ اعتدال

اس کارخانہ قدرت میں سب سے مؤثر وفعّال عنصر انسان ہے، اس عالم امکان کے سارے ہنگامے، نوبہ نو حسن آفرینیاں اور جہان رنگ وبو کے سارے نقش ونگار اس کے وجود کے کرشمے ہیں، عقل واختیار کی دولت سے مالامال اور اللہ تعالیٰ کے قول:
۱:۔ ”ولقد کرمنا بنی آدم وحملناہم فی البر والبحر ورزقناہم من الطیبات وفضلناہم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا“ (بنی اسرائیل:۷۰)
۲:۔”انی جاعل فی الارض خلیفة“۔ (البقرہ:۳۰)
جیسے بڑے بڑے تمغوں کا تن تنہا مالک یہ انسان بھی دوسری مخلوقات کی طرح ”الالہ الخلق والامر“(اعراف:۵۴) کے تکوینی نظام طاعت کا پابند ہونے کے ساتھ ساتھ تشریعی احکام کا بھی پابند ہے، انسان کو ”خلیفة الله فی الارض“ قراردینے کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ تصرف واستفادہ میں آزاد نہیں بلکہ محکوم ونائب ہے۔

شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰت والتسلیمات افراط وتفریط کے درمیان ایک معتدل شریعت ہے، جس میں نہ بالکل کھلی چھوٹ ہے اور نہ ہی بالکل مواخذہ ومطالبہ ہے۔ اسلام انسان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ فکر سے کام لے کر جس چیز کو چاہے اپنے قبضہ ٴ قدرت میں لائے ،مگر اسے اخلاقی ذمہ داری کا پابند بناتا ہے کہ وہ فکری آزادی سے وہ کام لے جو دوسروں کیلئے مفید ہو اور اس میں کسی کی حق تلفی نہ ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کے لئے کائنات کی سب چیزیں مسخر کرنے کا ذکر کیا ہے وہاں ”لکم“ کی قید لگائی ہے،، یعنی یہ تسخیر فائدہ اٹھانے اور پہنچانے کے لئے ہے، نہ کہ نقصان اور ضرر پہنچانے کے لئے۔ لہذا وہ تمام صنعتیں اور فیکٹریاں ممنوع ہوں گی جن سے نسل انسانی کی بقاء کو خطرہ لاحق ہو۔ایسی تمام نشہ آور اشیاء ممنوع ہوں گی جن سے انسان کی عقل وفکر متأثر ہوتی ہو، اسی سے فیملی پلاننگ کا مسئلہ بھی واضح ہوجاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اسلام کسی کے آنے جانے، کھانے پینے اور کاروبار کرنے پر اس وقت تک پابندی نہیں لگاتا جب تک اس کی کوئی بنیادی قدر مجروح نہ ہوتی ہو یا کسی کی حق تلفی نہ ہوتی ہو۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو جائز لذتوں سے لطف اٹھانے کی دعوت دیتا ہے مگر دوسری طرف ”لاتسرفوا“ یعنی دائرہ اعتدال سے قدم باہر نہ رکھنے کی بھی تاکید کرتا ہے،نفس انسانی میں لذتوں پر جھک پڑنے کا قدرتی میلان موجود ہے، عوام کی گمراہی کا نام فسق ہے اور خواص جب گمراہ ہوتے ہیں تو رہبانیت کے گڑھے میں جاپڑتے ہیں ،مگر اسلام لذتوں پر جھک پڑنے کا نام فسق اور لذتوں سے بالکل کنارہ کش ہونے کا نام رہبانیت رکھتے ہوئے دونوں سے منع کرکے راہ اعتدال اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔

اسلام میں ہرانسان کی بنیادی ضروریات یعنی دین، جان، نسل، مال اور عقل کی حفاظت کو ضروری قرار دیا گیا ہے، موافقات شاطبی (ج:۴ ص:۲۴) میں ایک اصول مذکور ہے کہ:
”مجموع الضروریات خمسة: حفظ الدین، والنفس، والنسل، والمال، والعقل“
اس اصول کے تحت ہرایسا طریقہ اختیار کرنے سے اسلام روکتا ہے جس سے انسان کے دین ومذہب جان ومال اور نسل وعقل کو نقصان پہنچتا ہو۔

ہ رانسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے فکر وخیال کی آزادی ہو، اس کی جان، اس کی عزت وآبرو اور مال محفوظ ہو، اس نقطہ ٴ نظر سے آپ اسلام پر نظر ڈالیں گے تو ان حقوق کے ادا کرنے میں اسلام کا سینہ دنیا کے دوسرے دنیوی ومذہبی نظاموں سے زیادہ کشادہ نظر آئے گا۔ اگر آپ ایک طرف یونائیٹیڈنیشن (UNO)کا منشور پڑھیں اور پھر نبی کریم اکے آخری حج یعنی حجة الوداع کا خطبہ پڑھیں تو ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق نظر آئے گا۔

اسلام بے سوچے سمجھے کسی کو ماننے پر مجبور نہیں کرتا، حتی کہ بنیادی عقائد توحید وآخرت جن کو اصول مسلمہ کی طرح مان لینا چاہئے، ان کیلئے بھی اسلام عقلی دلائل فراہم کرتا ہے۔اسلام نے ہر شخص کودنیا میں اس بات کی آزادی دی ہے کہ وہ صراط مستقیم پر چلتارہے یا غلط عقیدہ قائم کرکے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر بھٹکتا پھرے، بہرحال اس دنیا میں اسے کوئی نظریہ یا عقیدہ قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی“۔ (البقرہ:۲۵۶)
ترجمہ:…” دین کے معاملے میں زبردستی نہیں ہے، بھلائی اور گمراہی دونوں واضح ہوچکی ہیں“۔

اسلام نے محض حریت عقیدہ کا نظریہ پیش نہیں کیا ہے، بلکہ عملی اور قانونی طور پر اس کی حفاظت بھی کی ہے۔ فقہ کا قاعدہ ہے کہ ”امرنا بترکہم ومایدینون“ یعنی ہمیں کفار اور ان کے دین کو چھوڑنے یعنی مجبور نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ اسلامی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کسی کافر کو جبراً مسلمان نہیں بنایا گیا۔

حضرت ریحانہ  جو بنو قریظہ کی جنگ میں گرفتار ہوکر نبی کریم ا کی ملک میں آئیں، حضور ا نے انہیں اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا، بلکہ وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئیں، چنانچہ امام طبری  اپنی تاریخ کی کتاب میں فرماتے ہیں: ”وقد کانت حین سباہا تعصبت بالاسلام وکانت یہودیة فلم یکرہہا حتی اسلمت من تلقاء نفسہا“۔ (……)

نیز اہل نجران اور مدینہ کے یہودیوں کو مذہبی آزادی اور جان ومال کی حفاظت کی تحریر عطا فرمانابھی اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام غیر مسلموں کو مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کرتا۔ہاں اسلام کی دعوت دینے کو جائز قرار دیا ہے توبھی وہ دعوت عمدہ پیرائے میں ہو اور اخلاق حسنہ کی بھی شرط لگائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ادع الی سبیل ربک بالحکمة“ ۔ (نحل:۱۲۵)
ترجمہ:اور بلاؤ اپنے رب کی طرف حکمت کے ساتھ۔

اسلام کو سختی اور تنگ نظری کا طعنہ دینے والوں کا زیادہ تر نشانہ جہاد ہوتا ہے کہ جہاد کا مطلب غیر مسلموں کو مسلمان ہونے پر مجبور کرنا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ جہاد کا مقصدامن عامہ اور عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا اور فساد وظلم کو ختم کرنا ہے، مگرعجیب بات ہے کہ ڈاکٹر جب موذی مرض اور بدنی فساد کو ختم کرنے کیلئے آپریشن کرے تو کوئی اسے سختی نہیں سمجھتا،بلکہ اس کی تحسین کرتا ہے مگر جب اسلام امن عامہ کی بحالی اور فساد فی الارض کے خاتمے کیلئے جہاد کا حکم دیتا ہے تو وہ سب کو سختی اور ظلم نظر آتا ہے۔

لطیفہ یہ ہے کہ اسلام کو تنگ نظری اور سختی کا طعنہ دینے والے وہ ہیں جن کے ہاں حق، قوت وطاقت کا نام ہے، جن کے ہاں طاقتور ہر قسم کے حق کا مالک ہے اور کمزور کے سارے حقوق طاقتور کے لئے مباح ہیں، جن کے ہاں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کا قانون رائج ہے اور جن کے ظلم کے سامنے خود ظلم بھی شرماجائے اور جن کے ہاں انصاف عنقاء ہے:
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر ہیں پھینکتے دیوار آہنی پہ حماقت تو دیکھئے

روشن خیال اور تجدد نواز( جو جاہلیت فرنگ سے مرعوب افراد کا دوسرا نام ہے) اسلامی سزاؤں کو سخت اور انسانی حقوق کے خلاف کہہ کر اسلام کو بدنام کرنے اور یہود ونصاریٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا مصداق ہیں،کیونکہ خود شریعت موسویہ اور عیسویہ میں بھی ایسی ہی سزائیں مقرر رہی ہیں، حتی کہ تورات میں چورکو قتل کرنے اور زانی کو رجم کرنے کا حکم بھی ملتا ہے، شریعت موسویہ میں بھی نقب زن کی جان سے امان اٹھ جاتی ہے، کوئی اسے قتل کردے تو اس سے بدلہ نہ لیا جائے گا ۔توراة میں ہے کہ: ”اگر چور سیند مارتے ہوئے دیکھا جائے اور اسے کوئی مار بیٹھے اور وہ مرجائے تو اس کے لئے خون نہ کیا جائے گا۔ (خروج:۲۲:۲)

موجودہ تورات میں اتنے تحریفی انقلابات کے باجودبھی حکم قصاص ان الفاظ میں موجود رہ گیا ہے:
”اگر وہ اس صدمہ سے ہلاک ہوجائے تو جان کے بدلہ میں جان لے اور آنکھ کے بدلہ میں آنکھ، دانت کے بدلہ میں دانت۔ (خروج ۲۱:۲۳۔۲۵)
توراة میں ایک جگہ نقب زن کے قتل کا بھی حکم ملتا ہے:
”اگر کوئی شخص اپنے بھائیوں بنی اسرائیل میں سے کسی کو چرانے میں پکڑا جائے اور اس کا بیوپار کرے یا اسے بیچ ڈالے تو چور مار ڈالا جائے اور تو شر کو اپنے درمیان سے دفع کر“۔ (استثناء ۲۴:۷)
نیز رجم کا حکم تو توراة وانجیل دونوں میں ہی موجود ہے، چنانچہ توراة میں ہے کہ:
”اگر یہ بات سچ نکلے اور لڑکی کے کنوارے پن کی نشانیاں پائی نہ جائیں تو وہ اس لڑکی کو اس کے ماں باپ کے گھر کے باہر دروازہ پر نکال لائیں اور اس کی بستی کے لوگ اس پر پتھراؤ کریں کہ وہ مرجائے۔ (استشناء ۲۲۔۲۳)
انجیل میں ہے کہ:
”توریت میں موسیٰ علیہ السلام نے ہم کو حکم دیا کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کردیں تو ایسی عورت کی نسبت کیا کہتا ہے؟ (یوحنا:۸:۶۰۴)

ان تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی سزائیں جن پر یہ روشن خیال اور اہل مغرب اعتراض کرتے ہیں وہ تو شریعت موسویہ وعیسویہ میں بھی رہی ہیں اور ویسے بھی مجرمین کی سزا کا سخت ہونا مطلوب اور حکمت کے عین موافق ہے، تاکہ سزا کا مقصد اصلی ”نکال“ یعنی عبرت حاصل ہو،پھر عبرت وموعظت کے لئے سزاؤں کا محض جسمانی حیثیت سے سخت اور تکلیف دہ ہونا بھی کافی نہیں ہے رسوائی، دماغی وقلبی تکلیف کا پہلو بھی ان میں نمایاں ہونا چاہئے۔

اسلامی فلسفہ ٴ تعزیر میں یہ بھی خوبی ہے کہ سزا کے تجویز کرنے میں دوبڑے پہلو پیش نظر رہتے ہیں: ۱…ایک انتقامی یعنی مظلوم یا مستغیث کے جذبات کی تسکین ۔
۲…دوسرے انتظامی یعنی آئندہ کے ممکن مجرموں کی حوصلہ شکنی۔ تو یہ ساری چیزیں سزا کو سخت تو بناتی ہیں مگر ان میں فوائد بھی ہیں، لہذا سختی کا اعتراض بے جا ہے۔ نیز یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ حاکم مطلق ہے، وہ جس جرم کی جو سزا مقرر فرمائے، اس کی مرضی ہے کسی کو اعتراض کا حق نہیں پہنچتا اور اللہ تعالیٰ کا حکم حکمت ومصلحت سے خالی نہیں ہوتا ہے تو حاصل یہ ہے کہ سزاؤں کا سخت ہونادرحقیقت کوئی قابل اعتراض ہے ہی نہیں کہ ان پر انگلی اٹھائی جائے۔

اللہ تعالیٰ کی صفت عدالت کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ سزاؤں میں کچھ سختی ہو تبھی تو عدل وانصاف قائم ہوگا،ان تمام عقلی اور قیاسی دلائل کے باوجود بھی ممکن ہے کچھ لوگ سزاؤں کی ان سختیوں پر چیں بجبیں ہوں تو ان سے گزارش ہے کہ ساری عقلی اور قیاسی بحثوں سے قطع نظر صرف عملی اور تجرباتی حیثیت سے ہی دیکھ لیں کہ جن ملکوں نے اپنے ہاں قانون نرم کرکے سزائیں ہلکی سے ہلکی کردی ہیں، ان کے ہاں بدامنی اور جرائم کا کیا حال ہے؟ اور جن کے ہاں اب تک اسلامی تعزیرات وحدود کا نفاذ جاری ہے وہاں کا کیا حال ہے؟ یہی فرق بھی ان معترضین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔

دین اسلام کو عبادات واحکام کے اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو دین اسلام میں سہولت اور آسانی ہی ہے، اس کے احکام میں عزائم بھی ہیں اور رخصتیں بھی، جو اعمال رخصت ہیں ان میں تو سہولت ہے ہی اور جو اعمال عزیمت ہیں، ان میں بھی چونکہ میانہ روی اور اعتدال کی رعایت ہے، اس وجہ سے یہ کہنا درست ہے کہ دین اسلام اپنے احکام کے اعتبار سے سہولت والا دین ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ما جعل علیکم فی الدین من حرج“ (الحج:۷۸)
یعنی اللہ تعالیٰ نے دین اسلام میں مشقت اور تعب نہیں رکھی، حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے:
”ان الدین یسر“ (بخاری،ص:۱۰)
یعنی دین آسان ہے۔ ایک اور حدیث میں حضور اارشاد فرماتے ہیں:
”احب الدین الی الله الحنیفیة السمحة“ (بخاری ص:۱۰)
یعنی آسان اور توحید والی شریعت اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ہے۔

شریعت کے آسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے احکام پر کوئی عمل کرنا چاہے تو کرسکتا ہے،اس کے احکام میں کوئی حکم ایسا نہیں جو فی نفسہ ناقابل برداشت ہو،بظاہر ایسا لگتاہے کہ شر میں سہولت اور خیر میں دشواری ہے مگر دراصل بات یہ ہے کہ شر میں فی نفسہ سہولت نہیں ہے مگر عادت کے غلبہ سے وہ سہل ومرغوب معلوم ہوتا ہے اور خیر میں فی نفسہ دشواری نہیں ہے مگر عادت نہ ہونے سے اس میں عارضی دشواری معلوم ہوتی ہے۔

آسان ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کسی عمل کے کرنے میں کچھ بھی تکلیف نہ ہو اور جو چاہے کرلے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ نفسانی خواہشات کے مطابق ہونا آسانی نہیں اور تنگی نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایسی تنگی نہیں ہے کہ انسان اسے برداشت نہ کرسکے، اگر بالفرض کچھ محنت اٹھانی بھی پڑتی ہے تو یہ قابل اعتراض بات تو نہیں ہے، دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کس قدر کوشش اور تکلفات سے کام لیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو مالک حقیقی ہے اس کے لئے تھوڑی سی محنت برداشت کرنا کونسا مشکل ہے کہ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے؟ ویسے تھوڑی بہت محنت تودنیا کے ہرکام میں کرنی ہی پڑتی ہے، تعلیم حاصل کرنے، ملازمت اور تجارت وصنعت میں کیسی کیسی محنتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں مگر ان کی وجہ سے بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کام سخت ہیں اور بعض اوقات تو ماحول کے غلط اور مخالف ہونے یا ملک وشہر میں اس کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے بعض احکام مشکل نظر آتے ہیں مگر دراصل وہ مشکل ہوتے نہیں بلکہ کرنے والے کو بھاری اس لئے معلوم ہوتے ہیں کہ ماحول میں کوئی اس کا ساتھ دینے والا نہیں ہوتا، جس ملک میں روٹی کھانے اور پکانے کی عادت نہ ہو، وہاں روٹی حاصل کرنا کس قدر دشوار ہوتا ہے، یہ سب سمجھتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہاجاسکتا کہ روٹی پکانا ، کھانا بڑا سخت کام ہے۔
بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”ہو اجتباکم وماجعل علیکم فی الدین من حرج“ (الحج:۷۸)

یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں چن لیا اور تم پر دین میں کوئی حرج نہیں رکھی تویہ حضرات کہتے ہیں کہ جو چاہو کرو تو اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ اجتباء یعنی چن لینے کا مطلب یہ نہیں کہ اب عمل نہیں کرنا ہے بلکہ عمل بھی ضروری ہے اللہ تعالیٰ نے تو اجتباء کا سامان مہیا کردیا ہے، اب عمل خود کرنا پڑے گا جیسے دعوت کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ منہ میں نوالہ بھی میزبان ڈالے گا۔

نیز دین کے آسان ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ پچھلی امتوں پر جو سختیاں تھیں، وہ اس امت پر نہیں، چنانچہ یہود پر پچاس نمازیں فرض تھیں، زکوٰة چوتھائی حصہ نکالنا فرض تھا، نجاست لگنے پر کپڑے کو کاٹنا ضروری تھا ، بھول چوک پر سزاہوتی تھی، گناہ کے جرم میں بعض حلال چیزیں حرام ہوگئیں تھیں وغیرہ،اسی سلسلہ میں قرآن مجید میں حضور ا کی صفت یوں بیان کی گئی کہ:
”ویضع عنہم اصرہم والاغلال التی کانت علیہم“ (الانفال:)
ترجمہ: ”اور وہ (نبی کریم ا) ان سے وہ بوجھ اور بیڑیاں (یعنی سختیاں) دور کرتے ہیں جو ان (یہودیوں اور امم سابقہ) پر تھیں۔“

یہودیوں کی شرارت اور نافرمانی کی وجہ سے کئی طیبات ان کے لئے حرام قرار دی گئیں تھیں اور کئی خبائث (حرام) کو انہوں نے اپنے لئے حلال قرار دے دیا تھا، اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
”فبظلم من الذین ہادوا حرمنا علیہم طیبٰت احلت لہم “۔

یعنی یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر بہت سی طیبات (حلال چیزوں) کو حرام قرار دیا تھا جو ان کے لئے حلال تھیں، جبکہ رسول اللہ ا نے طیبات کی حلت کا اعلان فرمایا۔ معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں وہ سختیاں نہیں ہیں جو سابقہ امتوں پر تھیں، چنانچہ انجیل میں پطرس (حواری مسیح علیہ السلام) کا قول غیر اسرائیلی مسیحیوں کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ: ”اب تم ان کی گردن پر ایسا جوا رکھ کر جس کو نہ ہمارے باپ دادا اٹھا سکتے تھے نہ ہم، خدا کو کیوں آزماتے ہو؟ (اعمال:۱۵:۱۰)

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی امتوں پر کیسی سختیاں تھیں، اگرچہ انجیل کے اس قول میں مبالغہ ہے، کیونکہ وہ سختیاں ناقابل برداشت نہ تھیں، بہرحال یہ تمام سختیاں پہلے ادیان میں تھیں، مگر دین اسلام میں نہیں ہیں۔

اسلام ایک آفاقی وبین الاقوامی مذہب ہے، اس کے احکام وتصورات کی بنیاد نہ تو محض چند مشترک مادی اغراض پر ہے اور نہ ہنگامی اور عارضی حالات نے انہیں جنم دیا ہے اور نہ اس میں کسی خاص گروہ یا قوم ہی کی سیاسی برتری یا معاشی بہبود پوشیدہ ہے، بلکہ اس کے واضع اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت وساخت ہی ایسی بنائی ہے کہ وہ ہرانسان کے لئے، ہر وقت اور ہر زمانہ میں قابل عمل ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی دی ہے تو اسے زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے ۔

دنیا میں زندگی گزارنے کے دو طریقے اور نظام چل رہے ہیں: ایک وہ جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا ہے اور ایک وہ ہے جو انسان نے خود اپنے لئے طے کیا ہے یا یوں کہیئے کہ گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جونظام انسانوں کو دیا ہے، وہ اسلام ہے اور دوسرے نظام مختلف ناموں سے اس دنیا میں موجود ہیں بعض تو اپنے وجود مستعار کو بھی کھوچکے ہیں اور کئی نظام ختم ہو نے کو ہیں، اللہ تعالیٰ نے اسلام کو انسانی مزاج وفطرت کے مطابق تشکیل دیا ہے، اسلامی نظام میں انسان کی تمام خوبیوں اور ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہے، چنانچہ خطأ ونسیان پر مؤاخذہ نہ ہونا اور مشقت والے احکام مقرر نہ ہونااس کی دلیل ہے۔

شریعت کے احکام کا جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ مختلف نظاموں میں یہ بات تو مشترک ہے کہ وہ زندگی کے ایک شعبے یا ایک شعبے کے چند مسائل پر تو بحث کرسکتے ہیں اور وقتی حل نکال سکتے ہیں مگر مجموعی طور پر کوئی بھی انسانی نظام اس قابل نہیں کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں پر احاطہ کرسکے اور اس کے مسائل کو بخوبی حل کرسکے۔

مسلمانوں کا ایک طبقہ جن میں مغرب زدہ دیندار طبقہ بھی ہے اس دھوکہ میں ہے کہ اسلام چند مخصوص عبادات کا نام ہے اور دنیا وی معلومات کے طے کرنے کے لئے ہمیں ایک عقلی طریقہ کار یا نظام کی ضرورت ہے، یہ وہ عام خیال ہے جس کی وجہ سے لوگ اسلام کو مسجد تک محدود رکھتے ہیں اور مسجد سے باہر اپنی عقل لڑاتے ہیں، گویا نعوذ باللہ! خدا صرف مسجد میں ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ اسلام پوری زندگی پر محیط تو ہے مگر چودہ سوسال پرانا ہونے کی وجہ سے اس کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں، آج کی دنیا سائنسی دنیا ہے، لہذا اسلام کی عام زندگی پر من وعن عمل کرنا ممکن نہیں رہا ہے، لہذا اجتہاد کیا جائے اور اجتہاد کا معیار ان حضرات کی خواہش کے مطابق ہو، مگر یہ بھی اللہ تعالیٰ پر بہتان ہے کہ نعوذ باللہ! اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق تو کردیا مگر وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی ضرورتوں کے لئے مؤثر لائحہ عمل ترتیب دینے میں ناکام رہا، سچ یہ ہے کہ اسلام مسجد کی طرح باہر بھی ایک لائحہ عمل فراہم کرتا ہے، مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ انسان اپنی خواہش کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ کی خواہش کی پیروی کرے، وہ جدید سائنسی دور میں سائنسی کرشموں کو اپنا خالق نہ بنائے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق بن کر اسی کو معبود برحق سمجھے۔ جو لوگ یہ شرط پوری کرنے کو تیار ہیں، اسلام انہیں کو لائحہ عمل فراہم کرتا ہے۔

اسلام کے احکام میں ایسی لچک ہے جوانہیں ہر زمانہ میں ہرایک کے لئے قابل عمل بناتی ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین ہی حقوق انسانی کا بہترین مصدر ہو سکتے ہیں، مگر انسان کے بنائے ہوئے قوانین میں خامی رہتی ہے،کیونکہ انسانوں کے مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، لہذا ایک انسان کا وضع کردہ قانون دوسرے انسان کے مزاج سے متصادم ہوگا، وہ اسے تو ڑنے کی کوشش کرے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے قانون میں کوئی خامی ونقصان کی گنجائش نہیں ہے، لہذا ہرانسان جو سلیم الفطرت اور عقل مند ہو وہ اسے بخوشی قبول کرے گا۔

دین اسلام کی عبادات کے سلسلہ میں غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس میں آسانی ہی آسانی ہے۔ ایک سلسلہ تو انعامات خداوندی کا ہے اور ایک عبادات کا ہے، انعامات تو بے شمار ہیں:
”وان تعدوا نعمة الله لاتحصوہا“ (ابراہیم:۳۴)

یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے۔اس رب السموات والارض کے احسانات کا کیا شمار ہے؟ جس نے پیدا ہونے سے پہلے ہی وہ تمام ضروریات مہیا فرمادیں جن پر حیات انسانی کا مدار ہے، پیدائش سے بلوغ تک کی طویل مدت احسانات کی طویل حکایت ہے، جس کے صلہ میں کوئی چیز مطلوب نہیں ہے، کوئی خدمت وعبادت متعلق نہیں ہے اور بلوغ کے بعد جو عبادات متعلق ہیں وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان انعامات کے مقابلہ میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمہ وقت بغیر انقطاع کے اللہ جل شانہ کا شکر بجا لایاجاتا اور عبادات کا سلسلہ قائم رہتا، لیکن جو سلسلہ عبادات ہے وہ بھی سہل وآسان ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات ہے، سب سے پہلے اسے وحدہ لاشریک ماننے کا حکم ہوا، پھر ہروقت کی عبادت فرض کرنے کے بجائے نماز صرف پانچ وقت فرض ہے، پھر اس میں بھی اوقات نشاط کا لحاظ کیا گیا ہے، چوبیس گھنٹوں میں سے نمازوں کے اوقات کو نکالا جائے تو مشکل سے تقریباً گھنٹہ یاڈیڑھ گھنٹہ بنتاہے۔گویا اللہ رب العزت نے چوبیس گھنٹے عبادت فرض کرنے کے بجائے صرف گھنٹہ ، ڈیڑھ گھنٹہ اپنی بارگاہ میں حاضری دینے کے لئے فرمایا اور باقی وقت (تقریباً۲۳ گھنٹے) آرام ، وراحت اور کاروبار کرنے کی اجازت دے دی۔

اسی طرح زکوٰة کا معاملہ سراسر سہولت پر مبنی ہے کہ ہرشخص پر فرض نہیں ہے، بلکہ صاحب نصاب پرفرض ہے، پھر ہرقسم کے مال پر بھی زکوٰة نہیں بلکہ اس مال پرہے جو نامی اورضرورت سے زیادہ ہو، پھر جو زکوٰة مقرر ہے وہ بھی صرف چالیسواں حصہ ہے۔

رمضان المبارک کے روزے ہیں، ان میں بھی آسانی ہی آسانی ہے، سال بھر میں صرف ایک مہینہ کے روزے فرض ہیں پھرصرف دن میں تو روزہ ہے مگر رات کو کھانے ، پینے اور جماع کی اجازت ہے۔ نیز سحری کرکے روزے کا حکم اور بیمار کے لئے افطار کی اجازت، یہ سب سہولت نہیں تو اور کیا ہے؟

حج کو لے لیں، پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج فرض ہے، وہ بھی صرف ان لوگوں پر جو ”صاحب مال اور اصحاب ثروت ہوں، گھر کے اخراجات کے علاوہ آمد ورفت کا خرچہ اور راستہ کا امن ہوتو حج فرض ہوگا، ورنہ نہیں۔ یہ سہولت ہی تو ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کا سلسلہ توبے شمار ہے، مگر ان کے مقابلے میں عبادات بہت کم ہیں اور پھر ان میں بھی آسانی ہی آسانی ہے۔

دین میں آسانی کا اندازہ اس سے لگایئے کہ خود شریعت کا حکم مسلمان کو یہ ہے کہ وہ اعمال میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرے، لہذا لازم ہے کہ دین کے اعمال وعبادات میں ایسی تشدیدات کو اختیار نہ کیا جائے کہ آدمی اصل عمل سے ہی رہ جائے۔مسند احمد کی روایت ہے کہ :
”ان ہذا الدین متین فاوغلوا فیہ برفق فسددوا وقاربوا“ (مسند احمد)
ترجمہ:… دین بہت مضبوط ہے، اس میں نرمی اور آہستگی سے داخل ہو، درست طریقہ اختیار کرو اور قریب قریب چلتے رہو،۔“

یعنی اگر تم اکمل پر عمل نہیں کرسکتے یا طریق اعتدال پر کلی طور پر نہیں چل پائے تو کم از کم یہ کوشش کرو کہ اس کے قریب قریب رہو۔

اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۱ھ - اکتوبر: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 10

https://www.banuri.edu.pk/ur/node/1198
Mohammad Mubeen
About the Author: Mohammad Mubeen Read More Articles by Mohammad Mubeen: 24 Articles with 78986 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.