میڈیا کی آزادی کے 70 سال اور حکومتی ذرائع ابلاغ

شوقیہ کالم نگاری کرنے والوں کیلئے بعض اوقات موضوع تلاش کرنا مشکل ہوجاتاہے۔ ویسے آجکل کی شدید گرمی اور اوپر سے واپڈا کی لوڈشیڈنگ کے عذاب مسلسل نے لوگوں کی سوچنے ، سمجھنے، لکھنے، پڑھنے کی صلاحیتوں کو بھی متاثر کرنا شروع کردیاہے۔ تمام تر حکومتی دعوے غلط، اور جھوٹے ثابت ہورہے ہیں۔ عوام کا کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گیاہے لیکن حکمرانو ں کی ایک ہی رٹ ہے کہ 2018ء تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے۔ فی الحال تو آئے رو زگرمی کے ساتھ ساتھ اضافہ دیکھنے میں ہی آرہا ہے۔ میں کالم کی سوچ میں محو تھا کہ ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان کے پروڈیوسر آصف بلوچ کا فون آگیا کہ ایک پروگرام میں پاکستان کی آزادی کے 70سال مکمل ہونے پر ، ان سالوں میں میڈیا کی آزادی پر لائیو بات کرنی ہے تو بس پھر کیا تھا ہم نے اسی موضو ع کو اپنے کالم کیلئے چن لیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں چند قومی اخبارات جن میں جنگ، نوائے وقت، مشرق وغیرہ قابل ذکر تھے۔ قومی سطح پر اور مقامی سطح پر چند ہفت روزہ اخبارات جن میں میرے والد مرحوم کا ہفت روزہ کوثر، مخلص، غالب، وغیرہ شائع ہوتے تھے ۔کاتب اخبار ہفتوں لکھنے میں لگایا کرتے تھے لیکن اخبار کی خبر کی اہمیت تھی۔ خبر لگنے پر ٹرانسفر ہوجا یا کرتی تھی۔ صحافیوں کی تعداد بھی کم تھی لیکن ان کی عزت و وقار زیادہ تھی۔ محکمہ اطلاعات ہر خبر کی کٹنگ ہر متعلقہ ادارے کو بھجوانے کا پابند ہوتا جس کے باعث کرپٹ افسران و عملے کے کان ہر وقت کھڑے رہتے تھے۔ گویا صحافی، اخبارات، محکمہ اطلاعات انٹی کرپشن کے محکمے کا کردار نبھارہے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ نہ عزت، نہ وقار، نہ ڈر اور نہ ہی خوف۔ اخباروں کی تعداد میں اضافے اور کمرشل ازم کے آنے کے بعد ایک دوڑ سی لگ گئی۔ پہلے غلط خبر چھاپنے پر عدالتی نوٹس کا سامنا معمول تھا۔ اب تو اتنی خبریں غلط ہوتی ہیں کہ کن کن کو نوٹس بھیجا جائے اور کن کن کو محکمہ اطلاعات کٹنگ ارسال کرے ناممکن سا ہوگیا ہے۔ قومی اداروں میں بھاری رقم کی بنیاد پر بغیر کسی میرٹ کو دیکھے نمائندوں کی پرنٹ میڈیا میں بھرتی کے سلسلے نے اس اہم اور ملکی ترقی کے چار ستونو ں میں سے ایک ستون کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نمائندوں کو معاوضہ دینے کی بجائے لینے نے کالی بھیڑوں کو اس شعبے کا حصہ بنادیا۔ لیکن اسکے باوجود بعض اخبارات نے اپنی اصلی اقدار کو جاری رکھا اور ایسی صورتحال سے پرہیز کیا ۔ بعد ازاں الیکٹرانک میڈیا نے قدم رکھا تو ایک طرف تو مقابلے کا رحجان بہت بڑھ گیا ، دوسرے چینلز کے درمیان بریکنگ نیوز میں سبق لے جانے کی کوششوں نے صورتحال مزید خراب کردی۔ ابتداء کے دنوں میں ایک دوست صحافی کے کہنے پر ایک چینل کی نمائندگی چند ماہ کیلئے کی ، شہر میں ایک حادثے میں 6آدمی ہلاک ہوئے لیکن کہا جارہاہے کہ آپ لائیو رپورٹنگ کے دوران کہیں کہ 8آدمی ہلاک ہوئے ہیں۔ ہم نے توبہ کرلی کہ آئندہ کسی چینل کی رپورٹنگ نہیں کرنی۔ یہ تو بھلا ہو پیمرا کاکہ جنہوں نے اب قواعد بنائے ہیں جن کے باعث سنسنی خیزی اور اشتعال دلانے والی خبروں سے اجتناب ہوتا جارہاہے۔ لیکن تاحال بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے۔ بہرحال میڈیا میں موجود تمام تر خامیوں اور مسائل کے باوجود یہ طبقہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔ مارشل لاء کے دنو ں میں خبروں کو سنسر کرنے کے سلسلے کو کون بھول سکتاہے۔ اخباروں میں جگہیں سنسر ہونے کے باعث خالی نظر آتی تھیں۔ اب کم از کم ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پہلے لے دے کر چینل پر صرف ایک PTVتھا جو کنٹرول خبریں ہی نشر کرتا تھا یہی حال ریڈیو پاکستان کا تھا۔ ویسے دونوں اداروں کی پرانی روش تاحال قائم ہے۔ اگر ہمارے حکمران چاہتے ہیں کہ دونوں مذکورہ ادارے بشمول اے پی پی بھی ترقی کرے ان کی ریٹنگ میں بھی اضافہ ہوتو انہیں بھی تھوڑی آزادی دینی ہوگی کیونکہ حکومت نامہ کوئی بھی سننا اور پڑھنا نہیں چاہتاہے۔ ہماری عوام کا اپنے حکمرانوں کی ناقص کارکردگی کے باعث یہ مزاح بن چکاہے کہ وہ ہر حکومت کے خلاف ہی دیکھنا، پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ عوام کی سوچ انٹی حکومت بن چکی ہے اسی لئے حکمرانوں کو PTV ، ریڈیو ، اے پی پی کے سلسلے میں اپنی پالیسیوں میں کچھ تبدیلی لانی ہوگی۔ اے پی پی میں مشرف اور زرداری دور میں کچھ ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔میں خود اے پی پی میں 7سال کام کرچکاہوں مجھے معلوم ہے کہ حکومتی خبروں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی خبروں کی کوریج کاسلسلہ بھی شروع کیا گیا جس کے باعث اے پی پی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اگر الیکٹرانک چینل کا مقابلہ کرنا ہے تو ایسا کرنا ہوگا بصورت دیگر کوئی بھی PTV ، ریڈیو کو دیکھنے اور سننے کو تیار نہیں ہے۔ پہلے دیہاتوں میں ڈش، ٹی وی نہ ہونے کے باعث لوگ PTVاور ریڈیو پاکستان پر ہی اکتفا کرتے تھے۔ حکومت ان کی ذہن سازی کرتی تھی ۔ لیکن اب جہاں کیبل نہیں ہے تو وہاں ڈش نے جگہ لے لی ہے۔ اب میڈیا کو دی گئی آزادی کے باعث عوام کی نظروں میں دھول جھونکنا اور حکومتی ذرائع ابلاغ کو اپنی الیکشن مہم کا حصہ بنانا ممکن نہیں رہا۔ اس تمام تر صورتحال میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب میڈیا آزاد ہے ، چھوٹی سے لیکر بڑی خبر آنا فانا 20کروڑ عوام تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر بھی کرپشن، اقرباء پروری اور عوام کے مسائل میں آئے دن اضافہ کیوں ہورہاہے۔ کیا ہم من حیث القوم بے حس اور ہر دنیاوی اور اخروی خوف سے آزاد ہوچکے ہیں کیونکہ اﷲ کا خوف ہی تمام تر نیکیوں کا موجب ہے لیکن ہمارے آزاد میڈیا کی آزادی کے ساتھ ساتھ بے حیائی پر مبنی فلموں، ڈراموں، خبر کا نشر ہونا کسی المیہ سے کم نہیں۔ میڈیا کے بارے میں ان الزامات میں بھی کسی حد تک صداقت ہے کہ ہمارے بعض بااثر چینلز اور اخبارات Sponserd ہیں ۔ جیسے یہود و نصاری چاہتے ہیں ویسے ہی خبریں اور پروگرام دکھائے جاتے ہیں۔ بہرحال میڈیا کی 70سالہ زندگی میں آزادی سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ آزادی قومی مفادات میں ہو اور مادر پدر آزاد نہ ہو۔ ہمیں اس سلسلے میں ذمہ داری کا ثبوت بحیثیت ایک مسلمان کے دینا چاہئے کیونکہ ایک نسل کا بگاڑ پوری قوم اور ملک کا بگاڑ ہے۔ ہم آزاد میڈیا کو نیکی کو پھیلانے اور برائی کو روکنے کیلئے استعمال کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137207 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.