ممتاز شاعرہ ناصرہ زبیری کی تیسری کتاب " تیسرا قدم" کی تقریب پذیرائی

شہر میں ہونے والی بعض ادبی تقریب بہت یاد گار بن جاتی ہیں۔کراچی پریس کلب کا چھوٹا سال ہال لیکن ادیب و شاعر اور صحافی سب باکمال ،اتنے سارے خوبصورت اشعار کہنے والے،نثر لکھنے والے ادیب،اور خبروں کے کھوجی صحافی، اور خواتین شعرائ، سب کے سب قسمت ہی سے ایک چھت کے نیچے جمع ہوتے ہیں۔ جس طرح بہت سے گیت اور نظمیں ہمارے دل کو یوں مٹھی میں جکڑ لیتی ہیں کہ پھر انھیں بھولنا اور بھلانا بہت مشکل ہوجاتا ہے، انسان کی زندگی میں بھی ایسے یادگار لمحات کبھی کبھی آجاتے ہیں جن کے لافانی نقوش ذہن پر ثبت ہوجاتے ہیں۔یہ تقریب کراچی یونین آف جرنلسٹ اور کراچی پریس کلب کے تحت ممتاز شاعرہ اور صحافی ناصرہ زبیری کی تیسری کتاب " تیسرا قدم" کی تقریب پذیرائی کی تھی۔ جس میں انور شعور، فاطمہ حسن ، مہتاب اکبر راشدی، عقیل عباس جعفری، فاضل جمیلی، جاوید صبا،مبشر زیدی ، کاشف رضا، اے ایچ خان زادہ، عظمی الکریم، ڈاکٹر فوزیہ خان، شہاب زبیری موجود تھے۔گذشتہ دنوں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ناصرہ زبیری کے تیسرے شعری مجموعے کی تقریب رونمائی منعقد ہونے کے بعد ان کی شاعری پھول کی خوشبو کی طرح پھیلی ہے۔ناصرہ زبیری کوئی نئی شاعرہ نہیں ہیں۔ لیکن شاعری کے آنگن میں انھوں نے ہر قدم احتیاط سے اٹھایا ہے، 1995میں ناصرہ زبیری کا اولین شعری مجموعہ کلام”شگون“ کے نام سے شائع ہوا تھا، 2012 میںناصرہ زبیری کا مجموعہ غزل ”کانچ کا چراغ“ شائع ہوا۔ جس کے بعد انھوں نے ،،تیسرا قدم ،، ایسے ناز و انداز سے اٹھایا کہ شاعری کی دنیا میں تازہ ہوا کے معطر جھونکے کی طرح اس کی خوشبو پھیلتی چلی گئی۔ ناصرہ زبیری نے صحافت کے دشت میں سیاحی کی ہے، اس لئے وہ زندگی کے تلخ و شیریں لمحات پر خاموش نہیں رہتی۔ انھیں اس شہر سے محبت ہے، اسی لیئے تو ان کے قلم سے بے ساختگی سے یہ شعر نکلے ہیں۔
خوف کے قہر کا اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا
کیا میرے شہر کا اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا
بس یہ سیلاب ہے اب سر سے گذرنے والا
ڈوبتے شہر کو اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا

انھیں فضا میں رچی ہوئی بارود کی بو ، اور پھولوں کی مہک معدوم ہوجانے کا شدت سے احساس ہے، اسی لئے وہ کہتی ہیں
یہ ہمیشہ سے نہیں تھی یہاں بارود کی بو
گل ہوا کرتے تھے، گلدان ہوا کرتے تھے
یوں نہ ہو کہتی پھرے کوئی خلائی مخلوق
اس ذمیں پر کبھی انسان ہوا کرتے تھے

وہ معاشرتی اقدار ، معاشرے کی ناانصافیوں اور ناہمواریوں اور رشتوں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ پر بھی اپنے احساسات اور جذبات کا برملا اظہار کرتی ہیں۔
خواب نگر کا نقشہ لے کر آنکھوں میں

بسے بسائے لوگوں نے گھر چھوڑ دیئے۔ ناصرہ زبیری کی اس تقریب میں صحافیوں، شعرائ، ادیبوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، اور جس دلجمعی سے پورے وقت ہمہ تن گوش رہے، اس سے ان کی شخصیت اور شاعری سے محبت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ تقریب میںکاشف رضا نے اپنی ،باس، کا خوبصورت خاکہ پیش کیا، جس میں ناصرہ زبیری کی صحافتی اہلیت کو خراج تحسین بھی تھا اور شاعری اور ادب میں ان کی دسترس اور ہنری مندی کا اعتراف بھی۔ جاوید صبا نے ناصرہ زبیری کی شاعری کو نسائی شاعری سے جدا کرتے ہوئے اسے اپنے عہد کی تازہ لب لہجے کی شاعری قرار دیا۔ ا ±ردو نعت بورڈ کے مدیر اعلیٰ عقیل عباس جعفری نے کہاکہ تازہ شعری مجموعے میں ناصرہ کی شاعری کا ذائقہ مختلف ہے۔مہمان خاص ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہاکہ ناصرہ کے تیسرے مجموعے میں ایک نئی جستجو کا عمل ہے وہ اپنے جوہر سے آگاہ ہیں ان کی شاعری میں ہمارے عہد کے مسائل بھی ہیں۔مہمان خصوصی مہتاب اکبر راشدی نے کہاکہ ناصرہ زبیری شوقیہ شاعرہ نہیں ہیں ان میں سوچ بھی ہے اور مشاہدہ بھی۔وہ جو کچھ دیکھتی ہیں اور محسوس کرتی ہیں ، وہ اپنے شعروں میں ڈھالتی ہیں۔متاز شاعر اور دانشور انور شعور نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا ہے کہ ناصرہ زبیری غزلیں خوب لکھتی ہیں ان کی نثر خالصتاً ادبی ہے اس طرح وہ اچھی غزل‘ نظم اور اچھی نثر لکھنے میں دسترس رکھتی ہیں ۔ انور شعور نے کہاکہ ناصرہ زبیری کی شاعری وقتی نہیں ہے انہیں شاعری میں مزید آگے جانا ہے۔ اس موقع پر ناصرہ زبیری نے اپنا کلام سنایا اور مقررین و مہمانان سے اظہار تشکر کیا۔ دریں اثناء دیگر مقررین فاضل جمیلی‘ راشد نور‘ جاوید صبا‘ اے ایچ خانزادہ‘ مبشر زیدی‘ کاشف رضا‘ حسن منصور اور فہیم صدیقی نے بھی اظہار خیال کیا۔ فہیم صدیقی نے آخر میں شکریہ ادا کیا۔تقریب میں عظمی الکریم کی شگفتہ اور خوبصورت کمپیرینگ نے بھی تقریب میں نکھار پیدا کردیا تھا۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386610 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More