جہیز

ماں،باپ کا گھر بکا ، تو بیٹی کا گھر بسا،،،،،،
کتنی نامراد ہے یہ رسم جھیز بھی ،،،،،،

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ کو دو مٹی کے پیالے دیا تھاِ۔مٹی کے پیالے دیا تھاِ

وہ کمرے میں بیٹھی پنکھے کو گھور رہی تھی۔ آنسو تواتر اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ یہ آج کی بات نہیں تھی ، وہ ہر روز یوں ہی بیٹھ کر آنسو بہایا کرتی تھی۔ اور اپنے خاوند کے آنے سے پہلے فریش ہو جایا کرتی تھی۔ تاکہ وہ صبر کا مزہ لے سکے اگلا دن پھر امتحان کا جو دینا ہوتا تھا۔

اسے اپنے گالوں پر ننھے سے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا ۔ اسنے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ تو حیران رہ گئی۔

چار سالہ ریحان اپنی ماں کے آنسوں پونچھ رہا تھا۔ اسے یہ دیکھ کر بے حد حیرانی ہوئی کہ وہ ننھی سی جان اپنی ماں کو اس طرح روتا دیکھ رہی تھی۔ جب وہ کمرے میں آئی تو اپنی گاڑیوں ساتھ کھیل رہا تھا۔ وہ بیڈ پر بیٹھ کر وہ سب یاد کرنے لگی۔ اور آنسو اسکی آنکھوں سے مسلسل بہنے لگے۔

صبح نبیل کے آفس جانے کے بعد جب وہ کچن میں برتن دھو رہی تھی۔ جب محلے سے کوئی اسکی ساس کو ملنے والی آئی، اکثر محلے میں سے کوئی نہ کوئی عورت انکے گھر آ کر ساس کے پاس آکر بیٹھی رہتی تھی۔ وہ برتن دھو کر ڈوبٹہ سے ہاتھ پونچتی باہر آئی۔ “ اسلام و علیکم آنٹی! “ اسنے آتے ہی سلام کیا ۔ اور اس عورت کے سامنے اپنا سر کر دیا۔
“ واعلیکم السلام ! جیتی رہو بیٹی! ماشااللہ بہت پیاری بچی ہے۔ بہت اخلاق والی بہو ہے تمہاری نگہت!“ اسنے سر پر ہاتھ پھیڑتے ہوئے کہا ۔
“ جاؤ جا کر چائے بنا کر لاؤ ، اب کیا کھڑی مسکراتی رہوگی “ نگہت نے حقارت سے کہا تو وہ جلدی سے وہاں سے کچن میں چائے بنانے چلی گئی۔
“ ارے کہاں ، میرئے تو سارے ارمان ہی غارت ہوگئے،،، ارے کیوں بہن ؟ “ آنٹی نے تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر حیرانی سے پوچھا۔
“ تمہیں تو پتہ ہے، ایک ہی بیٹا ہے میرا سوچا تھا بہو لاؤ گی تو سارے ارمان پورے ہو جائیں گے۔ پر یہاں تو نصیب اس دن پھوٹا میرا جب میرے بیٹے نے اس لڑکی سے ہی شادی کروں گا، نہیں تو مر جاؤں گا کہا۔ اب تم ہی بتاؤ اکلوتے بیٹے کو آنکھوں کے سامنے مرتا کیسے دیکھتی میں۔ ؟ اسنے نخوت سے کہا ۔
“ ارے اچھی بھلی تو ہے تمہاری بہو کبھی تم ساس بہو کے لڑنے کی آواز نہیں آئی ۔ پورا محلہ تعریفیں کرتا ہے ،تمہاری بہو کی ۔ ورنہ تم نے دیکھا ہی ہے یہاں ہر روز کسی نہ کسی گھر سے لڑنے کی آوازیی آ رہی ہوتی ہیں۔“
“ ارے وہ اپنے ساتھ جہیز میں گاڑیاں ، اے سی ، فریج لائے ہیں۔ تو لڑتی بھی اچھی لگتی ہیں۔ میری بہو کیا لائی کچھ بھی تو نہیں بس وہی کھسا پیٹا تھوڑا سا سامان جو بس اسکے اپنے کمرے میں ہی پورا آگیا۔ ایک سے بڑھ کر ایک گھرانہ بیٹی دینے کو تیار تھے۔ پر میرے بیٹے نے تو اس کلموہی کی ہی رٹ لگا رکھی تھی۔ جانے کیا جادو کیا اس نے کے وہ اسکے لئے جوگ لئے بیٹھا تھا۔ ہن ن ن ن سب سمجھتی ہوں ایسی لڑکیوں کی کار گزریاں آفس جاتی ہی اسی لئے ہیں ، کہ لڑکے قابو کر سکے ۔“ ساس نے نفرت سے ماتھا پیٹتے ہوئے کہا۔
“ آنٹی چائے “ وہ سب سنتی صبر کے گھونٹ بھرتی چائے لئے آئی ۔
“ شکریہ بیٹا“ ہمسائی نے ہمدردی سے اسکی طرف دیکھا۔
وہ چپ چاپ کچن میں جا کر باقی کام سمیٹنے لگی کیوں کہ یہ روز کا ہی ڈرامہ تھا ۔ اسکی ساس ہر آئے گئے کے سامنے اسکے جہیز کے ہی رونے لئے بیٹھی رہتی۔ اور وہ بغیر اف کئے چپ چاپ اپنے کام سمیٹتی رہتی ۔ کیونکہ اسے اپنے گھر سے بہت پیار تھا وہ ساس کے آگے زبان چلا کر گھر کا ماحول خراب کرنا نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ شادی کے پہلے دن ہی اسکے شوہر نے اسے اپنی ماں سے والہانہ محبت کا بتا دیا تھا اسنے اسی دن اپنے ہونٹ سی لینے کی خود سے قسم کھا لی تھی ۔ ویسے بھی اچھے گھروں کی لڑکیاں زبان درازی نہٰیں صبر کرتی ہیں ۔ اور بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
“ اگر ہما کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تمہیں ایسی باتوں پر خوب زلیل کرتی۔ مگر وہ تیرے دئے گئے نشستر صبر سے سہ رہی ہے ارےڈر اسکے صبر سے اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔ “ ہمسائی نے چائے کا گھونٹ بھر کر ہاتھ نچا نچا کر کہا۔
“ دیکھا تم پر بھی جادو چل گیا نہ اس جادو گرنی کا ۔ ارے میں تو کہتی ہوں آج ہی میرا بیٹا اسے فارغ کرے تب بھی رشتوں کی لائنیں لگی ہیں ۔ ارے توبہ کر توبہ اللہ نے تجھے ایک پوتا فرمابردار بیٹا بہو دئے تو پھر بھی نا شکری کر رہی “
وہ چائے ٹیبل پر پٹخ کر کانوں کو ہاتھ لگاتی چلی گئی ۔ اسکے بعد نگہت کی زبان جب چلنا شروع ہوئی تو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ تب وہ اپنے کمرے میں آکر چپ چاپ آنسو بہانے لگی ۔ مگر اسے کیا پتہ تھا کہ کسی کی ننھی آنکھیں اسے یوں روتا دیکھ رہی ہیں ۔ اسنے پیاد سے ریحان کو گلے سے لگا لیا۔
“ ماما! ،،،،،،جی بیٹو ۔ “ ہما نے اسکے بالوں کو سہلاتے ہوئے غائب دماغی سے کہا۔
“ ماما! دادو آپ پر روز کیوں غصہ کرتی ہیں۔؟ “ ریحان نے معصومیت سے پوچھا۔
“ بیٹو! جب آپ کچھ غلط کام کرتے ہیں تو ماما غصہ کرتی ہیں نا ؟ اسی طرح آپکی دادو میری ماما ہیں ۔ اس لئے وہ غصہ کرتی۔ ماما اپنے بچوں سے بہت محبت کرتی ہیں نا ، اس لئے انکی بھلائی کے لئے غصہ کرتی ۔ “ اسنے بیٹے کو بھلانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا ، کیونکہ وہ ریحان کے ننھے سے زہن میں نفرت کا بیچ نونا نہیں چاہتی تھی۔
وہ اچھے سے جانتی تھی ، اسنے یہ جہیز کیسے اکٹھا کیا ۔ باپ کی کمائی سے تو گھر کا گزر بسر ہی مشکل سے ہوتا تھا۔ کیونکہ وہ ٹھیلے والی کی بیٹی تھی ، پر اسنے بی اے کے بعد ایک مقامی آفس میں جاب کرلی۔ جہاں کی انکم سے اسنے جہیز بنایا۔ وہی آفس میں اسکی ملاقات نبیل سے ہوئی ۔ نبیل اسکے کردار اور اسنے نبیل کے اخلاق کو دیکھتے ہوئے شادی کا فیصلہ کر لیا اور کچھ ہی تک و دو کے بعد یہ شادی گھر والوں کی رضامندی سے جلد ہی ہو گئی۔
“ بابا آگئے ، بابا آگئے۔“ ریحان کہتا بیڈ سے کود گیا۔
“ آ جاؤ بابا کی جان۔ “ نبیل نے یہ کہہ کر اسے گود میں اٹھا کر گھما دیا۔ وہ یہ دیکھ کر مسکرا دی۔
“ بابا! آج ماما بہت روئی “ ریحان نے معصومیت سے کہا۔
“ ریحان بیٹا! جاؤ باہر کھیلو جا کر “ رخسانہ نے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ نبیل نے اسے گود سے نیچے اتارہ تو وہ اپنی گاڑی اٹھا کر باہر چلا گیا۔ نبیل رخسانہ کے ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر لے آیا۔
“ کیا ہوا ہے ؟ ریحان کیا کہہ رہا تھا،؟ تم روئی آج کیوں۔؟“ نبیل نے اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“ نہیں کچھ نہیں ہوا بچہ ہے نا ، ایسے ہی کہہ دیا ہوگا ۔ “ ہما نے یہاں وہاں نگاہیں گھماتے ہوئے کہا۔
“ تم جب بھی جھوٹ بولتی ہو پکڑٰ ی جاتی ہو ، چلو جلدی سے بتاؤ بات کیا ہے ۔؟ نبیل نے بڑے پیار سے پوچھا ۔ وہ جب بھی جھوٹ بولتی تھی کبھی بھی نبیل کی طرف نہیں دیکھتی تھی۔ اسے جھوٹ بولنا ہی نہیں آتا تھا۔
وہ جانتی تھی ، کہ اب چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں اسنے اس شرط پر کے وہ اپنی ماں سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا۔ اس نے سب نبیل کو بتا دیا کہ کیسے اسکی ماں اسکے جانے کے بعد اسے جہیز کے طعنے دیتی ہے ۔
“ دیکھو ہما! میں نے تم سے شادی کے پہلے دن ہی کہ دیا تھا کہہ تمیں میری ماں کو برداشت کرنا ہوگا ۔ کیونکہ تم انکی پسند نہیں ہو ۔ وہ دل کی بہت اچھی ہیں ،بس اپنی انا اور ہماری محبت کے آگے جھک جانے کا غصہ تم پر نکالتی ہیں۔ مٰیں نہیں جانتا یہ سب کب تک چلے گا مگر مجھے اپنی بیوی پر پورا یقین ہے ، وہ اپنی محبت سے ایک دن میری ماں کا بھی دل جیت لے گی۔“ آخری بات اسنے کچھ شوخ ہو کر کہی ، وہ بھی مسکرا دی ۔
“ پر ایک شرط پر ۔ “ اسنے مسکراتے ہوئے کچھ سوچ کر کہا۔
“ کیسی شرط؟ “ نبیل نے کچھ پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔
“ شرط یہ ہے کہ ، ہم جب ریحان کی شادی کریں گے تب ہم جہیز نہیں لہں گے، اور اس بات کا آپکو میرا ساتھ دینا ہوگا ۔ ہم کسی ایسی لڑکی سے اپنے بیٹے کی شادی کرے گے جو جہیز نا دے سکتے ہو ایسے ایک لڑکی کی زندگی تو سنور سکتی ہے نا؟ جو بغیر کسی طعنے کے ہمارے گھر عزت کی زندگی گزارے گی۔“ اسنے خلاہ میں گھورتے ہوئے کہا۔
“ لو نیکی اور پوچھ پوچھ ۔ تمہاری اتنی اچھی سوچ ہیں کہ میرے دل میں تمھاری قدر اور بھی بھر گئی ہے۔“ نبیل نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“ ایک اور بات ، اگر ہمارے پانچ بیٹے بھی ہوئے ہم پانچوں کی شادی اس جہیز نہ دینے کی شرط پر کرے گے ۔ ہاں کیوں نہیں میری پیاری بیگم!“ اس بات پر دونوں کھلھلا کر ہنس پرے ۔ ( ختم شدہ)

Zeena
About the Author: Zeena Read More Articles by Zeena: 92 Articles with 200841 views I Am ZeeNa
https://zeenastories456.blogspot.com
.. View More