ترکی کے پرتشدد ڈرامے بند کیے جائیں

حکومت پاکستان نے بھارت کے ڈرامے اور فلمیں بند کر کے جہاں انتہائی احسن قدم اُٹھایا ہے وہیں برادر اسلامی ملک ترکی کے بے شمار ڈرامے مختلف نجی ٹی وی چینلز پر نشر کئے جا رہے ہیں۔ معصوم دُلہن، چھوٹی سی قیامت، یتیم دل، کالا پیسہ پیار، لاوارث، میرا سلطان اور کوسم سلطان جیسے ڈرامے ترکی کی روایتی اسلامی ثقافت سے ہٹ کر پیش کئے جا رہے ہیں۔ ان ڈراموں میں انتہائی پُرتشدد معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے۔ ہر ڈرامے میں ایک دُوسرے کو وحشی درندوں کی طرح مارنا، قتل کرنا اور لڑائی جھگڑے دکھائے جا رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی عدم برداشت کا منفی پہلو موجود ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دُوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے ہیں۔ ابھی ایک دن قبل شیخوپورہ میں ایک زمیندارنی نے صرف کھانا اور تنخواہ مانگنے پر اپنے ملازم بچے کا ہاتھ گھاس کاٹنے والی ٹوکہ مشین میں دے دیا جس کا وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں شدت پسندی نے زیادہ جگہ لے لی ہے اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو تشدد سے بھرپور ڈرامے، فلمیں دکھاتے ہیں۔ اُن کو ویڈیو گیمز ایسی ڈاؤن لوڈ کر کے دیتے ہیں جس میں تشدد زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے گھروں میں ایسے ناول موجود ہوتے ہیں جوسسپنس اور تشدد کو عام کرنے میں مدد دیتے ہیں جس سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ جو کچھ دیکھتے اور پڑھتے ہیں اُسی کو عملاً کرنا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر روز بُری خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ ایسے پُرتشدد ڈراموں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسلامی تاریخ کے ڈرامے اُردو ڈبنگ کے ساتھ دکھائے جاتے یا ایسے ڈرامے دکھائے جاتے جس سے نوجوان نسل کو کوئی سبق حاصل ہوتا۔ آج کل کے ڈراموں میں ماسوائے ایک دُوسرے کو قتل کرنے، مارنے، فساد پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا یا پھر ان ڈراموں میں محبت کی داستانیں دکھائی جاتی ہیں۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کے اقدام کو مثبت پہلو کے طور پر دکھایا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں ڈراموں میں کوئی نہ کوئی اچھا سبق ہونا چاہئے۔ ڈراموں میں منفی پہلو کم اور مثبت زیادہ اُجاگر ہونے چاہئیں مگر آج ترکی کے ڈراموں میں ایسا دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ ہر ڈرامے میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل کو غلط راہ پر لگانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ جب سے نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی ہے اب ڈرامہ ڈائریکٹرز نے بھی اس طرح محنت کرنا چھوڑ دی ہے جیسے وہ کسی دور میں کیا کرتے تھے۔ اپنے ڈرامے بنایا کرتے تھے۔ لوگوں کو رات 8 بجے کے ڈرامے کا شدت سے انتظار ہوا کرتا تھا۔ آج کل جدید سائنس نے کام بہت آسان کر دیا ہے۔ ڈرامہ کسی کا لو، اُس کی اُردو ڈبنگ کرو اور اپنے چینل پر چلا دو۔ اب محنت کوئی اور کر رہا ہے جبکہ اس کو پوری دُنیا میں دکھایا جا رہا ہے۔ اب اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے ڈرامے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے سخت نوٹس لینا ہو گا کیونکہ اگر اسی طرح کے ڈرامے دکھائے گئے تو ہماری نوجوان نسل کے ہاتھ سے قلم نکل جائے گا اور اُس کی جگہ اسلحہ نے لے لینی ہے۔ چونکہ ان ڈراموں میں ماسوائے مار کٹائی کے اور کچھ بھی نہیں دکھایا جا رہا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے اپنے ماحول کے ڈرامے اور فلمیں بنائی جائیں جن کے اندر عوام کے لئے کوئی سبق ہو۔ کاش ہمارے ڈرامے اور فلموں میں اسلامی اُصولوں کے مطابق امن کا درس دیا جائے۔ عوام الناس کو بتایا جائے کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے۔ ایسے تمام ڈرامے، فلمیں اور ناول جن کے اندر سنسنی خیز اور تشدد پر اکسانے کے قصے کہانیاں ہیں اُن پر بین ہونا چاہئے۔ چونکہ اس وقت اُمت مسلمہ کسی بھی لحاظ سے پُرتشدد معاشرے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اسلامی تاریخ اُجاگر کرنے کے لئے بے شمار کام کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابھی اس پر اُس انداز میں کام نہیں کیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
 

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 56638 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.