لفظ روپیہ سنسکرت زبان کے لفظ روپا سے ماخوذ ہے جسکے معنی
ہیں چاندی۔
ہندوستان کی آزادی سے ایک دن قبل 14اگست1947 کو پاکستان نے آزادی حاصل کی
تھی۔ لیکن اپنی خود کی کرنسی کے معاملے میں 30 ستمبر 1948 تک پاکستان کو
ہندوستانی کرنسی پر ہی انحصار کرنا پڑا تھا کیونکہ دونوں ممالک کی دولت
مشترکہ طور پر "ریزرو بنک آف انڈیا" میں ہی جمع تھی۔
یکم اپریل 1948کو حکومت نے ایک پائی، آدھا آنہ، دو آنہ، پاﺅ روپیہ، نصف
روپیہ اور ایک روپیہ کے سات سکوں کا ایک سیٹ جاری کیا اور اس وقت کے وزیر
خزانہ غلام محمد نے یہ سیٹ بابائے قوم محمد علی جناح کی خدمت میں پیش کیا۔
اس موقعہ پر بابائے قوم محمد علی جناح نے فرمایا
جب ہم نے پہلی بار ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا مطالبہ کیا تو ایسے
بداندیش لوگوں کی کمی نہ تھی جنہوں نے ہماری حوصلہ شکنی کی اور ہمیں اپنے
مقصد سے ہٹانے کےلئے یہ دعویٰ کیا کہ ریاست پاکستان معاشی لحاظ سے قابل عمل
ہی نہیں ہو گی۔ انہوں نے ریاست کے مالی اور اقتصادی مستقبل کی بالکل تاریک
تصویر پیش کی۔ (پاکستانی کرنسی نوٹ پیش کرنے کے موقع پر خطاب، یکم اپریل
1948)
پاکستان کا 1948 کا بنا ہوا ایک روپے کا دھاتی سکّہ اگرچہ ماضی کے دھاتی
روپے کی طرح چاندی کا ہی سمجھا جاتا تھا مگر درحقیقت وہ نکّل کا بنا ہوا
تھا اور وزن میں ایک تولے سے قدرے کم، 11.1 گرام کا تھا۔
پاکستان میں مالیاتی نظام کا باقاعدہ آغاز جولائی 1948 میں کراچی میں اسٹیٹ
بنک آف پاکستان کے افتتاح سے ہوا۔ اس افتتاح کے بعد پاکستان میں نئے کرنسی
نوٹوں کی تیاری اور پاکستان کے اپنے سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کے قیام کے لئے
کوششیں تیز کردی گئیں، ان کوششوں کے نتیجے میں درج ترتیب سے سکوں اور نوٹوں
کا اب تکا جراہوتا رہا ہے۔
یکم اکتوبر 1948کو حکومت پاکستان نے پانچ روپے، دس روپے اور سو روپے کے
کرنسی نوٹ جاری کئے۔ یہ نوٹ برطانیہ کی فرم میسرز ڈی لاروا اینڈ کمپنی میں
طبع کئے گئے تھے۔
یکم مارچ 1949 کو حکومت پاکستان نے ایک اور دو روپے مالیت کے دو کرنسی نوٹ
جاری کئے۔ ایک روپیہ پر وزارت داخلہ کے سیکرٹری وکٹر ٹرنر کے دستخط جبکہ دو
روپے پر ”پہلی مرتبہ“ اسٹیٹ بینک کے گورنر زاہد حسین کے دستخط شائع ہوئے۔
اس سے قبل نوٹوں پر وزیر خزانہ غلام محمد کے دستخط شائع ہوتے تھے۔ اسٹیٹ
بینک آف پاکستان کی طرف سے یکم ستمبر 1957 کو پانچ روپے اور دس روپے کے نوٹ
جاری کئے گئے۔
سٹیٹ بنک نے 24 دسمبر 1957 کو سو روپے مالیت کا نوٹ جاری کیا جس پر بابائے
قوم محمد علی جناح کی تصویر پرنٹ تھی۔ اس کی دوسری طرف بادشاہی مسجد لاہور
کی تصویر تھی۔ اس پر گورنر اسٹیٹ بنک عبدالقادر کے دستخط تھے۔
پاکستان میں پہلی بار یکم جنوری 1961کو اعشاری سکے جاری کئے گئے جن کی وجہ
سے ایک پائی، پیسہ، اکنی، دونی، چونی اور اٹھنی کی قانونی حیثیت ختم کرکے
رفتہ رفتہ ایک، دو، پانچ، پچیس، پچاس پیسے کے سکے اور ایک روپیہ کا سکہ
رائج ہوا۔
12 جون 1964 کو اسٹیٹ بنک نے پچاس روپے مالیت کا کرنسی نوٹ جاری کیا۔ اس
نوٹ پر گورنر اسٹیٹ بنک شجاعت علی کے دستخط تھے۔
7جون 1971کو پاکستان کی وزارت خزانہ نے اعلان کیا کہ چند ناگزیر وجوہات کی
بنا پر ایک سو اور پانچ سو روپے کے نوٹوں کو غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے،
اس لئے عوام ایک سو اور پانچ سو کے نوٹوں کو بینکوں اور مقرر کردہ اداروں
میں جمع کروا کر ان کی رسید لے لیں تاکہ بعد میں ان کے متبادل دوسرے نوٹ
حاصل کرسکیں۔
پاکستان کی تاریخ میں غالباً پہلی مرتبہ 25 دسمبر 1966 کو حکومت نے چاندی
اور سونے کے 100 اور 500 روپے کے دو یادگاری سکے جاری کئے، جو کہ وینزیلا
میں تیار کئے گئے تھے۔
20 جنوری 1982 کو حکومت پاکستان نے ایک روپیہ مالیت کا اور بعد ازاں اسٹیٹ
بینک آف پاکستان نے پانچ، دس، پچاس اور ایک سو روپے مالیت کے چار نئے کرنسی
نوٹ جاری کئے۔ جن کی ایک خاص بات تو یہ تھی کہ اس پر بنگالی زبان کی
عبارتیں حذف کردی گئی تھیں اور دوسری یہ کہ ان کی پشت پر اردو میں ”رزق
حلال عین عبادت ہے“ کی عبارت طبع تھی۔
یکم اپریل 1986کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے پانچ سو روپے مالیت کا نیا کرنسی
نوٹ جاری کردیا۔ 18 جولائی 1987ئ کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے ایک ہزار روپے
کا کرنسی نوٹ جاری کیا جو مالیت کے اعتبار سے اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا
کرنسی نوٹ تھا۔
اقوام متحدہ کو گولڈن جوبلی کے حوالے سے 29 جنوری 1996کو حکومت پاکستان نے
ایک خصوصی سکہ جاری کیا، اس سکے کی پشت پر اقوام متحدہ کا لوگو اور پچاس کا
ہندسہ کندہ تھا۔ 22 مارچ 1997 کو حکومت نے پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات
کے حوالے سے پچاس روپے مالیت کا ایک خصوصی سکہ جاری کیا، اس سکے کی پشت پر
پاکستان کا پرچم بنا تھا اور پچاس سالہ جشن آزادی پاکستان 1947 تا 1997 کے
حوالے ہی سے اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے پانچ روپے کا ایک خصوصی نوٹ جاری کیا
جس کی پشت پر ملتان میں واقع شاہ رکن عالم کے مزار کی تصویر شائع کی گئی
تھی۔
26 مئی 2006کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر نے ملک کی
تاریخ کے سب سے بڑے کرنسی نوٹ جو کہ پانچ ہزار مالیت کا تھا کے اجراء کا
اعلان کیا۔ اسی روز دس روپے کا نیا نوٹ بھی جاری کیا گیا جس کا رنگ سبز
جبکہ اس کی پشت پر باب خیبر کی تصویر شائع کی گئی تھی۔26 مئی 2006 کو اسٹیٹ
بنک کی طرف سے دس روپے مالیت کا یادگاری سکہ جاری کیا گیا اس کا رنگ سفید
اور وزن 8.25 گرام تھا۔ اس کے بعد یکم اکتوبر2009کو عوامی جمہوریہ چین کے
ساٹھویں جشن آزادی کے موقع پر دس روپے مالیت کا ایک یادگاری سکہ جاری کیا
گیا۔ اس کی پشت پر پاکستان اور چین کے پرچموں کی تصویروں کے ساتھ ”ساٹھ
سالہ جشن آزادی عوامی جمہوریہ چین“ اور ”پاک چین دوستی زندہ باد“ کی عبارت
درج تھی۔ |