فخرِ پاکستان، بیسویں اور اکیسویں صدی کے سائنسدان (حصہ دوّم)

ایوب خان امیہ
14 اپریل 1930 میں پیدا ہوۓ اور 11 جولائ 2008 میں وفات پائ۔ آپ پاکستانی اور امریکن نیوروسرجن تھے۔ ایوب خان 'امیہ ریزروائر' کے موجد تھے۔ اس ریزروائر کو دماغی ٹیومر کی ٹیومر سائٹ کی ڈائریکٹ کیموتھراپی کے لئے استمعال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر امیہ دماغی ٹرامیٹک انجریز کے علاج کے ماہر تھے۔ انھوں نے "دی مسلمز ہو شیپڈ امریکہ" کے نام سے ایک مشہور آرٹیکل بھی لکھا۔ ان کے لکھے ہوۓ 150 سے زائد آرٹیکلز، اسباق اور کتابیں شائع ہوئیں۔ امیہ کی ریسرچ، کینسر کے علاج، دماغ کی ٹرامیٹک انجری، سی ایس ایف مصنوعی عضو اور ذہنی فلاسفی پر مبنی تھی۔ 1992 میں ریلیز ہونے والی ایک فلم 'لورینزوز آئل' میں بھی امیہ نے کام کیا۔ ان کی کارکردگی پر 1982 میں انھیں ستارہ امتیاز دیا گیا۔

سید امجد حسین
1937 میں پشاور میں پیدا ہوۓ۔ امجد حسین سرجری کی ایک مخصوص شاخ، کارڈیوتھوراسک کے سرجن، رائٹر، موجد، فوٹوگرافر، کالمسٹ، غیر معروف علاقوں کے سیاح اور کمیونٹی لیڈر ہیں۔ امجد حسین دو سرجیکل ڈیوائسز، پلیئوروپیرٹونیل اور اسپیشل ایڈوٹریچیل کے موجد ہیں۔ انھوں نے میڈیکل لٹریچر پر 50 ریسرچ پیپرز، 20 اسکالرلی ادراکی وقوف، تعلیمی اداروں کے لئے 60 سے زائد لیکچرز اور 400 سے زائد آرٹیکل لکھے جو کہ بہت سے اخباروں اور میگزینوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی کھینچی ہوئ تصاویر 35 سے زیادہ میگزینوں کے کور پیج اور 8 کیلنڈروں میں چھپ چکی ہیں۔ آج کل وہ کالج آف میڈیسن اینڈ لائف سائنسز اور کالج آف لٹریچر، لینگوجز اینڈ سوشل سائنسز، یونیورسٹی آف ٹولیڈو میں امریطس پروفیسر آف تھوراسک اینڈ کارڈیوویسکیولر سرجری، ہیں۔ انھوں نے ملکی اور غیر ملکی بہت سے اعزازات جیتے۔ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ آف خیبر میڈیکل کالج 1992 اور 2005، پشاور کے شہریوں کی طرف سے "باباۓ پشاور" کا خطاب 1998، خیبر میڈیکل کالج کی ظرف سے "فرزند خیبر" کا خطاب 1993

سلطان بشیرالدین محمود
1940 میں امرتسر میں پیدا ہوۓ۔ آپ نیوکلیئرانجینیئر اور اسلامک اسٹڈیز کے اسلامسٹ اسکالر ہیں۔ 1968 میں پی اے ای سی میں شامل یوۓ اور وہاں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ محمود سویلین ری ایکٹر ٹیکنالوجی کے ماہر اور کینوپ 1 جو پاکستان کا پہلا کمرشل نیوکلیئر پاور پلانٹ تھا، میں سینئر انجینئر تھے۔ انھیں فزکس کمیونٹی میں اپنی سائنسی ایجادات کی وجہ سے منفرد مقام حاصل ہے۔ 1998 میں انھیں نیوکلیئر پاور ڈویژن کا ڈائرکٹر بنادیا گیا۔ 1999 تک آپ اس عہدے پر قائم رہے۔ 1999 میں پی اے ای سی سے ریٹائرمنٹ کے بعد اںھوں نے سائنس اور اسلام کے تعلق سے متعلق کتابیں اور آرٹیکلز لکھے۔ اعزازات، ستارہ امتیاز 1998، گولڈ میڈل پاکستان اکیڈمی آف سائنسز 1998

انور علی
1943 میں ہوشیار پور میں پیدا ہوۓ۔ انور علی نیوکلیئر عالم طبیعات ہیں۔ انھوں نے 2006 سے 2009 تک پی اے ای سی کے چیئر مین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ انور علی کا پاکستان نیوکلیئر ڈیٹرنٹ پروگرام میں ایک اہم کردار تھا، جہاں وہ نیوکلیئر فزکس ڈیویژن کے پیش قدم رکن تھے۔ انور علی نے 1970 سے 1980 تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور منیر احمد خان کے ساتھ مل کر نیوکلیئر ویپن پروگرام کے لئے کام کیا۔ انور علی سائنسدانوں کی اس ٹیم کا حصہ تھے جو پاکستان کے کامیاب ایٹمی دھماکے چاغی۔ 1 اور چاغی۔ 2 میں شامل تھے۔ اعزازات، نشانِ امتیاز 2016، ہلالِ امتیاز 1998، پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ 2003، چاغی میڈل 1998

شاہد حسین بخاری
17 جنوری کو 1952 میں لاہور میں پیدا ہوۓ۔ بخاری الیکٹریکل اور کمپیوٹر انجینیئر ہیں جو متوازی اور ڈسٹری بیوٹڈ کمپیوٹنگ میں اپنی ریسرچ کی وجہ سے مشہور ہیں۔ کمپیوٹر اور کمپیوٹر کی ریسرچ کے حوالے سے ان کی مشہور کتاب " آن دی میپنگ پرابلم " 1981 میں شائع ہوئ۔ کمپیوٹر کی ترقی میں ان کا بہت اہم کردار ہے۔

ثمر مبارک مند
17 ستمبر 1942 کو راول پنڈی میں پیدا ہوۓ۔ مبارک مندنیوکلیئر عالم طبیعات ہیں جو لینئر ایکسیلریٹر کی گاما اسپیکٹروس کاپی اور تجرباتی ترقی کی ریسرچ کے لئے مشہور ہیں۔ مبارک مند منظر عام پر تب آۓ جب پاکستان کے پہلے کامیاب ایٹمی دھماکے میں شامل ٹیم کے دائریکٹر منتخب ہوۓ۔ پی اے ای سی میں مبارک مند نے کیمیکل انجینیئرنگ میں سینئر سائنسدانوں کے درمیان اپنا نام پیدا کیا۔ 1990 مین مبارک مند نے پاکستان کے خلائ پروگرام کی ترقی کے لئے پیش رفت کی اور انجینیئرز کی ایک ٹیم تشکیل دی جنھوں نے کامیاب ' شاہین پروگرام' ترتیب دیا۔ 1999 میں اس پروگرام کے تحت مبارک مند کی قیادت میں ایک کامیاب دھماکے کا تجربہ کیا گیا۔ کامیابی کے اسی دور میں مبارک مند کی ٹیم نے بابر اور غزنوی نام کے طاقت ور اور تباہ کن ھتھیار بھی بناۓ۔ 2008 میں مبارک مند خلائ پرگرام کے پرامن استمعال کے لئے پلاننگ کمیشن میں شامل ہوۓ۔ 2013 میں بلوچستان کی صوبائ حکومت کو معدنی نوعیت کی دھات نکالنے کے لئے اعانت کی۔ اعزازات ،نشانِ امتیاز 2004، ہلالِ امتیاز 1998، ستارہ امتیاز 1993، پی اے ایس نذیر احمد ایوارڈ 2005، انٹر نیشنل سائنٹسٹ آف دی ایئر 2007۔ مبارک مند پاکستان نیوکلیئر سوسائٹی کے لائف ممبر ہیں۔

محمد حفیظ قریشی
28 جنوری 1930 میں کپورتھلا میں پیدا ہوۓ۔ 11 اگست 2007 میں واہ کینٹ میں وفات پائ۔ حفیظ قریشی نیوکلیئر سائنسدان اور مکینکل انجینیئر تھے۔ پی اے ای سی میں اپنی نمایاں کارکردگی کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ پی اے ای سی میں شمولیت کے بعد قریشی 1963 میں لاہور میں اٹامک انرجی سینٹر کے سینئر اسٹاف میں شامل ہوگۓ جہاں انھوں نے مکینیکل شاپ میں کام کیا۔ 1965 میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ تیکنالوجی کے ممبر بنے۔ 1971 میں آپ ریڈی ایشن آسوٹوپ ایپلیکیشن ڈویژن کے ڈائریکٹر بن گۓ۔ 2005 میں پی اے ای سی سے ریٹائر ہوۓ اور انسٹیٹیوٹ آف انجینیئرنگ اینڈ ایپلائڈ سائنسز میں مکینیکل انجینیئرنگ فاکلٹی کے رکن بن گۓ۔ اعزازات، ستارہ امتیاز 1992، ہلالِ امتیاز 2000

رفیع محمد چوھدری
یکم جولائ 1903 میں پیدا ہوۓ۔ 4 دسمبر 1988، لاہور میں وفات پائ۔ رفیع محمد نیوکلیئر عالم طبیعات اور گورمنٹ کالج یونیورسٹی میں پارٹکل فزکس کے پروفیسر تھے۔ آپ پاکستان میں نیوکلیئر فزکس کی ریسرچ کے بانی تھے۔ عبدالسلام اور عشرت حسین عثمانی جو 1970 کی دہائ میں پاکستاان کے نیوکلیئر ھتھیاروں کی ریسرچ پروگرام کے موجد تھے، کے ساتھ رفیع چوھدری کا نام بھی آتا ہے۔ آپ 1960 میں پی اے ای سی میں شامل ہوۓ، وہاں وہ نیوکلیئر تیکنالوجی میں ریسرچ کرتے تھے۔ رفیع چوھدری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس کے پہلے ڈائریکٹر تھے اور وہاں نیوکلیئر پارٹکل ایکسیلریٹر کی انسٹالیشن سے منسلک رہے۔ ان کے 42 ریسرچ پیپرز اسی دوران شائع ہوۓ۔ رفیع سائنسدانوں کی اس ٹیم کے سپروائزر تھے جنھوں نے ریڈیو آئسوٹوپس کا پہلا کامیاب بیچ متعارف کروایا۔ 1975 میں سولڈ اسٹیٹ فزکس پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر کام کیا۔ 1977 میں انھیں وہاں کا امریطس پروفیسر بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر رفیع کے نو بچے تھے جو سارے کے سارے عالم طبیعات بنے جن میں ڈاکٹر انور چوھدری جو آج کل جرمنی میں کام کر رہےہیں اور دوسرے ڈاکٹر منور چوھدری جو کیوینڈش لیبارٹری، کیمرج یو کے میں کام کرتے ہیں۔ اعزازات، ہلالِ امتیاز 2004، نشانِ امتیاز 1998، ستارہ امتیاز 1965، ستارہ خدمت 1954۔ وفات کے بعد ایک انسٹیٹیوٹ رفیع چوھدری ہائ ٹینشن لیبارٹری، گورمنٹ کالج یونیورسٹی کے نام سے، ان کے نام پر ہے۔

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 30374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.