مرہم

مرہم ہروقت اپنی جیب میں رکھیے، جہاں کوئی ضروت مند ملے ،ثبت کردئیجیے۔ خیر بانٹیے اور برکتیں حاصل کیجیے

دنیا کے ہر فرد کو توجہ، ہمدردی اور تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔ انسان جتنابڑا اور مالدار ہوگا، اس کو اتنی ہی زیادہ توجہ، ہمدردری اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ ایسا سودا ہے جو مقام، مرتبے اور پیسے سے نہیں ملتا بلکہ مالِ بدل ہے، آپ جتنی محبت، ہمدردی اور تعاون دوسروں کو دیں گے اس کے نعم البدل کے طور پر آپ کو اس سے کہیں زیادہ محبت، ہمدردی اور تعاون حاصل ہوگا۔ یہ معاملہ صرف مثبت ہی نہیں بلکہ منفی بھی ایسا ہی ہے، جتنی نفرت، بیگانگی، دھوکہ اور کنجوسی کا مظاہرہ کیا جائے گا، وہ گھوم پھر کر واپس آپ کی طرف پلٹ آئے گی۔اس کا تعلق مذہب اور عقیدے سے نہیں بلکہ انسانیت سے ہے۔مسلمانوں کے لیے یہ معاملہ دُہرے فائدے کا ہے، دنیا میں بکھیری جانے والی محبتیں، خوشیاں اور سہولتیں تو ہر فرد کو اس کی زندگی میں ہی واپس مل ہی جاتی ہیں لیکن مسلمان اپنے عقیدے کی بدولت اس سے کئی گنا زیادہ منافع حقیقی اور ابدی زندگی کے لیے بھی محفوظ کرلیتا ہے۔یہ اتنا پکا سودا ہے کہ اسے رب العالمین نے اپنے ذمے قرض قرار دیا ہے۔

پاکستان دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں شمار ہوتا ہے جس کے لوگ ایثار پیشہ ہیں۔ ایثار، قربانی، صدقہ اورخیرات صرف مال کی صورت میں ہی نہیں دیا جاتا بلکہ یہ ایک رویے کا نام ہے۔ مال تو وہی دے گا، جو صاحب مال ہے لیکن محبت کے دو بول ہر فرد دے سکتا ہے جس کے جبڑوں کے درمیان زبان کی نعمت میسر ہے،، دست شفقت تو ہر وہ فرد بڑھا سکتا ہے، جس کو اللہ نے دو یا کم از کم ایک ہاتھ سے نواز رکھا ہے۔ محبت بھری نگاہ ہر وہ فرد عطیہ کرسکتا ہے جسے اللہ نے بینائی کی نعمت سے ہمکنار کررکھا ہو، بھلے وہ ایک ہی آنکھ ہو۔

تیمارداری کی اہمیت وہی جانتا ہے جو کچھ دن علالت میں گزار چکا ہو۔فاتحہ خوانی کی اہمیت اس سے پوچھیے،جس کا کوئی پیارا موت کے منہ میں چلا گیا ہو اور کس، کس نے اظہار افسو س کیا، کس نے اس موقع پر ہمدردی کے دو بول بولے، کون اس گھڑی کو بھلا سکتا ہے۔شفقت کی نگاہ اور سر پر ہاتھ پھیرنے، گلے لگانے اور پیار کرنے کی قیمت اس سے پوچھیے جوماں یا باپ کی نعمت سے محروم ہو۔ راستہ بھول جانے والے کو منزل کی نشان دہی کردینے میں کیا جاتا ہے، کسی پریشان حال سے خیریت پوچھنے پر کتنے دام لگتے ہیں۔ کسی کے آنسو پونچ لینے میں کیا خرچ ہوتا ہے۔

یہ سب کچھ رب کی عطا کردہ نعمتوں کی زکوا ہے۔ یہ دراصل اپنے لیے خوشیاں، محبتیں، سہولتیں اور آسانیاں خریدنے کا سودا ہے۔کیا کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے سے ہاتھ گھس جائے گا؟ کیا کسی کو اچھائی کی دو باتیں کہنے سے زبان کمزور پڑ جائے گی؟ کیا کسی بیمار کے سرہانے کھڑے ہوکر حوصلہ دینے سے ہمارے جسم میں قوت کم ہو جائے گی؟بالکل اسی طرح دوسروں کے لیے دئیے گئے مال میں سے بھی ایک پائی کم نہیں ہوتی، بلکہ اضافے کا ہی سبب بنتی ہے۔

ہاں اگر آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال بھی ہے تو اس کا اڑھائی فیصد یا اس سے کچھ زیادہ دینے سے مال میں برکت ہوگی، اضافہ ہوگا بلکہ حیران کن اضافہ ہوگا۔ نقد منافع بھی حاصل ہوگا اور حقیقی اور ابدی زندگی کے لیے رب العالمین کے نام قرض بھی واجب ہو جائے گا۔ ایسا رب جس سے بڑھ کرکوئی ایفائے عہد کر ہی نہیں سکتا اور ایسا رب جو اپنے ذمہ قرض کا ہزار گنا بلکہ کئی ہزار گنا بڑھا کر دینے کر دے گا۔
خیر کو عام کرنے کے لیے غریب، لاچار اور بے بس کا انتظار نہ کیجیے، مذہب، مسلک، برادری اور علاقے کی تفریق میں نہ جائیے، ہر انسان اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ خیر کو عام کیجیے، بے دریغ کیجیے، ان گنت کیجیے، بے شمار کیجیے، چھپ کر کیجیے، سرعام کیجیے، اپنوں کے لیے، غیروں کے لیے، انسانوں کے لیے، جانوروں کے لیے۔ یہ سودا کردیجیے، منافع صحت، سلامتی، صبر، شکر، حوصلے، عزم، مال، دولت اور عزت و توقیر کی صورت میں ملے گا اور بے حساب ملے گا۔

بس بات یقین اور اعتماد کی ہے۔ اپنے ہاتھ میں، اپنی نگاہ میں، اپنے قلب میں اور اپنی جیب میں ہمیشہ مرہم رکھیے، جب اور جہاں محسوس کریں، اسے پیش کیجیے۔آخری بات حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو ضرورت مندوں کے لیے محنت کرتا ہے اس کا اجر جہاد فی السبیل اللہ جیسا ہے اور جو ضرورت مندوں کے لیے ایثار کرتا ہے اس کی ضرورتیں اللہ اپنے ذمے لے لیتا ہے۔
 

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105305 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More