ہم ترقی کسے کہتے ہیں؟

اس سوال کا جواب ایک ہی جملے میں دینا ذرا مشکل ہے کہ ہم ترقی کسے کہتے ہیں؟ عام طور پر سننے میں آتا ہے اور سمجھا بھی یہی جاتا ہے کہ ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ پچھلے پندرہ بیس سال پہلے کا موازنہ آج سے کیا جاۓ تو بظاہر کافی تبدیلیاں نظر آئیں گی جنھی عام طور پر ہمارے ہاں ترقی کانام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ،پہلے اتنی سڑکیں نہیں تھیں مگر اب سڑکوں میں بہت اضافہ ہوگیا ہے وغیرہ۔ بات یہ ہے کہ اگر پہلے سڑکیں نہیں تھیں تو پہلے اتنی گاڑیاں بھی نہیں تھیں۔ جتنی گاڑیاں پہلے تھیں اس حساب سے سڑکیں بہت زیادہ تھیں۔ آج گاڑیاں زیادہ ہیں مگر سڑکیں ناکافی ہیں۔ کیا اسے ترقی کہیں گے؟

پندرہ بیس سال پہلے ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون نہیں ہوتا تھا مگر اب بچوں تک کے ہاتھوں میں موبائل فون ہے۔ جو فون سِم اس وقت تین سے چار ہزار میں آتی تھی اب دس دس روپے میں دستیابہے۔ اب موبائل فون صرف بات کرنے کے لئے استمعال نہیں ہوتا بلکہ دنیا جہان کے غلط کاموں کے لئے بھی استمعال ہوتا ہے۔ فون کا اصل مقصد ہی فوت ہوگیا ہے۔ ہم اس کام میں مغرب کی ایجادات سے مستفید تو ہوۓ مگر اس کا صحیح استمعال نہ سیکھا۔ کیا ہم اسے ترقی کہیں گے؟

پہلے ٹی وی دیکھنے کے لئے اینٹینا لگایا جاتا تھا پھر اس کی جگہ ڈش اینٹینا نے لے لی اور پھر ہم نے اتنی ترقی کی کہ اب غریب سے غریب گھرانے جہاں دو وقت کی روٹی بھی بمشکل پوری ہوتی ہے وہاں بھی آپ کو کیبل ضرور ملے گی۔ انٹرنیٹ کا استمعال ہر کسی کی پہنچ سے دور تھا اور زیادہ تر کمپیوٹرز پر استمعال ہوتا تھا۔ اب یہ سہولت بچے بچے کے موبائل فون میں موجود ہے۔ گھر گھر انٹرنیٹ کیبل اور طرح طرح کی ڈیوائسز موجود ہیں۔ پہلے کیبل اور پھر موبائل فون اور پھر انٹرنیٹ، ان سب چیزوں کے بے جا اور منفی استمعال نے خاص کر نوجوانوں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ کون سی ترقی ہے؟

پندرہ بیس سال پہلے ایک روٹی بارہ پیسے کی آتی تھی اور اب پانچ سے سات روپے کی آتی ہے۔ غریب پہلے ایک وقت کی روٹی کے لئے ترستا تھا تو اب دونوں وقت کی روٹی کے لئے ترستا ہے۔ پہلے وہ بے چارہ روکھی سوکھی روٹی کھا کر گزارا کر لیتا تھا مگر اب وہی روکھی روٹی اتنی مہنگی ہے کہ وہ ایک وقت بھی پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتا۔ بچپن سے پڑھتے آۓ ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہمارے ملک سے گندم، چاول اور بہت سے اجناس ملک سے باہر بھی بھیجے جاتے ہیں۔ یہ کیسا زرعی ملک ہے جس میں غریب کا پیٹ نہیں بھرتا؟ جہاں بے شمار بچے روزانہ بھوکے سوتے ہیں۔ آپ اسے ترقی کہتے ہیں؟

گھروں میں جب پہلے دودھ ابالا جاتا تھا تو اس کی خوشبو پورے گھر میں پھیل جاتی تھی۔ مگر اب جب دودھ ابالا جاتا ہے تو اس کی ناگوار بو سے بچوں نے دودھ پینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ دودھ کا ذائقہ تک بدل گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اب بھینسوں کو ہارمونز کے ٹیکے لگا کر دودھ نکالا جاتا ہے اور یہیں بس نہیں کیا جاتا بلکہ اس دودھ میں نہ جانے کس کس چیز کی آمیزش کر کے اس کی مقدار میں اضافہ کیا جاتا ہے اور اسے گاڑھا بنایا جاتا ہے۔ ابھی یہاں بھی بس نہیں ہوئ جناب ہم نے پورے کا پورا دودھ ہی جعلی بنانا شروع کر دیا ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر یہ کام ہمارے ملک میں کیا جا رہا ہے۔ اگر چاہیں تو انٹرنٹ پر ایسی بہت سی وڈیوز مل جائیں گی جس میں جعلی دودھ بناتے دکھایا گیا ہے۔ اگر یہ ترقی ہے تو واقعی لاجواب ہے۔

یہ کیسا لٹریسی ریٹ بڑھا ہے جس نے جہالت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ زیادہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں صرف پندرہ بیس سال پہلے کے میٹرک پاس اور آج کے میٹرک پاس سے انٹرویو لیں، دو منٹ میں ہی آپ کو فرق معلوم ہوجاۓ گا۔

ملاوٹیں کم تھیں، گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کم تھے۔ فصلوں کو گٹروں کا پانی نہیں لگایا جاتا تھا تو بیماریاں بھی کم تھیں۔ جیسے جیسے اشیاء اور دوائیوں میں ملاوٹیں بڑھیں، بیماریاں بڑھیں۔ غیر معیاری خوراک اور ماحول کی آلودگی نے مل کر بیماریوں کا بازار لگادیا مگر ہم ترقی کر رہے ہیں جناب۔

ایک عام مزدور جتنا کماتا ہے اس میں وہ اپنی روٹی بمشکل پوری کرتا ہے مگر گرمیوں میں اس کو جب بجلی کا بل دینا پڑتا ہے تو پوری کمائ اسی میں لگ جاتی ہے۔ اس کے باوجود دس سے بارہ گھنٹے وہ بغیر بجلی کے گزارتا ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوتا مگر بجلی کے بلوں میں آۓ دن اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بے چارے عوام سردیوں میں گیس کو ترس جاتے ہیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ جو ملک گیس میں اتنا خود کفیل ہے اس ملک میں بھی کبھی گیس کی بے تحاشا لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ سردیوں میں سارا سارا دن گیس نہ ہو اور اس پر ایک عام آدمی کا بل 1000 سے 1500 تک آجاۓ تو کیا کہا جاۓ گا؟ ظاہر ہے ترقی ہی کہا جاۓ گا۔

آۓ دن اخباروں میں خبریں آتی ہیں کہ جس کے مطابق تقریباً ہر برانڈ کا کھانا پکانے میں استمعال ہونے والا تیل غیر معیاری اور صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ اچھی اچھی کمپنیوں کے ڈبہ پیک دودھ میں جھاگ بنانے کے لئے سرف ملایا جاتا ہے اس لئے وہ بھی مضر صحت ہیں۔ اسی طرح بےشمار ادویات ایسی ہیں جو پوری دنیا میں صحت کے لئے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے بند کر دی گئ ہیں مگر ہمارے ملک میں ان کی سیل جاری ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہم اتنے سنگ دل ہیں کہ جانوروں کو لگانے والے ٹیکے انسانوں کو لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہارمونز کے جو ٹیکے بھینسوں کے دودھ نکالنے کے لئے لگاۓ جاتے ہیں وہ غیر تربیت یافتہ دائیاں، غریب عورتوں کو بچے کی پیدائش کے لئے لگاتی ہیں اور اس سے کتنی عورتوں کی موت واقع ہوجاتی ہے اس سے کسی کو غرض نہیں۔

ہم نے ترقی نہیں کی، مہنگائ، غربت، جہالت، بے روزگاری اور آبادی نے ترقی کی ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے منفی استمعال اور نوجوان نسل میں بگاڑ نے ترقی کی ہے۔ پیسہ کی ہوس اور انسانوں میں درندگی نے ترقی کی ہے۔ جابجا کوڑے کے ڈھیر، گندگی اور غلاظتوں نے ترقی کی ہے۔ کھیتوں میں گٹروں کا پانی لگانے، جانوروں کے ٹیکے انسانوں کو لگانے نے ترقی کی ہے۔ ہر چیز میں ملاوٹوں، جعلی دوائیوں اور بیماریوں نے ترقی کی ہے۔

مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اپنے ملک سے محبت نہیں۔ یہ وطن کی محبت کا ثبوت ہی تو ہے جو اتنے دکھ سے یہ سب کچھ لکھا گیا ہے۔ ورنہ اتنا کہہ دینا کافی ہوتا کہ ہمیں کیا اس ملک میں جو بھی ہوتا ریے، بس ہمارا کام ٹھیک چل رہا ہے، یہی کافی ہے۔
موج بڑھے یا آندھی آۓ، دیا جلاۓ رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے، گھر تو آخر اپنا ہے

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 30385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.