غلو سے بچیں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

بحری جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا ، اچانک کچھ آواز سی آنے لگی ، تھوڑی دیر میں اعلان ہوا کی جہاز کے انجن میں خرابی ہو گئی ہے اس لئے قریب ہی جزیرے میں جہاز لنگر انداز ہو گا، جزیرے پہنچ کر کپتان نے اعلان کیا کہ انجن کی خرابی دور ہونے میں چار گھنٹے لگیں گے اس لئے مسافراتر کر اس جزیرے کی سیر کر لیں اور شام پانچ بجے جہاز روانہ ہوگا۔

تمام مسافر اس جزیرے میں اتر گئے، جزیرہ بہت ہی خوب صورت تھا، جزیرے میں پہنچ کر مسافر تین حصوں میں تقسیم ہو گئے ، پہلی جماعت نے روانگی کے وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس جزیرے سے لطف اندوز ہوئے اور وقت سے پہلے ہی جہاز میں اطمینان سے اچھی نششتوں پر بیٹھ گئے ، دوسری جماعت نے خوب سیر کی اور آگے تک چلے گئے پھر اچانک انہیں روانگی کے وقت کا خیال آیا تو پریشان ہوئے اور ڈورتے ہوئے کسی نہ کسی طرح جہاز تک پہنچ گئے اور جیسی تیسی نششت ملی اسی کو غنیمت جانا ، تیسری وہ جماعت تھی جو اس جزیرے پر فریفتہ ہو گئی اس میں ایسے گم ہوئے کہ روانگی کے وقت کو ہی بھلا بیٹھے ، وقت مقررہ پر جہاز روانہ ہو گیا اور وہ اس جزیرے ہی میں رہ گئے ، جب سورج غروب ہوا تووہی جزیرہ جو دن کے اجالے میں بہت خوب صورت لگ رہا تھا ، اندھیرا چھاتے ہی خوفناک جنگل میں تبدل ہو گیا، ہبتناک آوازیں رہ جانے والے مسافروں کے لئے موت کا پیغام بن گئیں۔

ہر کام کی زینت حدود میں رہ کر کام کرنے میں ہے، جب آدمی حد سے نکل کر غلو میں مبتلا ہو جاتاہے تو مٖفید کام بھی مضر بن جاتے ہیں ، اب چاہے وہ دینی کام ہو یا دنیوی ، مثلا موبائل فون ایک بہت بڑی نعمت ہے لیکن حد سے تجاوز اس نعمت کو زحمت بنا دیتی ہے،حلال روزی کمانا انسان کی ایک بہت بڑی ضرورت ہے لیکن اس کو اس قدر اپنے اوپر سوارکر لیتے ہیں کہ نہ ماں باپ کی خبر نہ ہی بیوی بچوں کا خیال ، جو مقصد زندگی میں معین ہوتا وہی مقصدزندگی بن کر وبال جان بن جاتا ہے،اﷲ تعالی نے زبان کی عظیم نعمت عطاء کی اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ صحیح جگہ پر سوچ سمجھ کر اس نعمت کو استعمال کیا جائے ، لیکن افسوس کی جہنم میں کثرت سے لوگ اسی وجہ سے جائیں گے ، اس چھوٹی سی زبان سے بولی جانے ہزاروں زبانیں اﷲ تعالی کی معرفت کا ذریعہ بننے کے بجائے تنازعات کا سبب بن رہی ہیں ،اتفاق و اتحاد ، محبت و بھائی چارگی اچھی باتیں ہیں لیکن یہ امور بھی اس وقت قابل قدر ہیں جب حدود میں ہوں، لوگوں نے اﷲ والوں سے محبت میں اس قدر غلو کیا کہ خدائی کا درجہ دے ڈالا ، حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مجھ سے ایسی محبت نہ کرنا جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے عیسائیوں نے محبت کی کہ ان کو اﷲ تعالی کا بیٹا بنا ڈالا، محبت میں غلو سے ہی گھرگھر جھگڑے ہیں ، بیوی سے ایسی محبت کی کہ ماں کو فراموش کر دیا، یا پھر ماں کی محبت میں بیوی کو نظر انداز کر دیا ۔ کسی ایک بیٹے یا بیٹی کی محبت میں دوسروں محروم کر دیا، بعض رفاہی کاموں میں ایسے لگے ہیں کہ فرائض تک سے غافل ہو جاتے ہیں ، جب ان کی توجہ ڈلائی جائے تو جواب ملتا ہے کہ خدمت خلق بھی تو بہت بڑی نیکی ہے،لیکن انہیں کون سمجھائے کہ جب نماز کھڑی ہو جائے تو تلاوت قرآن بھی جائز نہیں، نماز کے وقت کعبے کا طواف بھی رک جاتا ہے ،پھر انکا نماز یا اور فرائض کے وقت رفاہی کاموں میں لگنا کہاں جائز ہو گا؟ ایسے ہی دیگر دینی امور میں ایسے لگتے ہیں کہ اسی کام کو دین کا اہم کام تصور کرتے ہیں ، اور دوسروں حقیر سمجھ کر بے جا تنقید کر تے ہیں ، ہماری مسجد کے ایک ساتھی جب پہلی بار چار ماہ کے لئے تبلیغی جماعت کے ساتھ گئے ،ایک مسجد میں ٹھرے تو وہاں کے خطیب جو کہ تبلیغی طریق کار سے اختلاف رکھتے تھے ، جماعت کو دیکھ کر کہنے لگے کہ تبلیغ تو اب سیر و تفریح بن گئی ہے او ر لوگ اسی غرض سے جاتے ہیں ، یہ سن کر ہمارے ساتھی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، خطیب صاحب نے ان کے آنسو دیکھ لئے تو ساتھی سے وجہ دریافت کی، ہمارے ساتھی نے کہا کہ جب میں نکلا تو میری بچیاں میرے پاؤں سے لپٹ گئیں ، ان کو روتا چھوڑ کر نکلا ، ان چار ماہ کے دوران میرے جواں سال بھائی کا انتقال ہو گیا مجھے صرف نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت ملی، میرے بھائی کے یتیم بچے میری آنکھوں کے سامنے تھے،اپنا کاروبار ،گھر کا راحت آرام چھوڑا ، ہمارے ساتھی نے خطیب سے کہا کہ آپ کے اسے سیر و تفریح کہنے پر میں اپنے آنسو نہ روک سکا۔کمی کوتاہیاں کس جماعت میں نہیں ہوتی ، لیکن بحیثیت مجموعی تبلیغی جماعت سے دنیا بھر میں جو فائدہ ہو ا وہ کسی اور جماعت سے نہیں ہوا، لیکن غلو اور افراط یہاں بھی مضر ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے سلسلے سے وابستہ ایک بہت بڑے عالم کی ایک مسجد میں جمعہ کے دن بعد نماز عصر اصلاحی مجلس ہوتی تھی، اس مسجد کے کچھ تبلیغی ساتھی ان بزرگ سے ملنے آئے اور کہا کہ آپ جمعہ والے دن مجلس نہ کیا کریں اس لئے کہ ہمارا اس دن گشت ہوتا ہے، ان بزرگ نے تحمل سے ان کی بات کو سنا اور فرمایا کہ آپ صحیح کہتے ہیں ایک ساتھ دو کام تو نہیں ہونے چاہئے اور تجویز دی کہ ہم وقت تبدیل کر لیتے ہیں تو تبلیغی حضرات نے کہا کہ ہمارا وقت تو مغرب سے عشاء تک کا ہے لیکن آ پ کی مجلس میں لوگ جب عصر کو آجاتے ہیں تو پھر مغرب میں ہمارے پاس کوئی نہیں بیٹھتا، ان بزرگ نے فرمایا کے یہ تو کوئی وجہ نہ بنی ، تو چھوٹ کر ان تبلیغی ساتھیوں کی زبان سے نکلا کہ آپ دین میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، جب کہ ان اﷲ والے بزرگوں کا اصلاحی مجلس کے لئے وقت دینا یہ ہمارے لئے بہت بڑی سعادت ہے ، حضرت مولانا الیاس ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ً حضرت تھانوی ؒ نے بہت بڑا کام کیا ہے، بس میرا دل یہ چاہتا ہے کہ تعلیم تو ان کی ہو اور طریقہ تبلیغ میرا ہو کہ ان کی تعلیم عام ہو جائے گی ً نیز فرمایا کہ حضرت تھانوی ؒ کے لئے ایصال ثواب کا بہت اہتمام کیا جائے اور ہر طرح کی خیر سے ان کو ثواب پہنچایا جائے ، حضرت تھانویؒ سے منتفع ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی محبت ہو اور ان کی کتابوں کے مطالعہ سے منتفع ہوا جائے ، ان کی کتابوں کے مطالعہ سے علم آوے گا، اور ان کے آدمیوں سے عمل ً مبلغ اسلام حضرت مولانا طارق جمیل مدظلہم نے اپنے ایک بیان میں غالبا انہیں غلو میں مبتلا ساتھیوں کے بارے میں فرمایا کہ ً میں چشم دید گواہ ہوں کہ برصغیر جیسے علمائے کرام پوری دنیا میں میں نے نہیں دیکھے علم کے لحاظ سے بھی اور قربانی کے لحاظ سے بھی ، اور فرمایا کہ اﷲ تعالی کا واسطہ دیکر کہتا ہوں کہ یہ مت کہو کہ صرف یہی دین کا کام ہے بلکہ جتنے بھی دین کے شعبے ہیں وہ سب کے سب دین کے راستے ہیں۔ًالغرض ہر کام کی زینت اس کا حسن حدود کے اندر کام کرنے میں ہے ، جبکہ غلو اور افراط ایک خوب صورت وادی کو وحشت ناک اور خوفناک جنگل میں تبدیل کر دیتا ہے۔

Ilyas Katchi
About the Author: Ilyas Katchi Read More Articles by Ilyas Katchi: 40 Articles with 35568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.