نو مسلم ہم سے اچھے کیوں؟

رومانیہ کے ایک نو مسلم کا بیان سن رہا تھا جو کہ ترکی کی سیر و سیاحت کیلئے گیا۔ دوران سیاحت اپنی بیوی سمیت ہوٹل کا راستہ بھول گیا او رگھومتے ہوئے کہیں دور نکل گیا۔ راستے میں اسے ایک مسلمان ملا جس سے اس نے اپنے ہوٹل کا پتہ معلوم کیا تو مسلمان نے اسے بتایا کہ اس علاقے میں جہاں آپ گھوم رہے ہیں کوئی ہوٹل نہیں ہے اور اس مسلمان نے سیاح کو کہا کہ آپ ہمارے گھر چلیں ۔ وہ اسے گھر لے گیا جہاں اسکے علاوہ 5بچے اور دو خواتین تھیں ۔ اسے وہاں سادہ سا ڈنر دیا گیا اور پھر گھر والوں نے کہا کہ آپ یہاں رات کو آرام کریں ہم دوسری جگہ سو لیں گے ۔ سیاح جو دن بھر کا تھکا ماندہ تھا وہ تو ان کے گھر میں لمبی تان کر سوگیا ۔ صبح جب وہ سو کر اٹھا تو دھوپ نکلی ہوئی تھی وہ جب کمرے سے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ سخت جما دینے والی سردی میں درخت کے نیچے وہ شخص اپنے گھر کے سات ممبران ماں ، بیوی اور بچوں کے ہمراہ سویا ہوا ہے وہ سیاح بڑا حیران ہوا کہ آپ لوگ تو عجیب و غریب ہیں آپ نے ایسا کیوں کیا؟ اسے جواب دیا گیا کہ ہم لوگ کریزی نہیں ، کیونکہ آپ ہمارے مہمان ہیں ، ہمارے مذہب میں مہمان کی عزت و اکرام کا حکم ہے۔ اسلئے ہم سب نے یہ کیا کہ خود تو باہر سوگئے اور آپکو اپنے گھر کے واحد کمرے میں سلادیا۔ جب اسے وہ کہہ رہا تھا کہ میں مسلمان ہوں تواسکا چہرہ نور سے چمک رہا تھا۔ اسکے یہ الفاظ سن کر نو مسلم کی بیوی جذبات سے رونے لگی تو مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ نو مسلم نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم کیوں رو رہی ہو، تم اسلام کے بارے میں کیا جانتی ہو؟ مسلمان شخص نے انہیں قرآن پڑھنے اور اسلام کو سمجھنے کی دعوت وہ فورا ہی لائبریری گئے اور قرآن حاصل کرکے اسے پڑھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ اسے پڑھتے گئے اسلام کی حقانیت اس جوڑے کے دل میں گھر کرتی گئی۔ عرصہ چار ماہ انہوں نے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا اور جنوری 1993 ء کو اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعدانہوں نے صرف اپنی نماز روزوں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اسلام کو پھیلانے اور غیر مسلموں تک دین حق کی تبلیغ کی ذمہ داری کو پورا کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے 112ممالک کا دورہ کیا اور ان کے ہاتھوں ایک ہزار سے زائد لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ جب انہوں نے دعوت کے ثمرات دیکھے تو اپنے ملک رومانیہ میں جہاں 80ہزار کے قریب مسلمان آباد ہیں میں ایک اسلامک سنٹر قائم کیا تاکہ نام کے مسلمانوں کو جنہیں دین اسلام کے بنیادی عقائد حتی کہ دین کے 5ارکان تک کا علم نہیں ہے قرآن و حدیث کی تعلیمات کے ساتھ اسوہ حسنہ اور معاملات زندگی کے بارے میں بتایا جاسکے انہوں نے بتایا کہ میرا یہ ٹارگٹ ہے کہ میں لوگوں کے اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کیلئے دنیا کے ہر ملک میں اسلامک سنٹر قائم کروں جہاں پر اسلام کی تبلیغ اور تعلیمات کا کام ہو ۔ ان کے مطابق اگر کوئی غیر مسلم قرآن کو کھلے دل سے پڑھے تو وہ اسلام قبول کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اسکے مطابق اﷲ تعالی نے ہمیں اسلام جیسی نعمت دی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ نہ صرف ہم خود اس پر عمل کریں بلکہ ہم اس نعمت خداوندی کو پھیلانے کی ذمہ داری کو بھی احسن طریقے سے سرانجام دیں۔ مذکورہ واقعہ اپنے اندر بہت سے سبق لئے ہوئے ہے کہ کیسے ایک عام مسلمان کے اعلی اخلاق کے باعث ایک غیر مسلم مسلمان ہوا پھر وہ ہزاروں لاکھوں کی ہدایت کا ذریعہ بنا اور پھر اسلام قبول کرنے کے بعد وہ صرف مسجد یا گھر میں نہیں بیٹھ گیا بلکہ اس نے دنیا کو اسلام جیسی نعمت خداوندی سے دنیا کو نوازنے کی ذمہ داری کو پورا کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اگر تمام مسلمان ہمارے دین کی ایک خصوصیت اچھے اخلاق ، کردار، گفتار، رویہ کا مظاہرہ کرنا شروع کردیں تو ہم کتنوں کی رشد و ہدایت کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور صحیح معنوں میں اسلام پھیلا ہی اعلی اخلاق کے باعث ہے۔ آج ہمارے برے اخلاق و معاملات دین کے پھیلاؤ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، حالانکہ ہمارے نبی ﷺ اخلاق کے اعلی معیار پر تھے۔ ان کے صحابہؓ، طبع طابعین، اولیائے کرام نے اعلی اخلاق کو اپنی زندگی میں اپنائے رکھاجس سے متاثر ہوکر لوگ اسلام میں داخل ہوتے رہے۔ قیامت کے دن بھی اعمال کے ترازو میں سب سے وزنی عمل بندے کے اعلی اخلاق ہوں گے۔ ایک حدیث پاک کے مفہوم کے مطابق حضور ﷺ ایک مرتبہ ایک صحابی کے گھر تشریف لے گئے ۔ صحابی نے حضور ؐ کو ٹیک لگانے کیلئے تکیہ دیا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو تکیہ دے گا اﷲ تعالی اس کے صغیرہ گناہ معاف کردیں گے۔ دوسری حدیث کے مطابق سلام کرنے میں پہل کرو اس سے اﷲ تکبر کو دور کرتے ہیں۔ عاجزی و انکساری پیدا ہوتی۔ متکبر اور مشرک آدمی کے بارے میں حکم ہے کہ وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ حضور ؐ تو بچوں تک کو سلام کرتے تھے۔ اسطرح اسلا م میں پڑوسی، غلام، والدین، بوڑھے مسلمان، غیر مسلم بچوں تک کے حقوق بتائے گئے ہیں اﷲ حقوق اﷲ تو معاف کردیں گے لیکن حقوق العباد کی معافی بالکل نہیں ہے۔ بات ہورہی تھی نومسلم کے واقعہ کی جس کے ساتھ اعلی اخلاق سے پیش آنے پر اﷲ تعالی نے خوش ہوکر ہزاروں مسلمانوں کو ان کے توسط سے لاکھوں کو جہنم کی آگ سے بچالیا ۔بدقسمت سے آج مسلمان تجارت میں دھوکہ، سیاست میں کرپشن، ناانصافی، معاشرت میں فرائض کے ادا کرنے میں سستی، معیشت و زراعت و صنعت میں سودی نظام کے عمل دخل کے باعث نشان عبرت بنا ہواہے۔ آج اگر 33 فیصد مسلمان اسوہ حسنہ کو اپنا لیں اور اعلی اخلاق، کردار، گفتار اور تبلیغ دین کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے پور اکرنے کی ٹھان لیں تو دنیا سے کفر ختم ہوجائے۔ آپ نو مسلموں کی ویڈیوز دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ ہم سے اچھے مسلمان ثابت ہورہے ہیں۔ ہمیں کیونکہ دین اسلام وراثت میں مل گیا ہے اسلئے ہمیں اس نعمت خداوندی کی قدر نہیں ہے۔ ہر نو مسلم مسلمان ہونے کے بعد امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے کام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر سرانجام دیتے ہیں ، دن رات ایک کردیتے ہیں لیکن ایک ہم ہیں جنہیں اپنی دنیا وآخرت کی فکر نہیں دوسروں کی کیا فکر کریں گے۔ حضور ؐ کے انتقال کے بعد صحابہ کرام ؓ کے زمانے میں جب ارتداکا دور تھا تو لوگ خدائی دعویدار ہونے کے ساتھ ساتھ زکوۃ سے انکاری ہوگئے تھے تو کئی جماعتیں مسلمانوں کی اصلاح کیلئے روانہ کی گئیں ۔ صرف زکوۃ کے انکار پر آج تو کھلم کھلا لوگ اپنی شعائر کا مذاق اڑارہے ہیں۔ 90فیصد نماز، 99فیصد زکوۃ کو چھوڑے ہوئے ہیں۔ بدعات، شرک، رسومات ، روایات نے ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کررکھاہے۔ پھر بھی ہم لوگ کہتے ہیں کہ کافروں کو تبلیغ کرو۔ ہمارا مسلمان بھائی جہنم کی طرف جارہا ہو ہم اسے چھوڑ کر دوسروں کا تعاقب کریں ۔ پہلے ضرورت ہمارے اپنے معاشرے کو ہے۔ ہم گذشتہ قوموں کی تباہی کے تمام تر برے اعمال میں گھٹنوں تک ڈوبے ہوئے ہیں ۔ اﷲ کی ذات ہمیں دین کو سمجھنے اور قرآن و حدیث کی روشنی میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137206 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.