آہ !فرزانہ ناز

غالب نے اپنے بھانجے کی موت پر جو مرثیہ لکھا تھا وہ آج میری دوست پر پورا اترتا ہے۔ اس کا ایک شعر مستعار لوں گی جس میں میری حالت اور ناز کی دائمی جدائی کی قیامت پنہاں ہے۔
جاتے ہوئے کہتے ہو کہ قیامت کو ملیں گے
کیا خوب ! قیامت کا بھی ہوگا کوئی دن اور

فرزانہ ناز کی خبر سننے کیلئے کان تیار نہ تھے مگر کیا کروں بعض خبرو ں کو جو اپنے پیاروں کے بارے میں ہوں انہیں سننا ہی پڑتا ہے ، آج میرے قلم میں زو ر ہے لیکن ہاتھوں میں طاقت نہیں ، د ل غم سے نڈھال ہے ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب اپنی دنیا میں مصروف ہو جائیں گے لیکن فرزانہ کا چار سال کا بیٹاپانچ سال کی بیٹی مامتا سے محروم اور شوہر اپنی زوجہ کی محبت سے محروم رہے گا۔ فرزانہ ناز کا تعلق کتاب سے تھا اور وہ صاحب کتاب بھی تھی۔ اس کی موت بھی کتاب میلہ میں ہو ئی۔ پہنچی وہیں پر خاک ، جہاں کا خمیر تھا اور اس کا خمیر کتاب سے ہی تھا، اور وہ کتابوں کے میلے سے ہم سے بچھڑ گئی، میلہ تو پھر میلہ ہی ہوتا ہے اور دنیا بھی چند روز کا میلہ ہے اس میلے کی بھیڑ میں ایک دوسرے سے لوگ بچھڑتے چلے جائیں گے مگر فرزانہ ناز نے جس طرح بچھڑنے کی رسم ادا کی اس کو بھلایا نہیں جاسکتا۔
جینے میں ایک تڑپ ہو تو مرنے میں ایک وقار
انسان کا نکھار اسی عکس نو میں ہے

فرزانہ ایک اچھی شاعرہ ، بہت اچھی ادیبہ اور بہترین انسان کے اوصاف حمیدہ سے متصف تھی۔ کسب کمال کی تنظیم عقب میں جو منصوبہ ذہن میں تھا ، وہ فرزانہ کا انداز تھا اس نے جان و دل سے کسب کمال تنظیم کو کمال تک پہنچا دیا تھا ، اسلام آباد میں کتاب میلہ کے بارہ فٹ اونچے اسٹیج سے گرنے والی نازک خیال فرزانہ ناز کی ریڑھ کی ہڈی اور دماغ پر شدید چوٹیں آئیں اور وہ الشفاء ہسپتال کے آئی سی یو میں کومے کی حالت میں ہم سے بہت دور چلی گئیں، جہاں ہم سب نے جانا ہے موت کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم فرزانہ ناز کے اچانک چلے جانے پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوار ہے۔ فرزانہ کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی اور اس کا نام آسمان پر اپنی روشنی پھیلاتا رہے گا۔ فرزانہ ناز کا پہلا شعری مجموعہ ’’ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ‘‘ کو ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہو ئی ، اہل قلم اور صاحب نقدو نظر نے اس کی تخلیق کو ہمیشہ سراہا۔ ادب کی بے لوث خدمت کرنے والی خاتون تھی اور ادبی حلقوں میں اسے قدر و منزلت سے دیکھا جاتا تھا، کسب کمال تنظیم میں سیکرٹری جنرل کے فرائض بخوبی انجام دینے کے ساتھ ساتھ نظامت میں ایوارڈ یافتہ تھیں۔فرزانہ کی موت نے اس کا نام ہمیشہ کیلئے زندہ کردیا ، آج میری قلم رک نہیں رہا ۔ فرزانہ ناز کے بارے میں لکھنے کیلئے میرا کالم کافی نہیں ہے وہ تو خود ایک کتاب تھی، تین ماہ کی دوستی نے صدیوں کے سفر طے کرلئے تھے، اور وہ میری ہم و دم و دَم ساز اور میں اسکی غمگسار تھی۔ دونوں طرف وفا کے رشتے جاگ رہے تھے۔ معلوم نہیں کہ کس کی نظر بد اسے کھا گئی اس کے مرنے کا یقین نہیں ہوتااور کتاب میلہ صرف اسی لئے منعقد ہوا تھا کہ میری دوست ہمیشہ کیلئے ہم سے دنیا کے میلے سے بچھڑ جائے، وزیر اعظم کے مشیر اقبال اکیڈمی کے چیئرمین عرفان صدیقی کا اعلان خوش آئند ہے کہ حکومت فرزانہ ناز کے بچوں کی کفالت اور تعلیم کے مکمل انتظامات کرے گی ، کیا کسی کے مرنے کے بعد حکمران جاگتے ہیں ،اس سے پہلے کو ئی نہیں جاگے گا ؟ میں حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ کتاب میلہ کے انتظامات میں ڈائس کے منتظمین کی باز پرس کی جائے جن کی تھوڑی سی غفلت سے اتنی بڑی قیمتی جان چلی گئی جو اپنی ذات میں ایک ادارہ تھی ، آپ حیران ہونگے کہ میں نے جب ان کی نقابت کا انداز دیکھا تو میں نے اس سے لاہور میں ہمارے دوست سینئرصحافی منشا قاضی کی نقابت کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ میں انہیں جانتی ہوں اور ان سے کبھی آپ کے ساتھ ملاقات ہو گی ، فرزانہ کا پنجابی کلام اس موقع پر آپ کے ساتھ شیئر کروں گی۔
میں مٹی دا اک کھڈونا
مٹیوں بنیا، مٹی ہو نا
کیڑیاں بڑکاں تے، کاہدے دعوے
کو ئی پتہ نہیں کل دا مینوں
مٹی دی اک ڈھیری دے وچ
کیڑا چکے ، کیڑا پاوے

خدائے بزرگ و برتر فرزانہ ناز کو جنت الفردوس میں جگہ، شوہر اسماعیل کو صبر وجمیل اور بچوں کو اپنی خاص رحمت سے نوازے۔ آمین!

Kiran Waqar
About the Author: Kiran Waqar Read More Articles by Kiran Waqar: 2 Articles with 4249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.