جلسے جلوس کا مقصد۔۔۔۔؟

جلسے میں شرکت کرنے کے لیے دیہات آپس میں کچھ اس طرح گفتگو کرتے ہیں ’’ارے بھائی فضلو!تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ آج رات ہمارے پڑوس والے گاؤں میں بہت بڑا جلسہ ہے،بڑے بڑے مولانا آرہے ہیں۔ارے اس بار تو وہ مولوی صاحب بھی آرہے ہیں جو تقرير کرتے کرتے کبھی نعت اور کبھی کچھ اور گنگنا کر پڑھنے لگتے ہیں۔بھیا صحيح بات تو یہ ہے کہ ہمیں تو بس ان کی ہی تقرير سننے میں مزہ آتا ہے،کیا دلنشیں اور لچھے دار تقرير کرتے ہیں، دو دو گھنٹے لگاتار بولتے چلے جاتے ہیں کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک نکتہ بیان کرتے ہیں۔ہم تو انہیں کی وجہ سے اس جلسہ میں شرکت کرہے ہیں اگر تمہیں بھی چلنا ہے تو جلدی سے تیار ہوجاؤ نہیں تو آگے جگہ نہیں ملے گی۔ ٹھیک ہے بھائی شکور ! ہم تو چلنے کو تیار ہیں ذرا یہ تو بتاؤ کہ کچھ اور بھی انتظام ہے کہ نہیں، میرا مطلب کھانے پینے کا بندوبست ہوجائے گا؟
فضلو بھائی کیوں فکر کررہے ہو ہم نے تو پہلے ہی منتظم صاحب سے کہہ دیا ہے کہ ہم اپنے گاؤں سے کچھ لوگوں کو لیکر آئیں گے لیکن ہمارے لئے کچھ اسپیشل انتظام ہونا چاہیے۔
بے فکر رہو سب کچھ کا نظم ہے ہم ایسے ہی تھوڑی چلے جائیں گے ۔ ـ‘‘

ابھی مدارس اسلامیہ میں چھٹیوں کا موسم چل رہا ہے جہاں ختم بخاری، ختم جلالین شریف اور جلسہ دستار بندی وغیرہ منعقد ہوتے ہیں وہیں ملک میں رمضان سے قبل گائوں دیہاتوں اور شہروں میں میں بڑے بڑے جلسے جلوس منعقد ہو رہے ہیں جس میں اصلاح معاشرہ ،دین بچائو کانفرنس، جمہوریت بچائو اور قومی یکجہتی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں; شہر کے علما کو دیکھنے اور ان کے بیانات سے استفادہ کے لیے دیہی عوام جلسہ میں شریک ہوکر جلسہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ جلسے میں شرکت کرنے کے لیے دیہات آپس میں کچھ اس طرح گفتگو کرتے ہیں ’’ارے بھائی فضلو!تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ آج رات ہمارے پڑوس والے گاؤں میں بہت بڑا جلسہ ہے،بڑے بڑے مولانا آرہے ہیں۔ارے اس بار تو وہ مولوی صاحب بھی آرہے ہیں جو تقرير کرتے کرتے کبھی نعت اور کبھی کچھ اور گنگنا کر پڑھنے لگتے ہیں۔بھیا صحيح بات تو یہ ہے کہ ہمیں تو بس ان کی ہی تقرير سننے میں مزہ آتا ہے،کیا دلنشیں اور لچھے دار تقرير کرتے ہیں، دو دو گھنٹے لگاتار بولتے چلے جاتے ہیں کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک نکتہ بیان کرتے ہیں۔ہم تو انہیں کی وجہ سے اس جلسہ میں شرکت کرہے ہیں اگر تمہیں بھی چلنا ہے تو جلدی سے تیار ہوجاؤ نہیں تو آگے جگہ نہیں ملے گی۔ ٹھیک ہے بھائی شکور ! ہم تو چلنے کو تیار ہیں ذرا یہ تو بتاؤ کہ کچھ اور بھی انتظام ہے کہ نہیں، میرا مطلب کھانے پینے کا بندوبست ہوجائے گا؟

فضلو بھائی کیوں فکر کررہے ہو ہم نے تو پہلے ہی منتظم صاحب سے کہہ دیا ہے کہ ہم اپنے گاؤں سے کچھ لوگوں کو لیکر آئیں گے لیکن ہمارے لئے کچھ اسپیشل انتظام ہونا چاہیے۔
بے فکر رہو سب کچھ کا نظم ہے ہم ایسے ہی تھوڑی چلے جائیں گے ۔ ـ‘‘

آج کل جب کسی جگہ جلسہ ہوتا ہے تو علاقہ کے لوگ تقريبا اسی انداز میں گفتگو کرتے ہوئے ملتے ہیں،گویا انہوں نے پہلے ہی یہ سوچ لیا ہوتا ہے کہ ہمیں تو تقرير محض ذہنی عیاشی کی خاطر سننا ہے، اگر مولوی صاحب کی باتیں اصلاحی ہیں اور وہ قوم کو ایک سچا اور اچھا پیغام دینا چاہتے ہیں تو آئندہ سے ایسے مولوی صاحب کو دوبارہ اس جلسہ میں شرکت کرنے کیلئے نہیں بلایا جائے گا،کیونکہ انہوں نے عوام کا خیال نہیں رکھا،عوام کو جن چیزوں سے تفریح میسر ہوتی ہے اُن چیزوں سے یہ مولوی صاحب خالی تھے، عوام کو تو ایسا مقرر چاہیے جو انہیں اسٹیج پر ڈرامہ دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو،عوام کا بھر پور انٹرٹینٹمینٹ کرا سکے،اور اب تو ایسی مقررین کی مارکیٹ میں اتنی زیادہ مانگ بڑھ گئی ہے کہ اگر آپ ایک مہینہ پہلے وقت نہیں لے سکے تو پھر انتظار کیجئے، یا پھر آپ اتنا پیسہ خرچ کیجئے جو پہلے سے طے شدہ پروگرام کی بھر پائی کے ساتھ ساتھ مزید منافع بخش ہوں، تب تو وہ مقرر صاحب آپ کے یہاں تشریف لائیں گے اور وہ بھی پہلے والوں سے معذرت کرنے کے بعد، بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر دو جلسے ایک ہی علاقہ میں ہو رہے ہیں تو دونوں میں شرکت کے طریقے ڈھونڈتے ہیں،غرضیکہ جلسے جلوس اب مکمل طور پر پروفیشنل مقررین کیلئے کیریئر کا کام کررہے ہیں۔

جب جلسے جلوس میں منتظمین، مقررین اور سامعين سب کے مقاصد الگ الگ ہوں، اور کسی کو بھی اس بات کی فکر نہ رہ جائے کہ عوام کا اتنا پیسہ کس طرح خرچ ہورہا ہے، اگر ان جلسوں کا حقیقی مقصد ہو اور سب کے سب اسی کے تحت جمع ہوئے ہیں تو یقینا اللہ أن میں برکتیں دے گا اور اس کے دورس نتائج ابھر کر سامنے آئیں گے،مگر معاملہ بالکل برعکس ہوچکا ہے،سامعين اس لئے آتے ہیں تاکہ انہیں اپنی پسند کا مقرر ملے، مقررین اسلئے بیان کرتے ہیں تاکہ سامعين أن کی تعریف کریں، منتظمین اسلئے جلسہ منعقد کرتے ہیں تاکہ اشتہار کے ذریعہ پبلسٹی ہوجائے،جب اوپر سے نیچے تک صورت حال یہ ہوجائے پھر جلسہ جلوس سے کسی خیر کی توقع فضول ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اتنی کثرت سے جلسہ منعقد ہورہے ہیں لیکن عوام میں کچھ بھی تبدیلی نہیں آرہی ہے،لوگ پوری پوری رات جلسہ سنتے ہیں اور فجر کی نماز پڑھے بغیر روانہ ہوجاتے ہیں یا پھر اپنے بستروں پر دراز ہوجاتے ہیں،جب جلسہ کی رات کا یہ عالم ہے تو بقیہ دنوں کو اسی پر قياس کیا جاسکتا ہے ۔

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب اللہ کے نیک بندے سچی تڑپ کے ساتھ اصلاح کی نیت سے لوگوں کو خطاب کیا کرتے تھے تو عوام کا ایک بڑا طبقہ تائب ہوکر ہمیشہ کیلئے راہ راست پر آجاتا،تاريخ کی کتابوں میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں اور آج بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں لیکن وہ عوام کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے اسلئے ایسے لوگوں کو جلسہ میں بلایا ہی نہیں جاتا ہے اگر بلایا بھی جاتا ہے تو اخیر میں حضرت والا کو موقع دیا جاتا ہے اور یہ بات بھی بتادی جاتی ہے کہ اب وقت ہوگیا ہے اسلئے آپ دعاء کرا دیجئے، جن بزرگ اور اللہ والوں سے اصلاح کی باتیں سنی جاسکتی تھی اُن سے صرف دعاء کا کام لیا جاتا ہےجلسہ کی کثرت تو ہوگئی ہے لیکن اصل مقصد ’’دعوت‘‘ اب ناپید ہوچکی ہے، جلسہ کا مقصد حقیقی یہی تو ہے کہ عوام کو دین کی باتیں بتائی جائیں، جلسہ جلوس کے ذریعہ عوام کو کسی کام کے کرنے پر وقتی طور پر ابھارا جاسکتا ہے ـ مگر دوام کیلئے ضروری ہے کہ زمینی سطح پر کام کیا جائے،گھر گھر جاکر لوگوں کے دلوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ ہماری زندگی کا مقصد معبود حقیقی کی عبادت ہے۔ جب تک زمینی سطح پر اس کام کو انجام نہیں دیا جائے گا،اس کیلئے باضابطہ مخلصين کی جماعت تیار ہوکر ميدان عمل میں نہیں آئے گی،اس وقت تک جلسہ جلوس کا فائدہ مشکل نظر آرہا ہے، کسی بھی کام کو پائہ تکمیل تک پہونچانے کیلئے ضروری ہے کہ اس کو پوری جانفشانی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ جس طرح سے پیسہ خرچ ہورہا ہے اس کا صحیح استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے اگر اس کا صحیح استعمال ہوا پھر ان شاء اللہ عوام میں بیداری بھی آئے گی اور عوام اپنے مقصد تخلیق کو بھی جانے گی،پھر جلسہ میں شرکت کا مقصد ذہنی عیاشی نہیں بلکہ تزکیہ نفس ہوگا اور علماء کی قدر و منزلت عوام کے دلوں میں مزید بڑھ جائے گی۔ جگر مرحوم ان ہی واعظین و مقررین کی نسبت اپنی رندانہ کیفیت میں کہہ گئے
واعظ کا ہر ایک ارشاد بجا تقریر بہت دل چسپ مگر
آنکھوں میں عشق کا سرور نہیں چہرے پر یقین کا نور ـ

گفتگو اپنے اندر تاثیر کھو رہی ہے، واعظ اب پیڈ جرنلسٹ اور پیڈ میڈیا کے ہمزاد ہوچکے ہیں؛ لہذا عوام الناس کو ایسے واعظین و مقررین سے گریز کرنا چاہیے اور اہل دل اور صاحب حال کی گفتگو سننے کا اہتمام کرنا چاہیے ـ۔

NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 68901 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.