فرقہ پرست سازشیں: امید و یقیں کے اجالے میں مسلم امہ تعمیری خطوط پر گامزن ہو

اس وقت مسلمان بڑے درد و کرب کی راہوں سے گزر رہے ہیں۔ کبھی بے جا گرفتاریوں نے پریشاں کیا۔ کبھی فسادات، بابری مسجد کی شہادت، شعارِ اسلامی ذبیحہ پر قدغن، کبھی مراسم اسلامی پرجرأت۔ان حالات نے مسلمانوں کو بڑے زخم دیے۔ مستزاد یہ کہ شریعت اسلامی پر اعتراض، اسلامک لا پر نقطہ چینی۔ یکساں سول کوڈ کا فتنہ۔ یکے بعد دیگرے فرقہ پرست عناصر کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف عمل میں لائے جانے والے اقدامات اور پھر پورے ملک کو زعفرانی فکر کے شکنجے میں کستا دیکھ کر مسلمان بے چینی میں مبتلا ہیں۔ یاسیت کے شکار ہیں۔ حالات کے تناظر میں چند معروضات حیطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے۔

فرقہ پرستوں کے محرکات: اپنی تاریخ کا مطالعہ کیجئے۔ فرقہ پرستانہ عزائم کو حوصلہ اپنوں نے فراہم کیا۔ بعض مسلم قائدین نے آزادی کی جدوجہد کے دوران مشرکین سے ایسے اتحاد کی راہ ہم وار کی جس کی اسلام قطعی اجازت نہیں دیتا۔ انھیں اپنے گھروں میں خود جگہ دی۔ ان کے مراسم کی خاطر اسلامی شعائر کا سے منھ موڑا۔ ہنود کی خوشی کے لیے مراسم شرکیہ کا ارتکاب کیا۔

[۱]۱۹۱۹ء میں تحریک خلافت کے دوران ہونے والے ایسے ہندو مسلم اتحاد نے سخت نقصان پہنچایا جب کہ بعض مسلم لیڈران نے مشرکین کی خوش نودی کے لیے ذبیحہ بند کرنے کی تجویز رکھی۔ قرآن و گیتا کو مساوی پیش کرنے کی جرأت کی۔
[۲]ستیہ گرہ کے دوران گاندھی جی کے حکم سے روزہ رکھا گیا۔ روزہ خالص عبادت ہے اس کے لیے کسی مشرک کا حکم کیا معنی رکھتا ہے؟
[۳] ایک ڈولے میں قرآن و گیتا کو رکھ کر اور بھجن وغیرہ کا اہتمام کر کے اتحاد کی دوہائی دی گئی۔
[۴] مسجد میں مشرکین کو عزت دی گئی۔
[۵] قربانی نہ چھوڑنے والے مسلمانوں کی مسلمانوں نے ہی مذمت کی تھی۔
[۶]مشرک قائدین کی متابعت میں اﷲ کی رضا بتایا گیا۔ معاذاﷲ
[۷]مسلم معیشت کو اپنے ہاتھوں تباہ کیا گیا۔ ترکِ موالات کے اثرات علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی پر پڑے اور ہندو یونی ورسٹی بنارس میں ترکِ موالات نہیں چلوائی گئی۔ مسلم تعلیمی ادارہ تباہ اور فرقہ پرستوں کا محور بنارس ہندو یونی ورسٹی آباد۔
[۸]گاندھی جو ایک سیاسی لیڈر تھے انھیں جبریل امیں کا خطابِ خاص ’’روحِ اعظم‘‘مہاتما کہا گیا۔
[۹] ہندو مہاسبھا کو تقویت پہنچانے کے لیے اسے تحریکات سے بچایا گیا۔ مسلمانوں میں ہی تحریکات کا شور رہا۔

زوال کا سبب: ان عوامل سے فرقہ پرست قوموں کی ترقی کا گراف بڑھتا گیا۔ ہم ہی نشانہ بنائے گئے۔ ہماری ہی ترقی روکی گئی۔ تعلیم کا میدان ہمارے لیے، ہمارے قائدین کے ذریعے تنگ ہوا۔ انگریز سے مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے رزقِ حلال اور گرانٹ و امداد سے قائم تعلیمی اداروں کی مدد بند کروا کر ادارے ہی کو داؤ پر لگا دیا جائے۔ آج ہزاروں ہمارے ادارے ہیں جنھیں اسلام مخالف لیڈران کی اقتدار والی حکومت گرانٹ دیتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم فرقہ پرستوں کو مانتے ہیں۔ ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے ملکی سہولیات پر ہمارا حق ہے۔ ہم مختلف میادین میں حکومتی سہولیات لینے کے ضرور حق دار ہیں۔یاد رکھنے والی بات ہے کہ کبھی ایک غلطی کی سزا کئی نسلیں اُٹھاتی ہیں۔ میدانِ علم میں نان کو آپریشن کے نتیجے میں جو تعطل و جمود آیا؛ بھلے اس کے اثرات ایک دو دہائی تک ہی رہے لیکن اس کے نتیجے میں جو خلا ہوا اس کے اثرات اب بھی تعلیمی میدان میں پستی کی صورت میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔بلکہ بعض تجزیہ نگاروں نے بچھڑی ذاتوں سے بھی گراف کم شمار کیا۔

ھماری ذمہ داریاں: حالات کی بے اعتدالی، حکومتی باگ ڈور کا فرقہ پرست عناصر کے ہاتھوں میں آجانا ایسے عوامل مسلمانوں کے لیے فکر کا سبب ہیں! اس میں مایوسی کا اِک ماحول ہے۔ مسلمان خود کو مصائب میں گھِرا محسوس کر رہے ہیں۔ شرعی معاملات میں مداخلت، مسلمانوں سے سوتیلا سلوک، مسلم وسائل پر قدغن جیسے عوامل ہیں۔ بہر کیف تمہیدی معروضات کے اندراج کا مقصد یہ بتانا ہے کہ حال کی سازشیں نئی نہیں۔ انگریز کے دور میں بھی مشرکین کی ریشہ دوانیاں شباب پر تھیں۔ اور دُشمن اپنے حریف کا بھلا کبھی نہیں چاہے گا۔ ہمیں اپنے احوال بدلنے ہوں گے۔ اسلامی احکام پر عمل کا جذبہ بیدار کرنا ہوگا۔ ناموسِ رسالت مآب ﷺ کے سلسلے میں چاک و چوبند رہنا ہوگا۔ مسلم معیشت و مسلم معاشرے کے استحکام کے لیے عملی پیش رفت کرنی ہو گی۔ اپنے اخلاق، کردار، اطوار، تمدنی معاملات کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے ہوں گے۔ تب ہی فرقہ پرستوں کی سازشیں ناکام ہوں گی۔ ہمیں اپنی حالت خود بدلنے کے جتن کرنے ہوں گے۔ اپنے احوال پر نظرِ ثانی کرنی ہو گی۔ دامنِ مصطفی ﷺ کو تھامنا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اﷲ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں۔‘‘(سورۃ الرعد:۱۱؛ترجمہ کنزالایمان از اعلیٰ حضرت)

اقبالؔ نے قومی اقدار کے تحفظ کی فکر دیتے ہوئے مغربی تقلید سے بیزاری کا پیغام دیا تھاجو واقعیت سے بھرپور ہے اور حیات کے گلستاں میں سجانے کے لائق ہے تا کہ صحنِ زندگی مہک مہک اُٹھے ؂
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.