میڈیا کی منافقانہ پالیسی!

اﷲ پاک نے انسان کو اشر ف المخلوقات قرار دیا ہے ، انسان کی فضیلت ہر مخلوق پر افضل ہے حالاں کہ انسان کو اﷲ پاک نے فرشتوں سے بھی اعلیٰ درجہ عطا کیا ہیں ۔ انسان کو اﷲ پاک نے دنیا میں آپنا نائب بناکر بھیجا ہے ،اﷲ پاک قران مجید میں ارشاد فرماتے ہیں: ترجمہ’’اور جب تیرے رب نے انسان کو پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں کو آگاہ کیا فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں اس کو پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: بے شک مجھے وہ معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔‘‘(سورہ بقرہ آیت ۰۳)’’اور اسی خدا نے تم (انسانوں) کو زمین میں اپنا نائب بنایا ہے تاکہ تمہیں دیئے ہوئے سرمائے کے ذریعے تمہارا امتحان لیا جائے۔‘‘(سورہ انعام آیت ۵۶۱) ،انسان کی علمی استعداد دوسری تمام مخلوقات کی ممکنہ استعداد سے زیادہ ہے۔لیکن آج انسان انسانیت بھول گیا ہے اور حوان سے بھی بڑا حوان بن گیا ہے ۔ آج انسان انسان کے خون کا پیاسہ ہے ،ہر شخص منافقت کی انتہا کو پہنچ گیا ہے ، اکیس ویں صدی فتنو کی صدی ہے اس صدی میں قسم در قسم فتنے سر اُٹھا رہے ہیں ، ان میں سب سے بڑا فتنا میڈیا ہے ، چاہیئے وہ سوشل میڈیا ہو یا الکٹرونک میڈیا ہو اس وقت ان سے بڑا اور مکمل فتنا دنیا میں ا ور کوئی نہیں ہے ۔ آج یہ دونوں میڈیا انسان ہی چلا رہے ہیں ، وہ انسان جس کو اﷲ نے اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا آج وہ اس قسم کے فتنے بھر پا کر رہے ہیں جس کی تاریخ میں کو ئی مسال نہیں ملے گی ۔

صحافت ایک معتبر اور مقدس پیشہ ہے ،سیاست دان سے لیکرعام انسان تک ہر شعبے سے وابستہ آفراد صحافیوں کی قدر کرتے ہیں ، جس کی وجہ صحافت کی سچائی ہے ، مگر افسوس صد افسوس کے کچھ صحافی یا میڈیا اینکر پرسن نے اس مقدس شعبے کو بدنا کردیا ہے ، گزشتہ دن مردان یونیورسٹی میں ہونے والے افسوس ناک واقعہ نے ہر شخص کے ذہین کو ماؤف کردیا ہے ، ہر شخص چاہتا ہے کہ اس سانحہ کی غیر جانبدار تحقیق ہو اور ملزامان کو سزا ہو ، اگر واقعی میں مشال خان نے گستاخی کی ہے تو قانون کو ہاتھ میں لینے کی جرم میں ان لوگوں کو سزا ہو نی چاہیے، اگر مشال خان بیگناہ تھا توان لوگوں پر قتل کا مقدمہ ہونا چاہیئے ۔ لیکن اس سانحہ کی آڑ میں ہماری منافق میڈیا نے اہل حق پر کیچڑ پینکنا شروع کردیا ہے اور وہ کسی طرح ان کو بدنام کرنے میں کو کثر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔ دو تین دن قبل الیکٹرونک میڈیا پر ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھا جس کی اینکر پرسن ایک خاتون تھی جو مولوی فضل امین (یہ وہ مولانا ہے جس نے مشال خان کے جنازے سے انکار کیا تھا ) کو بدنا کرنے میں مصروف تھی ،مولوی فضل امین کا جنازہ پڑھنے سے انکار کو ایک غلط فعل قرادیا اور کہا کہ اس مولوی کو تو چوک پر لٹکا دینا چاہییں، ماشاء اﷲ اگر کوئی نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخی کریں تو وہ اس کا حق ہے کیوں کے یہ ایک آزاد ملک ہے اس میں اپنی رائی کی مکمل آزدی ہے ، لیکن اگر کوئی شخص مر جائے اور اس پر گستاخی کا الزام ہو اس کا جنازہ نہ پڑھنا آزادی نہیں ایک غیر اخلاقی جرم ہے اور اس کیلئے اس شخص کو چوک پر لٹکا یا جائے ، میڈیا کی یہ دوغلی اور منافقانہ پالسی کب تک ۔ اس اینکر پرسن عورت نے مولانا طارق جمیل صاحب کا ایک بیان سنوایا جس میں مولنٰا طارق جمیل صاحب نبی پاک ﷺ کے دور کا یک واقعہ نقل کررہے ہیں ،جو کچھ یوں ہے ،عبداﷲ ابن اوبئی جو منافقین کے سردار تے اس کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا نبی پاک ﷺ کے پاس آتا ہے اور آپ ﷺ سے کہتا ہے کہ میرے والد کا جنازہ آپ پڑھے ۔عبداﷲ ابن اوبئی تو منافیق تھا مگر اس کا بیٹا مسلمان تا اس لیئے آپ ﷺ نے جنازے کی حامی بھری اور جناز گاہ کی طرف روانہ ہوگئے اس مو عقے پر حضر عمر فاروق رضی اﷲ عنہُ نے آپ ﷺ کو جنازہ پڑھ نے سے روکنے کی کوشش کی لیکن نبی پاک ﷺ نہ روکیں اور فرمایا : کہ اﷲ تعالیٰ نے فرما:تو ان کے لیے بخشش مانگ یا نہ مانگ اگر تو ان کے لیے ستر دفعہ بھی بخشش مانگے گا تو بھی اﷲ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، یہ اس لیے کہ انہوں نے اﷲ اور اس کے رسول سے کفر کیا، اور اﷲ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔(سورۃ توبہ آیت نمبر ۸۰)لیکن میں ان کیلئے 71مرتبہ مغفرت کی دعا طلب کرونگا اور جنازہ پڑھا جس کے بعد نبی پاک ﷺ پر ایک اور آیات نازل ہوئے جو اس ہی سورۃ توبہ میں ہے اور آیات نمبر ۸۴ ہے جس کا ترجمہ یوں ہیں :اور ان میں سے جو مرجائے کسی پر کبھی نماز نہ پڑھ اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہو، بے شک انہوں نے اﷲ اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مر گئے۔اس آیات کی نزول کے بعد نبی پاک ﷺ نے کبھی کسی منافیق کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۔ ٹھیک ہے مشال خان پر الزام صابت نہیں تھا لیکن جو ماحول اس وقت صوابی اور مردان میں بنا تھا اس وقت مولانا فضل امین کو یہیں فیصلہ درست لگا تو اس نے کیا ۔ اس کے ساتھ میں ایک اور اینکر پرسن جو ایک بڑے میڈیا گروپ کے اینکر ہے اس گروپ پر اکثر ہندوستان لابی کا الزام لگتا رہتا ہے ۔ اس اینکر نے اپنی ایک تحریر میں کچھ یو لکھا ہے کہ 1946سے لیکر 1980ء کی دہائی کے وسط (ضیاالحق دور ) تک مذہب کے نام پر ماورائے عدالت قتل کے صرف دو واقعات منظر عام پر آئے تھے اور اس کے بعد آج تک اس میں خطرناک حدتک اضافہ ہوا ہے ، اس کے ساتھ 1927سے لے کر 1980ء تک توہین کے صرف سات الزامات سامنے آئے اور اس کے بعد2014 15تک یہ تعداد تیرا ہزار تک جا پہنچی ، ان کے اس مضمون سے اس بات کا اظہار ہورا ہا ہے کہ جب سے مذہبی جماعتیں اس ملک کی سیاست میں آئی تب سے اس ملک میں اس قسم کے واقعات ہونے لگے ۔ جناب ایک میڈیا اینکر ہونے کے بعد بھی اس بات کی سمجھ نہیں رکھتا یا سمجھ کر نہ سمجھ بنا بیٹھا ہے ، کہ 90 کی دہائی سے قبل میڈیا اور صحافت اتنی فاسٹ نہیں تھی کی ہر خبر ان کی نظر میں آتی ، خدارا اس ملک پر رحم کرو آج سے بیس سال پیچھے جاؤ تو یہ ملک ایک پرآمن ملک ہوا کرتا تھا لیکن آج میڈیا کے اس دور میں اس ملک کا ستیاناس ہوا رہا ہے ۔ کہی سوشل میڈیا کو استعمال کرکے لوگوں کے جزبات کو بڑکھا یا جارہاہے ، تو کہی الیکٹرونک میڈ یاکی منافقانہ پالیسی اس ملک میں انارکی پھیلارہی ہے ۔ مشال خان پہلا انسان نہیں جو پاکستان میں ظلم کا شکار ہو اہے ،اس کے علاوا کتنے پاکستانی ہے جو مختلف زاویا سے ظلم اور بربریت کا شکار ہوئے ہیں ۔ آئے روز ہندوستان کی فائرنگ اور دہشتگردوں کے حملوں میں کتنے لوگ شہید ہوتے ہے کیا آج تک میڈیا نے ان کو اس قسم کی کورج دی ہے ، اس ملک میں کتنے علماء کرام کی شہادتیں ہوئے ہے کیا ان کو ہماری میڈیا نے اتنا دیکھا یا ہے ۔
 
ہماری میڈیا اور صحافیوں کو غیر جانب دار ریپورٹنگ کرنی چاہیئے ، اس بات سے بالاتر ہوکر کہ یہ مذہبی جماعت ہے یا سیاسی جماعت ، اﷲ اپنا خصوصی کر م فرمائے اس ملک پر (آمین)

Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 84990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.