خوبصورت

خدا نے ہمیں انسان بنایا ہے تو اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے نہ کہ اس جھمیلے میں پڑ کر میں چھوٹا کیوں ہوں میں موٹا کیوں ہوں میں کالا کیوں جیسے بے شمار الفاظوں کے چکر میں پھنس کر ناشکری کی جائے سب جانتے ہیں کہ انسان ہوتے ہوئے بھی سب برابر نہیں ہر انسان میں خامی اور خوبی موجود ہوتی ہے اسے استعمال کرنا ہر کوئی نہیں جانتا اور محض دکھاوے اور نمائشی ڈھکوسلے کو اولین ترجیح دی جاتی ہے جو بظاہر چند لمحوں کیلئے تو قائم رہتی ہے لیکن تاحیات نہیں انسان کا خلوص ،کردار اور اخلاق ہی اسے اعلیٰ ظرف بناتا ہے۔اینوریکسیا طبی لفظ ہے اور اردو میں ترجمعہ کیا جائے تو کئی معنی نکلتے ہیں مثلاً کھانے ہضم کرنے میں مشکلات ،وزن کم رکھنے یا کرنے کی دھن یا موجودہ دور میں سمارٹ ، خوبصورت اور دلکش و خوبرو نظر آنے کے چکر میں بھوکا پیاسا رہنا تا کہ وزن میں اضافہ نہ ہو وغیرہ،خاص طور پر اس قسم کی فضولیات میں اکثر خواتین اور لڑکیاں مبتلا رہتی ہیں جسے ذہنی فتور ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اکثر ایسی بھی خواتین ہیں جو اس وقت تک بھوکا پیاسا رہنا گوارہ کرتی ہیں جب تک انکا وزن کم سے کم نہ ہو جائے یہ سب ایک مضبوط اور خود ساختہ ذہنی بیماری میں شمار کیا جاتا ہے کہ جب تک میں خوبصورت جسم کی مالک نہیں بن جاتی کھانا کھانے سے پرہیز کروں گی ایسی سوچ عام طور پر مغربی ممالک کے ٹین ایجرز اور جوان خواتین میں پائی جاتی ہے ،یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ ہولی ووڈ یا بولی ووڈ کے ایکٹرز اگر بھوکا پیاسا رہتے ہیں یا سپورٹلرز کم اور معقول غذائیں تناول کرتے ہیں تو اسکی وجوہات ہیں وہ ایسے پیشے سے منسلک ہیں جہاں انہیں بھوک پیاس ہی کامیاب بنا سکتی ہے موٹا اور بھدا ہونے سے ان کا کیرئیر تباہ ہو سکتا ہے اور لاکھوں کروڑوں ڈالرز کمانے والے اگر کامیابی کیلئے ایک وقت کا کھانا نہیں کھائیں گے تو موت نہیں آئے گی لیکن اپنے آپ کو سمارٹ ،خوبصورت اور دبلا پتلا رکھنے کیلئے بھوکا پیاسا رہنا بھی حماقت ہے،یہ بات درست ہے کہ انسان جتنا زیادہ جسمانی طور پر فٹ ، ایکٹو اور پھرتیلا ہو گا اتنی ہی اسکی صحت اچھی ہوگی لیکن اس جنون میں مبتلا ہو کر کہ میں خوبصورت دکھائی دوں اور کھانا پینا چھوڑ دے تو چند دنوں اور ہفتوں میں اس دنیا سے فارغ ہو جائے گا بلکہ کئی ماڈلز اور بے وقوف لڑکیاں تو دوسری دنیا بھی کوچ کر گئی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے یہ ایک غلط سوچ ہے کہ خوبصورت یا سمارٹ دکھائی دینے کیلئے اپنی جلد،گوشت پوست سے بھرپور جسم اور ہڈیوں کو نقصان پہنچایا جائے ،انسانی جسم کی نشو و نما اور خوبصورتی میں تبدیلیاں آنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں مثلاً کئی لوگ پیدائشی طور پر،یا زیادہ مقدار میں کھانا کھانے یا ضرورت سے زیادہ میٹھا استعمال کرنے ،ورزش نہ کرنے سے بھی اکثر جسم میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اسی لئے مرغن کھانے کو ہمیشہ صحت کیلئے مضر قرار دیا گیا ہے۔ انسانی سوچ پر کوئی پابندی اور قانون لاگو نہیں ہوتا یہ بھی انسانی سوچ ہے کہ ایک طرف ناکوں ناک کھانا اور دوسری طرف سمارٹ اور خوبصورت دکھائی ناممکن سی بات ہے اور جب کبھی لوگ اپنے جسم کو جغرافیائی لحاظ سے دیکھتے ہیں تو اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی ہے میں کتنا موٹا یا موٹی ہوں تو پریشان ہو جاتے ہیں کہ اب اس فالتو چربی کو کم کیسے کیا جائے ،بات صاف اور سادہ سی ہے کہ جتنی زیادہ غذا معدے میں جائے گی وہ اتنا زیادہ پھیلے گا اور دیگر اعضاء کے ساتھ جسمانی ساخت کو بھی متاثر کرے گا یعنی چربی پیدا کرے گا کیونکہ جسمانی ہارمون لاتعداد ہیں اور جسم کے اندر خون اور پانی کے علاوہ جسمانی نشو و نما کو بڑھانے اور گھٹانے میں ہر قسم کے جراثیم اپنا اپنا منفی اور مثبت کردار ادا کرتے رہتے ہیں ہمیں دکھائی نہیں دیتا اور جسم پھول کر کپا ہو جاتا ہے۔کئی متاثرہ افراد عام طور پر نارمل جسم اور وزن کے مالک ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی ایسے افراد کو بھی کھانا کھانے کا ایسا دورہ پڑتا ہے کہ ہضمولا کی اشد ضرورت پیش آجاتی ہے جس کے نتیجے میں جسمانی اورگان اور دیگر جراثیم جو صحت کیلئے مفید ہوتے ہیں بار بار رفع حاجت کی صورت میں اپنی حیثیت کھو دیتے ہیں اور جسمانی تبدیلی رونما ہوتی ہے کئی افراد الٹیوں کی صورت میں کھانے کا اخراج کرتے ہیں ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہاں کمی رہ گئی ،انسان کون سا لائحہ عمل یا حکمت عملی اختیار کرے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی پیٹ بھر کر کھایا بھی جائے اور موٹا بھی ظاہر نہ ہو ان عوامل یا کھانے کے چسکے کو طبی زبان میں بلو میا نیووزا کہا جاتا ہے۔مغربی ممالک میں پندرہ سے پینتیس برس کی لڑکیوں اور خواتین کو یہ بے مقصد بیماری لاحق ہو چکی ہے کہ ایسا کو ن سا حربہ استعمال کروں جس سے سندر اور سمارٹ لگوں ،کیا کھاؤں اور کیا نہ کھاؤں اور ایسے دکھائی دوں جیسے چند روز قبل کسی مردے کو دفنایا گیا ہو اور وہ گھٹن سے گھبرا کر بھاگ کھڑا ہوا ہویا اگر کسی کو دس دن بھوکا رکھا گیا ہو اور وہ لاغر کم اور خوفناک زومبی نظر آئے۔ماہرین کا کہنا ہے مرد حفظان صحت پر زیادہ توجہ نہیں دیتے لیکن سپورٹس اور دیگر ایکٹیویٹی یعنی مختلف موومنٹ سے اپنے آپ کو فٹ رکھتے یا کوشش کرتے ہیں تاکہ توند میں نمایاں کمی واقع ہو جبکہ خواتین سست ہونے کے ساتھ سوئٹ ڈش کے استعمال کے علاوہ سپورٹس نہ کرنے اور سارہ دن لیٹ یا بیٹھ کر اپنے جسم پر نظر ڈالتی ہیں تو خوفزدہ ہو جاتی ہیں اور قصور وار دنیا کو ٹھہراتی ہیں کہ کیوں اتنا میٹھا کھانا بنایا گیا، بیکریاں بند ہونی چاہئیں سموکنگ کرنا اچھی بات نہیں ہے ٹی وی دیکھنا صحت کو خراب کرتا ہے وغیرہ،ہر لڑکی یہی چاہتی ہے کہ وہ دبلی پتلی نازک اندام اور خوبصورت دکھائی دے لیکن فیصلہ نہیں کر پاتیں کہ اچھا کھائیں یا ماڈل دکھائی دیں اس قسم کی فضول سوچ پر طویل مطالعہ کرنے کے بعد دنیا بھر کی کئی کمپنیز نے خواتین کو مزید بے وقوف بنا کر پیسہ بنانے کی مشین سمجھ کر انتہائی سمجھ داری سے کئی اقسام کی مصنوعات مارکیٹ میں متعارف کروائی مثلاً فلاں سوپ ،پاؤڈر،کریم ،جوس، انرجی ڈرنکس وغیرہ کے استعمال کاجھانسہ دیا ہوا ہے کہ اس سے آپ خوبصورت اور سمارٹ دکھائی دیں گی بے انتہا مال کمایا ہے وزن میں کمی کی بجائے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون کس کمپنی کو فون کرے یا خط لکھے کہ کیوں ہمارے ساتھ فراڈ یا دھوکہ کیا کیونکہ یہ سب کچھ تو عام ہو چکا ہے ۔لب لباب یہ کہ اپنی خواہشات پر قابو پانا بہترین میڈیسن ہے ہمسایہ روزانہ پیپسی اور کوکا کولا پیتا ہے تو پینے دیں آپ پانی پئیں کیونکہ پانی سے انسان صحت مند رہ سکتا ہے ناکہ چند روز بعد پڑوس سے یہ خبر آئے کہ فلاں فلاں کولے کی عادت سے پیرا شوٹ چڑھ گیا۔

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 226010 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.