بہاولپور کا نور محل

نور محل اطالوی اور اسلامی فنِ تعمیر کا دلچسپ اور خوبصورت مرکب ہے

بہاولپور کا نور محل

ریاست بہاولپور برطانوی ہند میں ایک ریاست تھی۔ 1947 میں تقسیم ہند بننے کے بعد اس نے پاکستان سے الحاق کیا لیکن 1955 تک اس کی ریاستی حیثیت برقرار رہی۔ ریاست بہاولپور دریائے ستلج اور دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہیں۔ ریاست تین اضلاع بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان میں تقسیم تھی۔

ریاست بہاولپور کی بنیاد 1690میں بہادر خان دوم نے رکھی۔ نواب محمد بہاول خان سوم نے برطانوی حکومت سے پہلا معاہدہ کیا جس کی وجہ سے ریاست بہاولپور کو خود مختار حثیت حاصل ہوئی۔

1872 میں بہاولپور ریاست کے نواب صادق محمد خان رابع کی رہائش کے لئے بستی ملوک شاہ کے قریب ایک محل تعمیر ہوا جس کا نام نورمحل رکھا گیا۔ انتہائی خوبصورت وضع کا حامل یہ محل اپنی تعمیر کے وقت بھی فنِ تعمیر کا ایک نادر شاہکار تھا۔

نور محل کا طرزِ تعمیر اطالوی ہے اور یہ نواب صادق خان چہارم کے دور میں بنا گیا۔ نواب صادق محمد خان چہارم خوبصورت عمارات کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور اس حوالے سے انہیں 'شان جہان بہاولپور' بھی کہا جاتا ہے۔

نور محل کی عمارت کا نقشہ ریاست کے انجینئر مسٹر ہینن نے تیار کیا تھا اور انہی کی نگرانی میں 1872 میں محل پر کام شروع ہوا اور 1875 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ محل 44 ہزار 600 مربع فٹ رقبے پر پھیلا ہواہےاور اس کے حوالے سے مختلف کہانیاں مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نواب صاحب نے یہ محل ملکہ عالیہ کے لئے تعمیر کروایا تھا مگر ملکہ نے یہاں محض ایک رات قیام کیا۔ قیام کے دوران انہیں بالکونی سے قبرستان ملوک شاہ نظر آیا تو انہوں نے محل میں مزید رہنے سے انکار کر دیا۔

نور محل اطالوی اور اسلامی فنِ تعمیر کا دلچسپ اور خوبصورت مرکب ہے۔ محل بنیادی طور پر ایک مستطیل نما تین منزلہ عمارت ہے جس میں درمیانی ہال اور شرقی غربی کمروں کے علاوہ چاروں کونوں پر چار کمرے بنے ہوئے ہیں۔ ان چاروں کمروں کے اوپر چار کمرے اسی لمبائی چوڑائی کے بنے ہوئے ہیں جن کی چھتیں برج نما ہیں اور چوگوشیہ ہیں۔ یہ چو گوشیہ برج ایک پانچویں برج کے ساتھ ملتے ہیں جو سائز میں سب سے بڑا ہے۔

محل کی تعمیر مکمل ہوئی تو اس کی بنیاد میں ریاست کے سکے اور ایک تحریر جس میں تعمیرِ محل کی تاریخ وغیرہ درج تھی ، رکھے گئے تھے۔ اس محل کی تعمیر پر 12لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہوئے۔ بہاولپور کے سرکاری اخباری ”صادق الاخبار“ نے اس کی تاریخ تعمیر پر یہ شائع کی تھی: "عروجش تا قیام سماں باد (1292 ہجری)"

نور محل کی عمارت کے وسطی حصے میں ایک نہایت وسیع و عریض ہال ہے۔ چھتوں اور دیواروں پر نقاشی کا خوبصورت کام ہے۔ جب ریاست بہاولپور قائم تھی تو ہال میں ایک سٹیج بنا کر اس پر چاندی کی کرسی نواب صاحب کے بیٹھنے کے لیے مخصوص تھی۔ ہال اور دوسرے کمروں کی دیواروں کو والیانِ ریاست کی تصاویر سے مزین کیا گیا تھا۔

بعض کمروں میں بڑے بڑے قد آدم آئینے بھی تھے جو مختلف خاصیتیں رکھتے تھے۔ مثلاً ایک آئینے میں انسان غیر معمولی فربہ نظر تا تھا جبکہ ایک دوسرے آئینے کے سامنے جانے سے انتہائی دبلا دکھائی دیتا تھا۔ ایک زمانے میں پورا محل سنہری اور روپہلی فانوس اور بہترین فرنیچر سے آراستہ تھا۔ محل میں فرنیچر اور دیگر اشیاءاٹلی اور انگلینڈ سے درمد کی گئی تھیں۔

1906 میں نواب محمد بہاول خان پنجم نے محل کے ساتھ مسجد تعمیر کرائی اوراِس کا ڈیزائن ایچی سن کالج کی مسجد کی طرز پر رکھا گیا۔ نور محل کی مسجد پر اس زمانے میں 30 ہزار روپے سے زائد خرچ ہوئے تھے اور اس کی بنیاد میں بھی ریاست کے طلائی ، نقری اور مسی کے سکے ایک بوتل میں بند کرکے رکھے گئے تھے-

نور محل میں نواب صاحب کے قیام کا زمانہ بہت مختصر تھا۔ تھوڑے ہی دن بعد قبرستان ملوک شاہ کے قریب ہونے کی وجہ سے وہاں کی فضا میں جو قدرتی حزن کی کیفیات طاری تھیں، اس کی وجہ سے نواب صاحب نے یہاں سکونت ترک کر دی۔اس کے باوجود نور محل سرکاری تقریبات کے لئے مخصوص رہا۔

نواب صادق محمد خاں رابع کو اختیارِ حکومت سپرد کرنے کی رسم اسی محل میں 28 نومبر 1879 کو ادا کی گئی۔ اس موقع پر محل کو خوب سجایا گیا اور ایک عالیشان دربار منعقد ہوا جس میں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر رابرٹ ایجرٹن نے نواب صاحب کو ریاست کے مکمل اختیارات سونپنے کا اعلان کیا۔

نواب بہاول خاں خامس کی دستار بندی بھی اسی محل میں ہوئی۔ نومبر 1903 کو لارڈ برن کرزن وائسرائے و گورنر جنرل ہند نے نور محل میں ایک عالیشان دربارمیں نواب بہاول خاں پنجم کو اختیارات سلطانی تفویض کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دربار میں ہندوستان کی ممتاز اہم شخصیات کے علاوہ 100 سے زائد یورپین افسران نے شرکت کی۔

یہ محل ریاست کے آخری دور(1955) تک بطور سرکاری مہمان خانہ استعمال ہوتا رہا۔ یہیں پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے اپنے دورہ بہاولپور کے دوران قیام کیا اور نواب صادق محمدخان خامس نے ان کے اعزاز میں گارڈن پارٹی دی تھی۔

آج نور محل کی دیواروں پر بہاولپور ریاست کے دور کی تلواریں اور دیگر اسلحہ سجا ہوا ہے۔ محل کے اندر موجود بڑے ہال کے اطراف میں عباسی خاندان کے نوابوں کی تصاویر اور ان کی زندگی کے احوال مختصر طورپر درج ہیں۔ محل کی اوپر والی منزل پر نواب خاندان بالخصوص نواب سرصادق محمدخان عباسی کی قائداعظم محمدعلی جناح ، برطانیہ کے شاہی خاندان اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ یادگاری فوٹوز آویزاں ہیں۔

اٹھارھویں عیسوی کے اواخر میں جب یہ حکمران علاقائی شورشوں کو دبانے اور اپنی ریاست کی بنیادیں مستحکم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں جہاں مختلف شہر اور بستیاں باد کرنے کا خیال پیدا ہوا وہاں اپنے اور اپنے خاندان کی رہائش کے لئے محلات کی تعمیر کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔ شروع شروع میں والیان ریاست نے جن عمارات کومنتخب کیا ان کی حیثیت اگرچہ حفاظتی قلعوں کی تھی لیکن یہی قلعے محلات کا بھی کام دیتے تھے۔

نور محل کو 1997 میں پاکستان آرمی کے حوالے کر دیا گیا۔ محل آج بھی اپنی اصلی حالت میں کافی حد تک برقرار ہے اور محل کو دیکھنے آنے والوں کے لئے صبح سے شام 7 بجے تک کھلا رکھا جاتا ہے۔

Rao Anil Ur Rehman
About the Author: Rao Anil Ur Rehman Read More Articles by Rao Anil Ur Rehman: 88 Articles with 210138 views Learn-Earn-Return.. View More