امتحان اور طلباء

امتحان ، اس لفظ میں اتنی طاقت ہے کہ اسے جو بھی سنتا ہے وہ پریشان ہوجاتا ہے چاہے وہ طالبِ علم ہو یا طالبِ نمبر۔ یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے کہ مدارس، سکول، کالجز یا جامعات میں سبق سیکھنے یا سکھانے جتنی بھی اشرف المخلوقات جاتی ہیں وہ سب کی سب طالب علم کے زمرہ میں نہیں آتیں بلکہ اکثر طالبِ نمبر یا طالبِ انسان ہوتی ہیں اب یہ طالبِ انسان کونسی قسم ہے اس پرآئندہ کبھی تفصیل سے بات کریں گے ،آج محض طالبِ علم اور طالبِ نمبر کا ذکر کرلیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں یہ نظامِ امتحان کس نے دریافت کیا اُس کی تعریف میں نہ جانے کیا کیاقصیدے پڑھے جاتے ہیں مگر اب پچھتائے کیا ہُوت جب چڑیا چُگ گئی کھیت، اس درد کی دوا بھی چار و ناچار کرنی ہی پڑتی ہے ۔ جو طلباء پورے سال یا سیمسٹر باقائدگی سے اپنے اسباق سمجھتے یا رٹّا لگاتے ہیں اُن کیلئے امتحان ایک کھیل ہوتا ہے جس پر انہیں پورا عبور حاصل ہوتا ہے لیکن افسوس ان کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں پر گِنی جاسکتی ہے باقی تمام جِنس وہ ہوتی ہے جو پورے سال صبح، دن، شام اور رات خوب اِنجوائے کرتی ہے لیکن پیپرز سے چند دن قبل اُن کی حالت دَست کے مریضوں سے زیادہ تشویش ناک ہوتی ہے اوروہ دُور سے ہی پہچان میں آجاتے ہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ اس سنگین مسئلے کا حل بتانے کے بجائے آپ کا مزاق اُڑایا جارہا ہے، ایسی بات نہیں بھئی ہم بھی ان حالات سے ہی گزر کر آئے ہیں اور آپ کے درد کو سمجھتے ہیں، اس کا انتہائی آسان سا حل ہے کہ آپ سب سے پہلے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرلیں کہ کچھ بھی ہو اس آگ کے دریا میں کُود کراُس پار جانا ہی ہوگا ، دوسرا مرحلہ آپ کے دھیان یعنی فوکس کو آپ نے تمام غیر ضروری کاموں سے ہٹا کر اپنے مضامین میں لگانا ہے اس کیلئے موبائل فون ، ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ یا وہ تمام کام جو آپ اپنی اِنٹرٹینمنٹ کے طور پر کرتے ہیں انہیں دھیرے سے ترک کرنا ہوگا بالکل اسی طرح جیسے آپ نے انہیں شروع کیا تھا۔ پھر تیسرے مرحلے میں اپنے سونے اور جاگنے کے اوقات میں ردّ وبدل کریں یا اگر آپ سوچتے ہیں کہ ایسا کرنا ضروری نہیں تو کم از کم صبح سویرے ، رات اندھیرے یا کسی بھی ایسے وقت جب آپ بالکل اکیلے ہوں اپنے نوٹس یا کتابیں لے کر گھر کے کسی کونے کھدرے میں بیٹھ جائیں اور سب سے پہلے یہ دُعا پڑھ لیں ُربِّ زِدنی عِلماً‘ اور پھرخود کو پڑھائی کیلئے اُکسائیں یعنی اپنے آپ سے مثبت جُملے کہیں جیسے’پڑھائی سب سے آسان کام ہے بہت سارے میری عُمر کے بچّے محنت و مزدوری کررہے ہیں‘ یا ’میں بہت خوش نصیب ہوں کہ اﷲ نے مُجھے پڑھائی کا موقع دیا اکثریت پڑھنے لکھنے سے معذور ہیں‘۔چوتھے مرحلے میں ایک سادہ سارِجسٹر لیں جو لمبائی ، چوڑائی اور موٹائی میں عام نوٹس بُک سے بڑا ہواور پھر اُس پر وہ تمام ضروری سوالات جو آپ کو لگتا ہے کہ آئیں گے یا آپ کے کسی قابلِ بھروسہ دوست نے آپ کو بتائے ہوں اُن کو لکھ لیں اور پھر پانچویں مرحلے میں اپنے نُوٹس یا کتابوں کو کھنگالناشروع کریں اور ہر سوال کے مُختصر جوابات اُس ضخیم سے رِجسٹر میں لکھتے جائیں کوشش کریں آسان اور سادہ زبان میں لکھیں تاکہ جب تمام سوالات کے جوابات ہوجائیں تو اُن کو دُہرانے میں آسانی ہو۔ اب یہ تمام مراحل جب پُورے ہوجائیں تو آخری مرحلہ جو کہ عام زندگی کیلئے بہترین فلسفہ بھی ہے کہ بانٹیں کیونکہ جب بھی آپ کچھ بانٹتے ہیں تو وہ دُگنا ہوکر واپس آتا ہے تو آپ نے یہ کرنا ہے کہ بس دُوسرے تمام لوگوں کو جنہیں بھی یہ مرض لاحق ہے اُنہیں پڑھانا شروع کردیں اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ نے اگر ایک سوال کو ایک طریقے سے سمجھا ہوگا اُسے اور بھی مُختلف زاویوں سے سمجھنے کا موقع مِل جائے گااور اُس مضمون پرآپ کو مزید عُبور حاصل ہوجائے گا۔

Abdullah Ibn-e-Ali
About the Author: Abdullah Ibn-e-Ali Read More Articles by Abdullah Ibn-e-Ali: 22 Articles with 16718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.