زہراءؓ کاوہ بابا ہے حسنینؓ کاناناہے (ﷺ)

قرآن پاک میں اﷲ پاک نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایاکہ میں رب العالمین ہوں اور نبی پاک ﷺ کے لیے فرمایاکہ آپ رحمۃ اللعالمین ہیں ،آپ ﷺ کاآنابھی مبارک تھااورآپ ﷺ کی زندگی کواﷲ پاک نے انسانیت کے لیے بہترین نمونہ قراردیاہے آپ ﷺ کے اخلاق وشمائل ہمیں عمل کادرس بھی دیتے ہیں اگر ان کے طورطریقوں کوہم مسلمان اپنالیں تو زندگی جنتیوں والی بن جائے گی آج ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اپنے عزیزوں سے ناراض اور ان پہ لعنت کرتے ہیں لیکن آپ ﷺ نے ایساکرنے سے ہمیں منع فرمایاایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ !آپ مشرکین پر بد دعا فرمائیں آپ نے فرمایا۔ میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا میں تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں (مشکوٰۃ صحیح مسلم باب فی اخلاقہ و شمائلہ )
پیارے رب نے پیارے نبی ﷺ کے اوصافِ حمیدہ کا ذکر فرمایا ہے کہ امت کی تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے۔ ان کو شب و روز یہی خواہش دامن گیر ہے کہ امت راہِ راست پر آجائے۔ اِس آیتِ مبارک کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ آپ نے امت کی ہدایت و بہبودی کے لئے کیا کیا مصیبتیں جھیلیں۔ سخت سے سخت مصیبت میں بھی آپ نے بددعا نہ فرمائی بلکہ ہدایت کی دعا کی۔ جس روز آندھی یا آسمان پر بادل ہوتے رسول کریم کے چہرہ میں غم و فکر کے آثار نمایاں ہوتے اور آپ کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے۔ جب بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہوتے اور حالتِ غم جاتی رہتی۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالی عنہا نے آپ سے اِس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ مبادا (قوم عاد کی طرح)یہ عذاب ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو۔ (صحیح مسلم کتاب صلو ۃالاستسقاء)

آپ ﷺ کی رحمت آج بھی دنیاکے لیے ہے پہلی امتوں میں نافرمانی پر عذابِ الہی نازل ہوتا تھا مگر حضور کے وجودِ مسعود کی برکت سے کفار عذابِ دنیوی سے محفوظ ہیں۔ قرآنِ مجید میں اﷲ کا اِرشاد عظیم ہے: اور اﷲ ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا جب تک آپ ان میں ہیں (الانفال)

حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اﷲ تعالی عنہ کو رسول اﷲ نے قبیلہ دوس میں دعوتِ اِسلام کے لئے بھیجا تھا۔ انہوں نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر یوں عرض کیا: قبیلہ دوس ہلاک ہو گیا کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور اِطاعت سے اِنکار کر دیا۔ آپ ان پر بددعا فرمائیں لوگوں کو گمان ہوا کہ آپ بد دعا فرمانے لگے ہیں۔ مگر آپ نے یوں دعا فرمائی:
اے میرے اﷲ! قبیلہ دوس کو ہدایت عطا فرما اور ان کو مسلمان کر کے لا(صحیح بخاری کتاب المغازی باب قصتہ دوس)
غزوہ احد میں دانت مبارک کا کچھ حصہ شہید ہو گیا تھا اور چہرہ مبارک خون آلود تھا۔ مگر زبانِ مبارک پر یہ الفاظ تھے
اللھم اھدقومی فانھم لایعلمون۔ اے میرے اﷲ میری قوم کا یہ گناہ معاف کر دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔
خدائی رب کی نبی کی رحمت،کہاں نہیں تھی کہاں نہیں ہے
زمیں کاایساہے کوئی گوشہ؟کہ جس جگہ آسماں نہیں ہے

نبی کریم کی تشریف آوری سے اِس مظلوم گروہ کی وہ حق رسی ہوئی کہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ حضور نے عورت کو عزت و اِحترام کے دربار میں مردوں کے برابر جگہ دی۔ اسلام سے پہلے کثرت ازدواج کی کوئی حد نہ تھی۔ اِسلام نے اِسے بصورت ضرورت چار تک محدود کر دیا اور چار کو بھی شرطِ عدل پر معلق رکھا۔آج حقوق نسواں کاواویلاکرنے والے میرے نبی ﷺ کے کردار ومرتبہ سے واقف نہیں اسلام نے جتنے حقوق نسواں کودیے ہیں اتنے کبھی اسے نہیں ملے تھے ۔نبی پاک ﷺکی یتیموں اور غریبوں پر بھی بڑی شفقت تھی۔ چنانچہ یتیم کی خبر گیری کرنے والے کا درجہ بتانے کے لئے آپ نے اپنی ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایاتھاکہ اناکافل الیتیم کہاتین میں اور یتیم کا متکفل (خواہ یتیم اس کے رشتہ داروں میں سے ہو یا اجنبیوں میں سے ہو) بہشت میں یوں ہونگے (مشکوۃ ، صحیح بخاری باب الشفق والرحم علی الخلق)حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اﷲ نے فرمایا کہ جو شخص محض رضائے الہی کے لئے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ اس کے لئے ہر بال کے مقابلہ میں جس پر اس کا ہاتھ پھرتا ہے نیکیاں ہیں۔آج یتیم کے مال کوہڑپ کرنے والے اپنی آخرت کی فکر کریں کیونکہ اﷲ پاک نے بھی فرمایاکہ یتیموں کامال کھانے والے اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں

اسی طرح آپ نے بیوگان و مساکین کی خبر گیری کا ثواب یوں بیان فرمایا بیوگان و مساکین پر خرچ کرنے والا راہِ خدا میں جہاد و حج میں خرچ کرنے والے کی مانند ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اﷲ نے یوں دعا فرمائی اے میرے اﷲ !مجھے مسکین زندہ رکھ اور مجھے مسکین موت دے اور قیامت کے دن غریبوں کے گروہ میں میرا حشر فرما (ترمذی ابواب الزہد)
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہا سے فرمایا، اے عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہا کسی مسکین کو اپنے دروازے سے نامراد نہ پھیرنا۔ گو اپنے گھر میں نصف خرما ہی کیوں نہ ہو۔ اے عائشہ ! غریبوں سے محبت رکھ اور ان کو اپنے سے نزدیک کر۔ اﷲ تجھے قیامت کے دن اپنے سے نزدیک کرے گا۔
میرے نبی توبچوں کے لیے بھی رحمت بن کر آئے آپﷺ بچوں پر نہایت شفقت فرماتے تھے۔ بچے آپ کی خدمت میں بغرض دعا لائے جاتے تھے۔ ایک روز ام قیس بنت محصن رضی اﷲ تعالی عنہا اپنے شیر خوار بچہ کو خدمت اقدس میں لائیں۔ آپ نے اس بچہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے اس پر پانی بہا دیا اور کچھ نہ کہا۔ (صحیح بخاری کتاب الوضو باب بول الصبیان)

آپ بچوں کو چومتے اور پیار فرماتے تھے۔ ایک روز آپ حضرت حسن بن علی ؓ کو چوم رہے تھے۔ حضرت اقرع بن حابس رضی اﷲ تعالی عنہ آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ دیکھ کر عرض کرنے لگے کہ میرے دس لڑکے ہیں۔ میں نے ان میں سے کسی کو نہیں چوما۔ آپ نے فرمایا:من لایرحم لایرحم جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (صحیح بخاری)

غزوات میں نبی کریم کی ہدایت تھی کہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا۔ آپ کا وجودِ مسعود لڑکیوں کے لئے خصوصیت سے رحمت تھا۔

یہ میرے نبی کی رحمت کے چند مناظر قرطاس کے سپرد کیے لاتعدادواقعات ومشاہدات ہیں جن سے نبی پاک ﷺ کی رحمت چمکتی دکھائی دیتے ہیں اﷲ پاک ہمیں نبی پاک ﷺ کی رحمت وشفاعت کی برکت سے جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے
کل جس نے ہمیں پُل سے خودپارلگاناہے
زہرہ کاوہ باباہے حسنین کاناناہے
 

Tariq Noman
About the Author: Tariq Noman Read More Articles by Tariq Noman: 70 Articles with 85506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.