سیاسی خبریں

نواز شریف کی اخلاقی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔ عمران خاں
عمران خاں بھی بھولے کا بھولا ہی رہے گا۔ وزیر اعظم ہونا اخلاقی حیثیت نہیں آئینی حیثیت ہے وزیراعظم بننے کے لئے اخلاقیات نہیں ووٹ چاہیے ہوتے ہیں۔ اور وزیراعظم کو عہدہ سے ہٹانے کے لئے بھی آ ئینی چارہ جوئی چاہیے ہوتی ہے اور آئینی چارہ جوئی کا اختیار پارلیمان کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے لئے عوام کو بیدار نہیں پارلیمان کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ استعفیٰ اگر وہ دے بھی دے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ آپ کا نقصان ہی ہو گا اچھا بھلا الیکشن کمپین کا موضوع ملا ہوا ہے

سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کو ماننا ہوگا۔ میاں افتخار
میاں صاحب آپ بھی عجیب بات کرتے ہیں۔ تمام کی تمام حریف سیاسی جماعتیں اور میڈیا چیخ چیخ کر کئی مہینوں تک جو کجھ کہتے رہے ہیں کیا سپریم کورٹ نے وہ سب مان لیا ہے جو اب لوگ سپریم کورٹ کا فیصلہ مان لیں۔

پاکستانی عوام زیادہ روشن خیال اور ترقی پسند ہیں۔ پرویز مشرف
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرف نے ہی اس ملک کے اندر روشن خیالی اور ترقی کے ایک روشن باب کا آ غاز کیا اور جب قوم کے اندر روشن خیالی آ گئی تو انہوں نے اپنے ہی محسن کو روشن خیالی کا سبق دینا شروع کر دیا اور ایسا سبق دیا کہ آج بھی وہ قوم کےمعترف ہیں اب جا کر ان کو اندازہ ہوا ہے کہ قوم ان سےبھی زیادہ روشن خیال ہے۔ اب ان کو یقیناؑ یا تو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہو گا یا پھر سیاست آگئی ہو گی کہ کس طرح پاکستانی عوام کی خوشامد کرکے انکو بدھو بنایا جاتا ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے جرنیل صاحب کا حافظہ کمزور ہو گیا ہو جو اتنی جلدی وہ اپنی قوم کا ہزارہ یونیورسٹی والا روشن خیالی کا واقعہ بھول گئے ہیں یا ان کے نزدیک روشن خیالی کی تعریف کچھ مختلف ہے کہ وہ لال مسجد والوں کو بھی روشن خیال سمجھنے لگ گئے ہیں۔
غصہ نہ کریں جناب ، میں نے پوری خبر پڑھی ہوئی ہے۔ آ پ نے ہندوستان والوں کو کہا کہ ہماری قوم زیادہ روشن خیال ہے لیکن میں اس پر بھی آپ سے اختلاف رکھتا ہوں ۔ میرا تو خیال ہے وہ ہم سے بھی چار قدم آگے ہیں۔ اگر دونوں ملک اسطرح کی روشن خیالیوں کا مقابلہ کرتے رہے تو اس ریجن کا اللہ ہی حافظ

ملک چلانا ہے تو وزیر اعظم حکومت چھوڑ دیں۔ چانڈیو
چانڈیو صاحب نے بہت ہی مشکل شرط رکھ دی ہے۔ ایک پارلیمانی نظام کے اندربغیر وزیراعظم کے حکومت کیسے چل سکتی ہے۔ پہلے پہل تو ایسا ہوتا رہا مگر اب شائد ایسا ممکن نہ ہو۔ ہم نے خود ہی تو نظریہ ضرورت کو بھی دفن کر دیا ہے ۔ کافی وقت ہو گیا ہے کوئی ماہر قانون دان بھی نہیں دیکھا جو ثانی پیرزادہ کہلوانے کے قابل ہو جو وزیراعظم کے بغیر ملک چلانے کا طریقہ بتائے۔ شائد ان کا خیال ہو کہ صدر صاحب خود ہی ملک چلا لیں گے مگر ترمیم کرکے یہ اختیار بھی تو انھوں نے ہی ختم کیا تھا ورنہ آج ان کی یہ خواہش پوری ہو ہی جاتی۔ پر اب کیا کرے ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
دیکھ لیں نواز شریف کاحوصلہ جس نے پانچ سال برداشت کیاہے اور اف تک نہیں کی آپ بھی تھوڑاسااور برداشت کر لیں جہاں اتنا وقت گزر گیا ہے تھوڑا اور سہی۔

جے آئی ٹی کے فیصلے کو پبلک کیا جائے۔ سراج الحق
مولنا صاحب اس (جے آئی ٹی) کو حاصل کیا ہوگا جو پبلک کروانا ہے۔ یہ رپورٹ نا کام کوششوں ، قانونی اور انتظامی الجھنوں کے شکووں کا پلندہ ہوگا۔ ان سرکاری اہلکاروں کو معلومات اکٹھی کرنے میں بڑی دشواریاں ہوں گی کچھ ملے گا تو عدالت میں جمع کروائیں گے ناں۔ زیادہ تر معلومات باہر سے منگوانی ہیں اور مجھے نہیں امید کہ ان کے کسی ایک خط پر بھی کوئی معلومات پہنچادے۔
خواہ مخواہ قوم کو بتیوں کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ محض سیاسی بیانوں ، جزباتی خطابوں اور اخباری خبروں پر کبھی عدالتی فیصلے نہیں ہوتے۔
اگر کچھ کرنا ہی ہے تو ایک چھوٹی سی ترمیم کروا کے فوجی عدالتوں کی خدمات حاصل کر لیں تب ہو سکتا ہے بدعنوانی ختم ہو جائے ۔ بڑے بڑے بگڑے ہوئے بدمعاش انہوں نے ٹھیک کر لئے ہیں یہ ممی ڈیڈی شرلے تو ایک دبکے کی مار ہیں (یہاں میرا اشارہ تمام بد عنوانوں کی طرف ہے)۔
یہ لالی پاپ اور پلاسبو سے کینسر ختم نہیں ہوتے۔ اتنے مہینے تواگر آپ کسی مسجد کےکونے میں مصلیٰ ڈال کر وظیفہ کرتے رہتے تو یقیناؑ کوئی نتیجہ نکل چکا ہوتا۔ جنہوں نے انگریزی لٹریچر پڑھے ہوئے ہوں ان کو قرآنی ارشادات کی کیا سمجھ آئے گی۔
معزرت کے ساتھ ، کب سے عدالت عظمیٰ سے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال کا حکمنامہ جاری ہو جکا ہے مگر اپنے فیصلے ابھی بھی انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ اس حکمنامے کا اثر کیسے ہو تا جب وہ بزات خود انتہائی ادبی انگریزی میں لکھا ہوا ہو۔
(زرائع جنگ نیوز)

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114374 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More