امتحانات اور نقل کا بڑھتا رحجان

دنیا اخبار کو پڑھتے ہوئے میری نظر ایک خبرکی سرخی پر جا کر اٹک گئی اور میں نے اس خبر کو مکمل پڑھا تو معلوم ہوا کہ وزیرہائر ایجوکیشن جناب محترم سید رضا علی گیلانی صاحب نے وحدت روڈ کے ایک سنٹر کا اچانک دورہ کیا ،جہاں پر پنجاب یونیوورسٹی کے بی اے اور بی ایس سی کے پرچے ہو رہے تھے تووزیر موصوف کو معلوم ہوا کہ یہاں پر نگران عملہ پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں سے ہے۔ تو اس پر وزیر موصوف نے ناراضگی ظاہر کی اور فوری طور پر یہ احکامات بھی صادر فرمائے کہ آج سے کسی بھی پرائیویٹ کالج یا سکول کے اساتذہ کو نگران کے طور پر ڈیوٹی سر انجام نہیں دے سکتے ۔بہت ہی دانش مندانہ فیصلہ ہے اسی لئے میں نے بھی اس خبر کو تفصیل سے پڑھنے کے بعد اس کو اپنے مضمون کا موضوع بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر موصوف کی موجودگی میں ہی ایک ایسا شخص بھی پکڑا گیا ہے جو کسی طالب علم کی جگہ پر امتحان دینے آیا تھا ۔اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ یہ کیسے بیٹھ گیا کیونکہ اب تمام نظام کمپیوٹرائزڈ ہے اور کوئی بھی بندہ کسی دوسرے کی جگہ امتحان نہیں دے سکتا تو پھر یہ ممکن ہے کہ اس میں عملے کا ہی کوئی فرد ملوث ہو۔اب ہمیں ایسی کالی بھیڑوں کا بھی خاتمہ کرنا ہو گا جو ایسے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔پنجاب میں کافی حد تک نقل کے رحجان پر قابو پا لیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود ابھی بھی کئی ایسے سنٹر ہیں جن پر نقل کرنے میں عملہ ملوث ہوتا ہے ۔ایسے سنٹڑوں پر جہاں نقل کا رحجان عام ہے وہاں ہر پرچے کا ریٹ مقرر ہوتا ہے خاص طور پر انگریزی کے پرچے کا ریٹ سب سے زیادہ ہوتا ہے تو حکام اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی نگران عملے کا بندہ نقل کرانے اوررشوت میں ملوث نہ ہو اور اگر ایسا کو ئی شخص اس میں ملوث پایا جاتا ہے تو پھر اس کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرنی چاہیئے تاکہ دوسرے جو اس جرائم میں ملوث ہیں ان کو بھی اس سزا سے نصیحت ملے۔دوسرا حکام ایسے سنٹروں کی سخت نگرانی کریں جہاں سے شکایات موصول ہوں۔تاکہ نقل کے رحجانات پر مکمل قابو پایا جا سکے۔تیسری بات یہ ہے کہ جو شخص ایک بار ایسی سزا بھگت چکا ہو اس کو دوبارہ امتحانات میں اہم عہدے پر تعینات نہ کیا جائے۔

بہتر ہے کہ حکومت نگران عملے کو زیادہ مراعات دے تاکہ وہ رشوت جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔استاد قوم کے معمار ہوتے ہیں اور اگر استاد ہی رشوت جیسی لعنت کا شکار ہو جائے تو پھر ملک میں کیسے معمار پیدا ہوں گے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔استاد ہی ایک بچے کی تعلیم و تربیت میں اہم رول ادا کرتا ہے اور ہمارے معاشرے میں بھی استاد کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن چند لوگ ایسے بھی ہیں جو اس عظیم پیشے کو بھی بد نام کر رہے ہیں بس ان کی نشاندہی کرنی ہو گی اور انہیں اپنی صفوں سے ہر صورت نکالنا ہو گا تا کہ تعلیم جیسا نظام بھی ایسی برائیوں اور جرائم سے پاک رہ سکے۔میری اپنے طالب علموں سے بھی استدعا ہے کہ خدارا آپ بھی نقل کرنے سے باز رہیں اور پڑھائی کو اپنا نصب العین بنائیں ، کیونکہ آپ ہی مستقبل میں پاکستان کے معمار ہیں ، اﷲ تعالیٰ آپ سب کو علم کی روشنی سے منور کرے اور پاک وطن کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے آمین۔پاکستان زندہ باد

H/Dr Ch Tanweer Sarwar
About the Author: H/Dr Ch Tanweer Sarwar Read More Articles by H/Dr Ch Tanweer Sarwar: 320 Articles with 1838108 views I am homeo physician,writer,author,graphic designer and poet.I have written five computer books.I like also read islamic books.I love recite Quran dai.. View More