جمہوری نظام میں جوابدہی کا عمل

 پاکستان میں موجودہ جمہوری نظام وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے نام سے رائج ہے جس میں قومی اسمبلی کو ایوان زیریں جبکہ سینیٹ کو ایوان بالا کا مقام دیا گیا ہے ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے ووٹ سے لوگ منتخب کئے کئے جاتے ہیں جو عوامی مسائل کے حل اور قومی مفادات کے مطابق کار سرکا رچلانے کے پابند ہوتے ہیں ، پھر ان میں سے کچھ لوگ صوبائی اور وفاقی سطح پر وزیر مقرر کئے جاتے ہیں جن کی ذمہ داری دیگر منتخب ارکان سے بڑھ جاتی ہے ۔سینیٹ کے ارکان ان پر نگران ہوتے ہیں ، یہی وہ طبقہ ہے جو قومی اسمبلی سے پاس کیا ہوا بل زیر بحث لاکر قانون کی شکل دیتا ہے ۔ اس ایوان میں موجود لوگ نہایت مدبر ، سلجھے ہوئے اور آئین و قانون پر مکمل دسترس رکھتے ہیں ۔ یہ بنیادی طور پر قوم کے امین ہوتے ہیں اور اس امانت کی بھر پور دیانت کے ساتھ رکھوالی کرتے ہیں جو ان کے ہاتھ میں دی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پالیمانی نظام میں سینیٹ ایسا ادارہ تصور کیا جاتا ہے جو صحیح طور پر مکمل دیانت داری کے ساتھ وفاق کی نمائندگی کرتا ہے ، اس کی ایک بڑی اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پاکستان کی تمام اکائیوں کو برابر کی نمائندگی کا حق حاصل ہے ۔ چنانچہ اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ملک میں جمہوری نظام کو قائم رکھنا ہے اور جو لوگ ج،ہوریت کی بالا دستی چاہتے ہیں تو وہ سینیٹ کے کردار کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کرسکتے ۔ اگر ملک میں موجود سیاسی و جمہوری قوتیں اس ایوان کو نظر انداز کرتی رہیں تو کوئی بعید نہیں کہ وہ جمہوری نظام کو نقصان پہنچارہی ہیں ۔ ہم ملک کے موجودہ جمہوری نظام کا جائزہ لیں تو حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی کلچر میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جس قدر اہمیت ہے اس کا عشر ِ ِ عشیر بھی سینیٹرز کے حصے میں نہیں آتا ، اسی طرح سے دیگر ایوانوں کو چلانے والے سربراہوں کے مقابلے میں سینیٹ کے چیئرمین کو بھی اس طرح سے پرٹوکول نہیں نہیں ملتا جتنا ان کے لئے اہتمام کیا جاتا ہے ، سوائے ان مواقعوں پر جب اس ایوان سے حکومت کو کوئی قانون پاس کرانا ہو۔

ہمارے جمہوری ایوانوں میں عوامی اور قومی مفاد کیلئے اقدامات اور اس سے متعلق قانون بنائے جاتے ہیں ، پھر ان پر اٹھائے اقدامات اور حاصل ہونے والے نتائج سمیت اس پر تحفظات پر بحث ہوتی ہے ، سوال و جواب سے مسائل کا تصفیہ اور تحفظات دور کئے جاتے ہیں ، یہ طریقہ تمام جمہوری دنیا میں رائج ہے ، اسی طرح سے کار سرکار انجام دئے جاتے ہیں ۔ اسی پارلیمان میں وزیراعظم سمیت تمام وزراء اپنی کاکردگی کو پیش کرتے ہیں ، اس پر اٹھنے والے سوالات کے جوابب دے کر ہی جان بخشی کرواسکتے ہیں ۔ جمہوری نظام میں پارلیمان کی اہمیت کی وضاحت نہیں ہوتی بلکہ اس کے تحت کارگذاری پر معمور افراد جوابدہ ہوتے ہیں ، یہی جمہوری ایوانوں کا ضابطہ اخلاق ہوتا ہے ۔ دنیا میں ان منتخب اداروں کی کارروائیوں میں قومی مفادات کے مطابق پالیسیوں کی تشکیل میں شریک ہونا تمام منتخب نمائندوں پر لازم ہوتا ہے ۔ دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں سربراہ مملکت اور وزراء ہی نہیں بلکہ عام ارکان ِ پارلیمنٹ کی بھی اجلاس میں بلاجواز غیر حاضری کا تصور محال ہے ۔۔ البتہ ہمارے ہاں اب تک جمہوری روایات قائم نہیں ہوسکیں اس کی بڑی وجہ ہمارا سیاسی و جمہوری ماحول ہے جس میں بادشاہت کا عنصر پایا جاتا ہے جہاں وزیر اعظم ، وزراء اور ان کے سیکٹریز اس قید سے آزاد اپنی من مانیاں کرتے پھرتے ہیں ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں مین بھی وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ تو درکنار وزراء کا بھی شاذو نادر ہی جانا ہوتا ہے جبکہ منتخب قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نمائندے بھی بڑی تعداد میں ایوان کی کارروائی میں شرکت کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں حالانکہ جمہوری نظام میں جمہور کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے وزراء سمیت ان کی حاضری اسمبلیوں میں یقینی ہونی چاہئے الہٰ یہ کہ کوئی اہم ترین سرکاری مصروفیت آڑے نہ آرہی ہو۔ ہمار ے تمام سیاسی اکابرین اور رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں ہر حال میں جمہوری نظام ہونا چاہئے ، وہ اسی نظام کو ملکی بقا اور سلامتی قرار دیتے نظر آتے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ وہ ایوان سے زیادہ دیگر اعمال کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ممبران کا ایوان سے غیر حاضر ہونا ان کا غیر جمہوری رویہ ہے جس کی بنا پر عوام کا ان پر اور ملک میں نافذ جمہوری نظام پر سے اعتماد اٹھتا چلاجارہا ہے ۔ہمارے پارلیمینٹیرینز اگر اس حقیقت کو مان لیں کہ وہ ایوان کی کارروائی میں حصہ لیں ، حکومتی فیصلوں پر اپنا نقطہ ء نظر پیش کریں جس کیلئے عوام نے انہیں یہاں بھیجا تھا تو ہر فیصلہ اور اقدام عوام کی فلاح اور ملکی مفاد میں ہوگا۔ یہی جمہوری کلچر ہے ۔ اختلافات کا ہونا اس تناظر میں مثبت سمجھا جائے گا ۔ پھر انہیں جمہوریت ڈی ریل ہوتی نظر نہیں آئی گی ، جمہوریت کی بساط پلٹنا آسان نہیں ہوگا ، اگر یہی پارلیمینٹیرینز جتنا زیادہ پارلیمان میں آئیں گے انہیں اندازہ ہوگا کہ ان کے اس رویے سے جمہوریت اور جمہوری نظام اتنا ہی مضبوط ہوگا۔

موجودہ پارلیمنٹ جب سے وجود میں آئی ہے ، وزیراعظم موصوف نے چند ایک مواقعوں پر ہی پارلیمنٹ کے فلورپر قدم رنجہ فرمایا ہے ، جبکہ سب سے زیادہ جمہور کے فکر مند اور احتجاج کرنے کی ملکہ رکھنے والے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گنتی کے چند اجلاسوں میں شرکت کیلئے تشریف لائے ہیں ۔ ایوان میں اکثر کورم کی کمی معاملہ زیر بحث رہتا ہے ، کئی بار اجلاس اسی وجہ سے برخاست بھی ہوچکے ہیں ۔ یہ صورتحال قومی اسمبلی کی ہے ، اس سے کہیں زیادہ خراب حالت ایوان بالا یعنی سینیٹ کی ہے ۔ سینیٹ کے اجلاس میں وزرا کے جانے سے غالباً ان کا دم گٹھتا ہے ، انہیں اس با ت کا ادراک ہی نہیں کہ ان کی غیر موجودگی سے اس قانون ساز ادارے کو ان سوالات کا جواب نہیں مل پاتا جس کیلئے یہاں قانون سازی کی گئی تھی۔

وزراء کی عدم موجودگی اور مسلسل غیر حاضری کا مسئلہ سابق حکومت کی نسبت زیادہ سنگین صورت اختیار کرچکا ہے ۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے اس ایوان کے اجلاسوں میں حکومتی وزراء کی عدم دلچسپی اور مسلسل غیر حاضری کا کئی بار نوٹس لیا اور انہیں تنبیہ بھی کی کہ ان کی عدم دستیابی کے باعث ایوان میں اٹھنے والے سوالات کا جواب نہیں ملتا لہٰذا وہ اپنی حاضری کو یقینی بنائیں ۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق بھی اس پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں لیکن ایک ہی وقت میں دونوں ایوانوں کے اجلاس کے انعقاد کا عذر لنگ پیش کیا جاچکا ہے ، جبکہ اس جواز کے باوجود بھی متعلقہ وزراء سینیٹ میں حاضر ہوئے اور نہ ہی قومی اسمبلی کے فلور پر جلوہ گر دکھا ئی دئے ۔سینیٹ کے چیئرمین نے 11اپریل کو ایوان بالا میں وفاقی وزراء کی غیر حاضری پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ سات وزراء نے ایجنڈا موء خر کرنے کی درخواست کی ہے ، وہ ان پر ایوان کے دروازے ہی بند کرنے کا انتہائی اقدام اٹھانے کا سوچ رہے تھے ، وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب ان کے موقف کی تائید کے ساتھ آکری مہلت بھی مانگ لی ، تاہم اس کے بعد بھی وزراء کے طرز عمل میں تبدیلی نہیں آئی تو انہوں نے خود کو ہی بے بس قرار دے دیا اور 16 اپریل کو انہوں نے خود کو اس قابل نہیں جانا کہ وہ اس ایوان کی ذمہ داری سنھبالنے پر پورا اترتے ہیں ، سینیٹ کی تاریخ میں پہلی بار ضابطہ 23کے تحت اجلاس کو غیر معینہ مدت کے ملتوی کیا ، سرکاری پرٹوکول چھوڑا اور ایران کا دورہ منسوخ کرنے کا اعلان کرکے ذاتی استعفی کی پیش کش کرکے گھر روانہ ہوگئے۔ یہ پارلیمانی تاریخ کا پہلا، انوکھا احتجاج اور میاں رضاربانی کی جانب سے انتہائی اقدام تھا ۔ یہ احتجاج اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی کار کردگی سے خوش نہیں ، اس بات کا اظہار وہ کئی تقریبات میں اس سے قبل بھی کرت رہے ہیں ۔ ان کا موقف ہے کہ موجودہ حکومت آئین و قانون سمیت جمہوری روایا ت میں بگاڑ ڈال رہی ہے جو ایک جانب جمہوریت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ حائل کررہی ہے ، دوسری جانب مستقبل میں عوام کا جمہوریت پر سے اعتما د اور بھروسہ ختم کرنے کا باعث بن رہا ہے ۔ انہیں یہ طرز عمل ملک کے مستقبل کیلئے خطرہ لگ رہا ہے ، یہ ا ن کے سیاسی کارکن کے ناطے قبول نہیں ۔ انہں دکھ ہے کہ حکومت ان کی بات کو سنجیدہ نہیں لے رہی جو انہیں کسی بھی انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور کردے گی ، آخر وہ دل گرفتہ ہو ہی گئے اور چیئرمین شپ سے مستعفی ہونے کے انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوئے ۔ رجاربانی ایک منجھے ہوئے اور تجربہ کا ر سیاست دان ہیں ، ہمیشہ جمہوریت کی بقا اور اس کے استحکام کو پاکستان کی بقا اور استحکام سے تعبیر کیا ہے ، اسی مقصد کیلئے انہوں نے اپنی زندگی داؤ پر لگادی ، 2015ء میں انہوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کو دل سے قبول نہیں کیا لیکن ملکی سا لمیت کی خاطر اس کڑوے گھونٹ کو حلق سے اتارا ، 2017ء میں ایک بار فوجی عدالتوں کا معاملہ ایوان میں اٹھا یا گیا اور اس کی توسیع پر بل پیش کیا گیا تو دیگر ارکان کی طرح وہ بھی اس پر رضامند نہیں تھے مگر حکومتی عدم دلچسپی کے باعث انہیں ایک بار پھر اس کی حمایت کرنی پڑی ، انہوں جمہوریت کے ساتھ اسے ایک سمجھوتہ قرار دیا کہ مستقبلل میں یقینا اس عمل کو نہیں دہرایا جائے گا، حکومت کو اس پر توجہ دلائی، انہیں جمہوریت پر یقین ہے ، یہی ترقی کا راستہ ہے ، وہ مختلف فورمز پر اس امید کا اظہار نؤبھی کرچکے ہیں ، البتہ فوجی عدالتوں کے قانون پر دستخط کرتے ہوئے وہ بے بس تھے ۔ پارلیمانی نظام کا وقار ان کیلئے ہر شے پر مقدم ہے ۔ 11اپریل کا واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ پارلیمان کے وقار پر اپنا وقار بھی قربان کرسکتے ہیں ۔وہ چند لوگوں کی خوشی کی خاطرایک حد تک مصلحت پسندی سے کام لے سکتے ہیں البتہ اس روش پر نہیں چلنا چاہتے جس پر عمومی طور پر ہمارے ملک کے دیگر سیاست دان چلنا چاہتے ہیں،انہوں نے اپنے احتجاج سے اس امر کو واضح کردیا ۔ ۔سینیٹ میں قائد ایوان راجا ظفر الحق نے اس بات کو محسوس کیا اور وفاقی وزیر برائے خزانہ اسحٰق ڈار سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں اور ارکان نے انہیں منانے کی کوشش شروع کردی ، وزیراعظم نواز شریف نے اس پر کمیٹی تشکیل دیدی کیونکہ یہ ان کی حکومت پر اٹھنے سولات میں سب بڑا سوال تھا ، وہ اس سیاسی ہلچل کو ختم کروان چاہتے تھے ، وہ کسی نئے سیاسی بحران کے متحمل نہیں تھے ، دوروز کی کاوشیں کار گر ثابت ہوئیں ، رضاربانی وزراء کی حاضری اور وقت دینے کی یقین دھانی پر سینیٹ کے اجلاس جاری رکھنے پر مان گئے ۔ 17اپریل کو وہ ایک بار پھر سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے ایوان میں موجود تھے ،حسب معمول اجلاس شروع ہو ا ، ارکان نے انہیں خوش آمدید کہا۔ میاں رضا ربانی نے کہا کہ میں نے بحیثیت چیئرمین جس بات کا اظہار کیا تھا آج بھی سینیٹ کے کردار اور وقار کی بلندی اور احترام کے اس قول پر قائم ہیں اور مستقبل میں بھی وہ اسی پر قائم رہیں گے۔

بہرکیف حکومت نے اپنی اخلاقی ساکھ بچانے کیلئے ہی سہی رضاربانی کو منا کر درست سمت قدم بڑھایا ہے اور چیئرمین سینیٹ نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرواکر درست انداز میں ارباب اختیار کو تنبیہ کی ہے کہ جمہوریت کا مطلب محض وزراتوں کا حصول ہی نہیں بلکہ اس کی اصل روح یہ ہے کہ وزراء کا پارلیمان میں جوبدہی کے عمل سے گذر نا ملک میں جمہوریت کے قیام کی اولین سیڑھی ہے ۔
 

Mujahid Hussain
About the Author: Mujahid Hussain Read More Articles by Mujahid Hussain: 60 Articles with 43320 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.