گرین شرٹس کی سست روی اور جدید رجحانات

مارچ 2017ء میں پاکستان میں شائقین ِ کرکٹ اور 1992ء کے ہیروز نے ملک میں ورلڈ کپ جیتنے کی 25ویں سالگرہ منائی ۔کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح کھلاڑیوں نے اپنے کپتان عمران خان کے ہمراہ ان یاد گار لمحوں کا ذکر نئے اور پرانے شائقین کیساتھ کیا ۔ عمران خان نے کس طرح ٹیم کا مورال آخری وقت تک بلند کئے رکھا اور نتیجے میں کھلاڑیوں نے کس طرح مل کر صرف پاکستان کا نام دنیائے کرکٹ میں روشن کرنے اور اس کامقام بنانے میں کوششیں کیں ۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں واقعی خوشگوار لمحات تھے ، اس کا احساس اس ایونٹ میں ہی ہوسکتا ہے البتہ خوش کن امر یہ ہے کہ لوگ آج بھی 1992ء میں ہونے والے ورلڈ کپ کے تمام میچز رات کو اٹھ اٹھ کر دیکھے بالخصوص پاکستان کے میچز میں ان کا اہنماک قابل قدراس لئے بھی تھا کہ ان دنوں پاکستان کے شائق رمضان کے روزے بھی رکھ رہے تھے ۔ اگر ہم اس ایونٹ پاکستان ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کھلاڑیوں نے واقعی محنت کی تھی ۔ دنیا کی ان ٹیموں سے اس کا ٹاکرہ تھا جن میں بے شمار منجھے ہوئے کھلاڑی موجود تھے جن کا شمار کرکٹ کے اعلیٰ ترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔ جبکہ ان کی نسبت ہماری ٹیم کا معیار ماٹھا تھالیکن ان کے جذبے جوان اور حوصلے بلند تھے اگرچہ بعض کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے نذدیک اور کچھ نووارد تھے ۔ ان میں ڈسپلن کی پابندی تھی ، فٹنس تھی اور سب سے اہم بات ٹیم مینجمنٹ کی وجہ سے یہ کپتان کی آواز پر لبیک کہنے والے تھے ۔ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ ان کی محنت اور لگن ہی ان کے نام ، مقام اور دولت کے حصول کا واحد ذریعہ تھی ۔ عمران خان ان لمحات کو یاد کرکے کہتے ہیں کہ میچ جیتنے کیلئے ضروری ہے کہ خود پر کنٹرول کیا جائے ، کھلاڑیوں کی نفسیات کو ادراک ہو ، حریف کس قدر طاقتورہی کیوں نہ ہو ، اس کی نفسیا ت کامکمل پتا ہونا بہت ضروری ہے ۔ وہ بحیثیت کپتان کے ان سب باتوں پر توجہ دے رہے تھے ۔ ایونٹ میں شامل تمام ٹیموں کی حکمت عملی سے بخوبی واقف تھے ۔ ٹیم ممبرز کی خوبیوں اور خامیوں پر ان کی گہری نظر تھی، وہ اپنے کھلاڑیوں کی خامیوں پر ماہرانہ رائے دیتے ، کڑی تنقید کرتے ، سرزنش تک کر دیتے ، ان کے ٹیم ممبرز اسے کھلے دل سے تسلیم کرتے تھے، گزشتہ کارکردگی کا جائزہ لیتے اور مستقبل میں ان پر قابوپانے کی کوشش کرتے ۔ اﷲ پر کامل یقین نے انہیں وہ قوت عطا کی کہ وہ معجزاتی طور پر سیمی فائنل تک پہنچ گئے ۔ اب ان کا اصل امتحان شروع ہوا۔ وہ اس آزمائش پر پورے اترے یہاں تک کہ فائنل جیت گئے ۔ ٹیم پاکستان کی خوشی کا کوئی ٹکھانا نہیں تھا ۔ ملک بھر میں انہیں خوب پزیرائی ملی ، شاباشی اور انعامات سے نوازا گیا ۔ ماہ مبارک ایک بار پھر اس قوم کیلئے مبارک ثابت ہوا۔ دنیا بھر میں پاکستان کی دھوم مچ گئی ۔ یہ کرکٹ کے دور کا دوسرا پڑاؤ تھا، گیند لال رنگ بدل چکی تھی ، کھلاڑیوں کے لباس بھی رنگین ہوچکے تھے ۔ اب کرکٹ سست روی سے تیزی کی جانب گامزن تھی ۔ 50 اووز کے کھیل کے بطن سے 20اوور کے کھیل نے جنم لینا شروع کردیا تھا۔ یہ کرکٹ کی رنگینیوں میں مزید چار چاند لگانے کا باعث بنا۔ اکیسویں صدی میں کرکٹ نئے انداز اور نئے ماحول کے ساتھ داخل ہوئی ۔ کھلاڑیوں اور شائقین نے اسے فراخدلی سے قبول کیا۔ دنیا کی بڑی بڑی ٹیموں نے اپنے مزاج میں تبدیلی لائی ، مقام بنایا، پاکستان نے اس میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑھے مگر کھیل کی نئی روش کو اپنانے میں ناکام رہا ۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی اس جانب توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ کھلاڑیوں میں جارحانہ سوچ بیدار نہ ہونے کے سبب تجربہ کار سینئر کھلاڑی نام اور پیسہ کمانے کے سوا کچھ اور کرنے کیلئے ذہنی طور پر آمادہ نہ ہوسکے ۔ مقامی سطح پر کرکٹ مربوط نہ ہونے سے سفارش اور اقربا پروری کو فروغ ملا۔ ملک میں موجو دبہت بڑی تعداد میں موجود ٹیلنٹ اس کی نظر ہوا ۔ باصلاحیت کھلاڑی مایوس ہوکر راہ بدلنے پر مجبور ہوئے ۔ 2009ء میں جب پاکستانی کرکٹ دہشت گردی کی نظر ہوئی اور انٹر نیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے ۔ نیا ٹیلنٹ اب اور ناپید ہوگیا۔ آ پ دیکھ سکتے ہیں اس تمام تر صورتحال میں پی سی بی نے بلکل کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ بورڈ کی حالت یہ ہے کہ آج بھی اس کے کرتا دھرتا افراد کا بنیادی طور پر کرکٹ سے تعلق نہیں ملے گا ۔ کچھ عرصہ قبل تو بورڈ کے چیئرمین کی جنگ چلتی رہی ۔ کئی ریٹائرڈ سینئر کھلاڑیوں نے مینجمنٹ کے فقدان کا رونا روتے دکھائی دئے ۔ بہتری کیلئے تجاویز بھی دیں لیکن میں نہ مانوں کی روش نے جہاں بورڈ میں انتظامی فقدان پیدا کیا وہیں ٹیم میں بھی سیاست کو فروغ دیا۔ ٹیم پاکستان میں موجود کھلاڑیوں نے ذاتی ایوریج بنانے کیلئے کھیلنا شروع کردیا جو تاحال جاری ہے ان کامطمئنہ نظر یہ ہے کہ انہوں نے صرف اپنے لئے کرکٹ کھیلنی ہے ، ملک کا نام ، مقام اور وقار ان کے لئے ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس تمام تر صورتحال نے ملک میں جلٹلمین کرکٹ کو چہرہ مسخ کردیا اور دنیائے کرکٹ میں اس کی رفتار اس طرح سے تیز نہیں ہوسکی جس طرح سے دیگر بین الاقوامی ٹیموں کی رفتا ر ہے ۔ ہم نے 20ویں صدی کی سوچ کے ساتھ 20صدی کی کرکٹ کو قبول کیا جس نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ملک میں بہتر اور نامور کھلاڑی ہونے کے باوجود غیر ملکی کھلاڑیوں کی خدمات بطور کوچ خطیر رقم کے عوض لینے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔

چہرے بدلنے سے تبدیلی نہیں آتی بلکہ اس کا تعلق نظام کی تبدیلی سے ہوتا ہے ۔ یہ بات ہم سمجھتے بہت اچھی طرح ہیں لیکن اس پر عمل کرنے کو تیا ر نہیں ۔ پاکستان کے سینئر کھلاڑی اس کا تذکرہ لاتعداد مرتبہ اور بے شمار فورمز پر کرچکے ہیں ۔ انہیں اس بات پر ملال بھی ہے کہ ان کے تجربے سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ بعض کھلاڑی جارحانہ رویہ بھی رکھتے ہیں ۔ بورڈ نے پی ایس ایل کا انعقاد کرکے اس جانب ایک بہتر قدم اٹھایا ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ نئے ٹیلنٹ کو اب مواقع فراہم ہوں گے ، البتہ ٹک ٹک کی روش کو تبدیل کرنا ناگزیر ہوچکا ہے ۔ مکی آرتھر ٹیم پاکستان کے ہیڈ کوچ کی حیثیت ایک سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ وہ بھی اس بات پر نالاں ہیں کہ ہم اب تک 20 ویں صدی کی کرکٹ سے باہر نہیں نکل سکے ۔ انہیں اس عرصہ میں تجربہ ہوگیا ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں میں لگن اور محنت کا فقدان ہے ، یہ کھیل میں بہتری لانے کی بجائے اپنے نام اور مقام کی بہتری پر فوکس کرتے ہیں جس سے جارحانہ انداز ان میں نہیں آرہا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے کھلاڑی کرکٹ کے فرسودہ خطوط پر چلنے کو ترجیح دیتے ہیں اسی وجہ سے پاور پلے اور آخری اوورز میں مطلوبہ رن ریٹ سے رنز نہیں بناپاتے ۔ ویسٹ انڈیز کی حالیہ ون ڈے سیریز میں بھی اسی خامی کا مظاہرہ کیاگیا۔ مہمان ٹیم نے 420 بالز ڈاٹ یعنی بغیر رن کے کھیلیں ۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے سنگین ہے اور خدشہ ہے کہ 2019ء میں اسی طرح کا رویہ اپنایا گیا تو کامیابی کا تصور کرنا دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ بہتری کے خواہاں ہیں اور کرکٹ بورڈ کے ساتھ نئے لیکن جارح کھلاڑیوں کی کھوج کرنا چاہتے ہیں ۔اس مقصد کے حصول کیلئے انہیں پی ایس ایل ایک موثر پلیٹ فارم لگتا ہے ۔ وہ اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اچھی ٹیمیں راتوں رات نہیں بن جاتیں ، مزاج میں تبدیلیاس کے لئے لازمی جزو ہے۔ کھلاڑیوں کو سخت چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر کرنا ہوگا ۔ ہماری یہاں پریکٹس سے دوری اور خوش خوراکی کی رغبت کے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ فٹنس ، فیلڈنگ اور خوارک پر خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ ٹیم مینجمنٹ کو تمام شعبوں میں محنت کرکے ہی بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ مکی آرتھر نے ایک سال کے دوران اس صورتحال کا جائزہ لیا حالانکہ اس پر عرصہ دراز سے بحث جاری ہے ۔ ہمارا مزاج گوری چمڑی سے مرعوب ہونا ہے ، کیونکہ ہم نے آج تک آزدی کے باوجود خود کو ذہنی طور پر ان کے تابع ہی رکھا ہے لہٰذا ہمیں ان کی بات کا احترام ہے ۔ بہر حال دیر آید درست آید ہی سہی ہمیں اپنی کوتاہیوں کا اندازہ تو ہوا ۔ اب ضرورت عمل درآمد کی ہے ، اگر ہم اس پر عمل کے اقدامات کا آغاز کرنا شروع کردین تو پاکستان میں کرکٹ کا بھلا ہوگا اور شائقین کو بھی اطمینان میسر آجائے گا ۔

Mujahid Hussain
About the Author: Mujahid Hussain Read More Articles by Mujahid Hussain: 60 Articles with 43417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.