قانونی اور جمھوری فیصلہ

اسلامی جمھوریہ پاکستان کے اندر ہر کام جمھوری اندازمیں سر انجام دیا جاتا ہے۔ جمھوریت کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ جب کسی فیصلے پر جمھوریت کی مہر لگ جائے تو اس کی قبولیت واجب ہو جاتی ہے۔ جمھوری رائے سامنے آ جانے کے بعد تمام شعوری ، شرعی اور عقلی آراء اپنی تمام تر خصوصیات کے باوجود اکثریتی رائے کے سامنے بے اثر ہو جاتی ہیں۔
قانون کی اگر بات کی جائے تو کہتے ہیں کہ قانون اندھا اور بے رحم ہوتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے اور اس کو کسی پر رحم بھی نہیں آتا اس کو فقط اور فقط قانون کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ہی۔

کل سنایا جانے والا فیصلہ بھی جہاں اور بہت سی خصوصیات کا حامل ہے وہاں اس کی ایک نہائت ہی خوبصورت خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ جمھوری ہے۔ اب چونکہ اس پر جمھوری مہر ثبت ہو گئی ہے لہذا اب جمھوری عوام اور پارٹیوں کو اگر قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہ بھی لانا ہو پھر بھی اس کی جمھوری خصوصیت کے پیش نظر اسے پورے پروٹو کول اور اس کی روح کے ساتھ من و عن تسلیم کر لینا چاہیے۔ اب جمھوریت کی سربلندی کی خاطر ہی صحیح ، اختلافی نوٹ کے پرچار کی بجائے اکثریتی رائے جس کو حکمنامے کا درجہ حاصل ہے کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا جائے اور اس میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں اس پر عمل درآمد کروانے کی طرف توجہ مرکوز کی اور کروائی جائے۔

ہا ں اگر اس مقدمہ کی کوئی فریق اس فیصلہ سے مطمئن نہیں ہے تو وہ قانونی طریقہ کار کے مطابق اس کے خلاف فل کورٹ بنچ کے سامنے نظر ثانی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ قسمت آزمائی کی جاسکتی ہے۔

اس فیصلے کی یہ جمہوری خوبصورتی ہے کہ جن لوگوں کی توقعات پر یہ پورا نہیں اترتا ان کو بھی اعتراضات کے ساتھ ساتھ دل کی تسلی کی خاطر اختلافی نوٹ کی صورت میں ایک سہارا مل گیا ہے کہ وہ اپنے اندر کا بوجھ ہلکا کر سکتے ہیں۔

اس فیصلے کی قانونی خوبصورتی یہ ہے کہ عدالت نے اپنے اختیارات اور قانونی طریقہ کار کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی حتمی فیصلہ صادر کرنے کی بجائے ایسا فیصلہ سنایا ہے کہ جس کی رو سے پہلے تفتیش اورشہادت کے قانونی تقاضوں پر عملدرآ مد ہوجائے ۔ اور اس قانونی خوبصورتی کا فائدہ دوسرے گروپ کو مل گیا ہے اور انہوں نے اس کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے حلوائیوں کواچھا خاصہ بزنس دیا ہے۔

اور اس فیصلے کاکئی سو صفوں کا نصاب ہوناکوئی ڈرنے یا خوش فہمی میں مبتلا ہونے والی چیز نہیں ہے بلکہ یہ منطقی باتیں ہوتی ہیں اور یہ میرے اور آپ کے پاس نہ تو وقت ہے اور نہ یہ ہمارے عام لوگوں کے کام کی باتیں ہیں۔ باقی رہ گئے سیاسی محرکات تو کسی بھی عدالتی فیصلہ کے سنا دیئے جانے کے بعد یہ عوامی پراپرٹی بن جاتا ہے اور حدودوقیود کے اندر رہتے ہوئے اس پر تبصرہ بھی کیا جاسکتا ہے اور چونکہ ایک قسم کی دستوری نہ سہی بہرحال اگلے الیکشن کی تیاریاں تو شروع ہو چکی ہیں لہذا سیاسی اورجمہوری حق کو استعمال کنے جانے میںبھی کوئی مزائقہ نہیں

اب آتے ہیں اس مقدمہ کے مطلوبہ مقاصدکی طرف کہ اس قانونی اور جمہوری فیصلہ کی روشنی میں حاصل کیے جاسکتے ہیں یا نہیں تو عرض ہے کہ اس فیصلہ کو پلاسبو ہی سمجھیے جو دوائی نہیں ہوتی بلکہ شوگر کی بنی ہوئی گولیاں ہوتی ہیں اور معالج کا دینے کا مقصد مرض کو ٹھیک کرنا نہیں ہوتا بلکہ نفسیاتی طور پر مریض کو مطمئن رکھنا ہوتا ہے کہ وہ سمجہے کہ دوائی جاری ہے اورٹھیک ہو جائے گا۔ رہی بات ہمارے قانون کے ضابطے اورمہیا کیے گئے طریقہ کار کی تو یہ ہمیشہ ملزم کو فائدہ دیتا ہے۔ اس طرح کے جمہوری طریقہ جات ایسے معاشروں کے لیے ہوتے ہیں جہاں کوئی خاص اقدار پر عمل کروانا مقصود نہ ہو بلکہ جیسا انداز زندگی کوئی چاہتا ہو اپنالے اور قانونی طریقہ جات کا مقصد جرائم کو روکنا نہیں بلکہ تھوڑا بہت خوف بٹھانا ہوتا ہے اور یہ ایسے معاشرے میں کام دینے والے قوانین اور طریقہ جات ہیں جہاں قانون اور عدالتیں تو موجود ہوں مگر مجرم نہ ہوں اور پلاسبو قانون سے ڈرا دھمکا کے حکومتی رٹ کو قائم رکھا جا سکے۔ یہاں پر ہماری حکومت نے رٹ کیا قائم کرنی ہے یہ خود رٹ سے خوف زدہ رہتی ہے۔ یہ پلاسبو قانون بدعنوانی کے کینسر کو ختم نہیں کرسکتا۔ اگر یہ اس طرح کے سرطانی جرائم کو ختم کر سکتا ہوتا تو پارلیمان کو بے بسی کے عالم میں فوجی عدالتوں کو اختیار نہ دینے پڑتے۔ جلد یا بدیر بدعنوانی کا تدارک فوجی عدالتیں ہی کر سکتی ہیں یہ پلاسبو اور عطائی ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں ہے ورنہ عدالت ٰعظمیٰ نیب کے مرنے کی باتیں نہ کرتی۔

آ خر میں میں گزارش کرتا ہوں عوام اور سیاسی پارٹیوں سے کہ اگر ان کے اندر واقعی قومی جزبہ ہے اور بد عنوانی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس با اثر فوجی عدالتی نظام کا ماڈل موجود ہے اس کے لیے پارلیمان کے اندر اور باہر تحریک چلائیں۔ایک دفعہ اس کا خاتمہ ہوگیا تو شائد پلاسبو قانون سنبھالا دیئے رکھے۔ ورنہ موجودہ نظام کی ۷۰ سالہ تاریخ میں بجائے سیاسی انتقامی فیصلوں یا فوجی ادوار کے علاوہ کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

مگر یاد رکھو ایک خاص طبقہ اس کی راہ میں حیلوں بہانوں سے رکاوٹ بنے گا کیوں کہ دہشتگردی کے لئے وہ ترمیم اس لیے لائے کہ وہ زندہ تو رہنا چاہتے ہیں مگر بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے ترمیم لا کر وہ اپنی عیاشی ختم نہیں کرناچاہتے
 

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114480 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More