پانامہ فیصلہ اور امکانات !

یہ کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ صحافیوں کے علاوہ قانونی ماہرین کے لئے بھی غیر متوقع ہے،اس عمومی تجزئیے پہ حیرت ہوتی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی میں نے فیصلے کے حوالے سے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت اس طور پہ نہیں ہوئی کہ جس سے کسی کے قصور وار ہونے کا تعین کیا جا سکے۔میں نے رائے دی تھی کہ فیصلے میں نیب،ایف آئی وغیرہ کی تحقیقات کی ہدایت ہو سکتی ہے اور اس معاملے میں کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔سپریم کورٹ کی طرف سے تحقیقاتی ٹیم میں فوج کے خفیہ اداروں' آئی ایس آئی' اور'ایم آئی' کے افسران کی شمولیت حیران کن ہے۔شاید یہ پہلا موقع ہے کہ جب فوج کے یہ دو انٹیلی جنس ادارے کسی مالیاتی معاملے کی تحقیقات کے عمل میںشامل ہوں گے۔سپریم کورٹ کی طرف سے فوج کی انٹیلی جنس کے دو ادروں کو مالیاتی تحقیقات میں شامل کرنے سے واضح ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد ملک میں اصلاح کے عمل میں بھی فوج کی بھرپور شمولیت کارجحان رکھتی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف سخت کاروائی شروع ہوئی تو آئندہ سال کے عام انتخابات کے حوالے سے ملک میں ایک نئی سیاسی صورتحال پیدا کرنے کی کوششیں کھل کر سامنے آ جائیں گی۔یہ بات ظاہر ہے کہ ملک کو درپیش سنگین ترین خطرات سے قطع نظر ملک میں اقتدار کی کشمکش بغیر تعطل جاری ہے۔اس بات کے امکانات بھی ظاہر ہو رہے ہیں کہ ملک میں ''ملٹری ڈیموکریسی''کے مکمل قیام کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کی توقع رکھنے والوں کی امیدوں پر اوس گر گئی کہ جب سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وزیراعظم نااہل نہیں ہوئے۔سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے پاناما کیس میں 540صفحات پر مشتمل فیصلہ سنا یا اورنواز شریف کو نااہل قرار دینے کے لئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی بنیادی آئینی درخواست خارج کردی گئی۔فیصلے کے ابتدائی نکات میں کہا گیا کہ رقم کیسے قطر منتقل کی گئی، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔فیصلے میں سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ چیئرمین نیب اور ڈی جی ایف آئی اے وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں ناکام رہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم، حسن نواز اور حسین نواز 'جے آئی ٹی 'کے سامنے پیش ہوں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 'جے آئی ٹی' ہر دو ہفتے کے بعد اسی بینچ کے سامنے رپورٹ پیش کرے گی۔تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی ٹیم کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ادارے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر رینک کا افسر کرے جبکہ اس ٹیم میں قومی احتساب بیورو، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے علاوہ فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے دو تجربہ کار افسران شامل ہوں گے۔عدالت نے متعلقہ اداروں کے سربراہان ایک ہفتے کے اندر اندر ٹیم کے لیے اپنے نمائندوں کے نام دینے کا حکم دیا ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم دو ماہ میں اپنا کام مکمل کرے گی اور اس عرصے میں ہر دو ہفتوں کے بعد پیش رفت سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی ۔عدالت نے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو حکم دیا ہے کہ وہ اس تحقیقاتی عمل کا حصہ بنیں اور جب ضرورت پڑے تو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوں۔عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ ٹیم اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی جس کے بعد پاکستان کے چیف جسٹس اس رپورٹ کی روشنی میں الگ بینچ تشکیل دیں گے جو وزیر اعظم کے خلاف شواہد ہونے کی صورت میں ان کی نااہلی کے معاملے کا بھی جائزہ لے سکے گا۔

پانامہ میں قائم ایک لاء فرم کی طرف سے'انٹر نیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹڈ جرنلسٹس(ICIJ) کو گزشتہ سال ستمبر تک 11.5ملین دستاویزات دی گئی تھیں جس میں259پاکستانی شخصیات بھی شامل ہیں جبکہ اگلے ماہ مئی میں مزید دستاویزات آنے کا امکان ہے۔اب تک مہیا لسٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رشتہ داروں اور قریبی افراد کے علاوہ پاکستانی بزنس کمیونٹی ،ججز اور میڈیا سے متعلق افراد کے نام (بحوالہhttps://www.valuewalk.com/2016/04/panama-papers-leaks-pakistani-names-list/) بھی شامل ہیں۔یہ کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ صحافیوں کے علاوہ قانونی ماہرین کے لئے بھی غیر متوقع ہے،اس عمومی تجزئیے پہ حیرت ہوتی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی میں نے فیصلے کے حوالے سے کہا تھا کہ سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت اس طور پہ نہیں ہوئی کہ جس سے کسی کے قصور وار ہونے کا تعین کیا جا سکے۔میں نے رائے دی تھی کہ فیصلے میں نیب،ایف آئی وغیرہ کی تحقیقات کی ہدایت ہو سکتی ہے اور اس معاملے میں کمیشن کے قیام کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے تحقیقاتی ٹیم میں فوج کے خفیہ اداروں' آئی ایس آئی' اور'ایم آئی' کے افسران کی شمولیت حیران کن ہے۔شاید یہ پہلا موقع ہے کہ جب فوج کے یہ دو انٹیلی جنس ادارے کسی مالیاتی معاملے کی تحقیقات کے عمل میںشامل ہوں گے۔سرکاری سطح پر گزشتہ کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ ''ملک کی سیاسی قیادت اور عسکری قیادت'' کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔'آئی ایس پی آر' کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے 8اپریل کو پانامہ کیس کے حوالے سے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ'' ہر پاکستانی کی طرح فوج بھی انصاف اور میرٹ پر مبنی فیصلے کاانتظار کر رہی ہے''۔تاہم پانامہ کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد فوج کے ترجمان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔سپریم کورٹ کی طرف سے فوج کی انٹیلی جنس کے دو ادروں کو مالیاتی تحقیقات میں شامل کرنے سے واضح ہورہا ہے کہ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد ملک میں اصلاح کے عمل میں بھی فوج کی بھرپور شمولیت کارجحان رکھتی ہے۔

ملکی سیاست میں اقتدار کی بالادستی کی کشمکش کے طور پر یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ مختلف نوعیت کی تحقیقات وغیرہ سے اگلے سال کے عام انتخابات تک مسلم لیگ(ن) کو دبائو میں لایا جا سکتا ہے۔ پانامہ کیس کی تحقیقاتی کاروائی سول حکومت کے خلاف ایک انسٹرومنٹ کے طور پہ استعمال ہونے کی صورتحال نمودار ہو سکتی ہے۔تاہم اگر'' معاملات '' پر اتفاق ہو چکا ہو یا آئندہ ہو گیا تو مسلم لیگ(ن) کو کمزور و بے بس کرنے کی کاروائیاں نہیں ہوں گی۔بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگلے سال کے الیکشن تک مسلم لیگ(ن) کی سیاسی طاقت کو کمزور کرنے کا عمل جاری رہے گا تاکہ آئندہ سال کے الیکشن کے بعد کوئی بھی پارٹی اپنے بل بوتے حکومت قائم کرنے کے بجائے دو تین جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر مجبور ہو گی۔پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد مسلم لیگ(ن) کی طرف سے مٹھائیاں کھلانے کا عمل کارکنوں کا سیاسی مورال بحال رکھنے کے عمل کا حصہ ہے۔پانامہ کیس پرسپریم کورٹ کا عشروں یاد رکھے جانے والے فیصلے کا دعوی ظاہری طور پر ایک' ڈائیلاگ' ہی نظر آتا ہے لیکن اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف سخت کاروائی شروع ہوئی تو آئندہ سال کے عام انتخابات کے حوالے سے ملک میں ایک نئی سیاسی صورتحال پیدا کرنے کی کوششیں کھل کر سامنے آ جائیں گی۔یہ بات ظاہر ہے کہ ملک کو درپیش سنگین ترین خطرات سے قطع نظر ملک میں اقتدار کی کشمکش بغیر تعطل جاری ہے۔اس بات کے امکانات بھی ظاہر ہو رہے ہیں کہ ملک میں ''ملٹری ڈیموکریسی''کے مکمل قیام کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609089 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More