شدید گرمی میں بے تحاشا لوڈشیڈنگ……عوام کہاں جائیں؟

ملک بھر میں اس بار گرمی نے اپریل میں ہی آنکھیں دکھانا شرو کردی ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں درجہ حرارت 42سے 28ڈگری سینٹی گریڈ تک جاپہنچا ہے۔ گرمی کی وجہ سے عوام کا کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گیا ہے، لیکن عوام کے لیے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ملک میں گرمی کی شدت کے ساتھ حکومت کے بجلی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے ہوا میں اڑنے لگے ہیں۔ گرمی کی شدت کے ساتھ ہی ایندھن سپلائرز اور متعدد پاور پلانٹس کے غیر فعال ہونے کے سبب ملک بھر میں طویل لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ صارفین موسم سرما میں بھی تین سے چار گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ حکمرانوں کی اس یقین دہانی کے ساتھ برداشت کرتے رہے کہ بہت جلد لوڈ شیڈنگ کے جن کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہو ا اور مارچ کے مہینے میں بھی قوم کو شدید لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا، مگر اب اپریل میں تو لوڈشیڈنگ کی انتہا کردی گئی ہے۔ طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پورا پاکستان شدید کرب میں مبتلا ہے۔ شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ10 سے14 گھنٹے اور دیہی علاقوں میں15 سے18 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ سسٹم اوور لوڈ ہونے سے نیشنل پاور کنٹرول سنٹر سے تقسیم کار کمپنیوں کو بتائے بغیر ہی بجلی کی بندش ہونے لگی، جس سے شہری بہت پریشان ہیں۔ ذرائع کے مطابق بڑے ڈیمز سے پن بجلی کی پیداوار میں اضافے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ میں کمی نہیں ہو سکے گی اور طویل دورانیہ کی بجلی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس سے گھریلو صارفین تو بری طرح متاثر ہوئے ہی ہیں، اس کے ساتھ پانی کی قلت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ طویل لوڈشیڈنگ سے کاروباری سرگرمیاں مفلوج ہو نے سے شہریوں میں اضطراب پھیل رہا ہے۔ مساجد، مدارس، سکولز، کالجز، ہسپتال اور تمام ادارے متاثر ہورہے ہیں۔ غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ سے معصوم بچے، بوڑھے، خواتین، مریض بے حال ہو گئے۔ کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ شہر ی حلقوں میں غیراعلانہ لوڈشیڈنگ سے شہریوں کو کھانا پکانے اور دیگر ضروریات پوری کر نے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ گھر کے علاوہ مساجد میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پانی کی کمی ہونے نمازیوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کئی شہروں میں مسلسل کئی کئی گھنٹے کی بجلی کی بندش سے گھروں میں پانی تک ختم ہو گیا۔ نماز فجر اور دیگر نمازوں کے اوقات میں بجلی غائب ہوجاتی ہے۔ کئی علاقوں میں ہر گھنٹہ بعد چار گھنٹے کے لیے بجلی کی بندش نے کاروبار زندگی مفلوج کر دی ہے۔ تجارتی اور زرعی ضروریات بھی پوری نہیں ہو رہیں، جس کے نتیجے میں دیہاڑی کی بنیاد پر روزی کمانے والے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ وولٹیج کی کمی بیشی ایک الگ مسئلہ ہے، جس سے بجلی کی موٹریں اور گھروں میں استعمال ہونے والے دوسرے برقی آلات جل کر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔
این ٹی ڈی سی ذرائع کے مطابق بجلی کی طلب 16 ہزار 300 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔ بجلی کی پیداوار صرف 10 ہزار ایک سو میگاواٹ ہے، جس سے بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار دو سو میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے، جبکہ بڑے ڈیمز میں پانی کی سطح انتہائی کم ہونے سے پن بجلی کی پیداوار ساڑھے پانچ ہزار میگاواٹ کی بجائے صرف ایک ہزار 400 میگاواٹ تک ہے اور بجلی کی پیداوار کا تمام بوجھ آئی پی پیز اور تھرمل پاور پلانٹس پر آ چکا ہے۔ایسی صورتحال ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب 8 لاکھ 80 ہزار ٹن سے زاید فرنس آئل، جو 40 دن تک ملک کی تمام توانائی پیدا کرنے والی مشینری کے لیے کافی ہے۔ آئل کمپنیوں بالخصوص پاکستان اسٹیٹ آئل کے اسٹوریج ٹینکس میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں ایک درجن سے زائد پلانٹس غیر فعال ہیں اور کیپیسٹی چارجز کا دعویٰ کررہے ہیں، کیونکہ یہ پلانٹس مختلف معاملات کے باعث سسٹم کے لیے بجلی پیدا نہیں کر پا رہے۔ ان غیر فعال پلانٹس میں قدرتی گیس سے چلنے والے مؤثر اور سستے یونٹس اْچ پاور اور ہلمور بھی شامل ہیں۔ متنازع نندی پور منصوبہ 4 مہینے سے بند ہے، جبکہ گڈو پاور پلانٹ نے اپنی 2 ہزار 200 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کے برعکس بہت کم میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔دوسری جانب حبکو اور کیپکو پلانٹ کے علاوہ کوئی پلانٹ اپنی مکمل پیداوار پر کام نہیں کررہا جس کی وجہ ان پاور پلانٹس اور حکومت کے درمیان ایندھن اور قیمت کے معاملے پر موجود اختلاف ہے۔ اے ای ایس، نشاط، اطلس اپنی آدھی پیداواری صلاحیت پر کام کررہے ہیں، جبکہ جاپان، سیپکول اور کوہ نور کل وقتی طور پر بند ہوچکے ہیں۔ حکومتی کوششوں کے باجود بھی تمام آزاد توانائی پروڈیوسرز (آئی پی پی) کی پیداوار 7 ہزار 200 میگاواٹ پر موجود ہے، جبکہ ان کی کل صلاحیت ساڑھے 9 ہزار میگاواٹ کے قریب ہے۔ اسی طرح ہائیڈرو پاور وسائل سے 7 ہزار میگاواٹ کے بجائے صرف 14 سو میگاواٹ بجلی حاصل ہورہی ہے۔
طویل اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی، لاہور اور فیصل آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں وقفے وقفے سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ گرمی سے ستائے لوگ لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ایسے حالات میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ایک بار پھر اعلان کر رہے ہیں کہ ملک میں جلد ہی لوڈ شیڈنگ ختم کردی جائے گی۔ اس سلسلے میں حکومت پوری سنجیدگی سے اپنی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال جون سے پہلے آٹھ ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی قومی گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ حکومت ملک میں توانائی کی قلت پر قابو پانے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس نے مستقبل میں بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر یہ مسئلہ حل کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے تو بہت دیر سے کرتی آرہی ہے، لیکن ابھی تک عمل نہیں ہوا اور اسی طرح لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، جس طرح میاں صاحب کی حکومت سے پہلے ہوتی تھی۔ عوام کا کہنا ہے کہ طویل لوڈشیڈنگ نے حکومتی دعووں کی قلعی کھول دی ہے ۔زرداری دورمیں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج و توڑ پھوڑ کرنے والے آج اپنے دور میں لوڈشیڈنگ پرخاموش کیوں ہیں؟

طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف پاکستان پیپلزپارٹی نے لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج اور دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ پارلیمانی امور کے صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے بجلی کی حالیہ لوڈ شیڈنگ پر بات کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 30 اپریل کو تمام ڈویژنل مراکز پر دھرنا ہوگا اور حکام کے سخت رویوں کے خلاف 14 مئی کو صوبائی سطح پر دھرنا ہوگا، جبکہ پیپلزپارٹی کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے بھی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کا اعلان کردیا ہے۔ عمران خان کی زیر صدارت تحریک انصاف کی قیادت میں اجلاس کے دوران بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور گردشی قرضوں کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی اسد عمر کہتے ہیں کہ 4 سالوں میں بجلی کے پروجیکٹس پر کروڑوں روپے کی اشتہار بازی کی گئی۔ اس اشتہار بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجلی کا شارٹ فال 5000 سے بڑھ کر 7000میگا واٹ تک جا پہنچا۔ان کا کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹس گواہ ہیں کہ میاں صاحب کے حکومت میں آنے سے دو ماہ پہلے تک شارٹ فال صرف 3000 ہزار میگا واٹ تھا۔ اسد عمر نے کہا کہ اشتہار بازی پر زور لگانے کی بجائے کچھ توجہ بجلی بنانے پر لگاتے تو کم از کم شاٹ فال 3000 میگا واٹ سے تو نہ بڑھتا، اب تو حکومت کے جھوٹ سن سن کر بجلی کے متعلقہ اداروں سے منسلک افسران بھی تنگ آچکے ہیں۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کا ٹرانسمیشن سسٹم بہت بوسیدہ اور پرانا ہو چکا ہے، جب تک اسے تبدیل نہیں کیا جائے گا، لوڈشیڈنگ پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ توانائی کے پیداواری منصوبے چند ہفتوں یا چند مہینوں میں مکمل نہیں ہو سکتے، بلکہ اس کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے، مگر نیت خالص ہونا شرط ہے جو حکمرانوں میں نظر نہیں آتی۔ ایک طرف بجلی کے منصوبوں کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں اضافے کا مسئلہ درپیش ہے تو دوسری جانب ٹرانسمیشن لائنز اور سسٹم کی تبدیلی کے لیے بھی حکومت کو اربوں ڈالر درکار ہیں۔ بجلی کی چوری اور لائن لاسز کا مسئلہ بھی اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ توانائی کے پیداواری منصوبوں کے ساتھ ساتھ ٹرانسمیشن لائنز بچھانے کا کام بھی کرے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اخباری رپورٹس کے مطابق حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے بیک وقت کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہے، لیکن ابھی تک ملک میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ لوڈشیڈنگ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ وقفے وقفے سے کبھی اعلانیہ اور کبھی غیر اعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ عام طور پر بجلی کا شارٹ فال زیادہ ہوجائے تو حکومتیں اس کے استعمال کا شیڈول بنالیتی ہیں۔ لازمی خدمات کے شعبوں کے سوا صنعتوں، کاروباری مراکز اور مارکیٹوں کے اوقات کار محدود کردیتی ہیں، تاکہ گھریلو صارفین اور ضروری پیداواری شعبوں کو بجلی بلا تعطل ملتی رہے، لیکن حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ پچھلی حکومت پر الزام تھا کہ اس نے توانائی خصوصاً بجلی کا بحران حل کرنے میں بدعملی اور بدنظمی کا مظاہرہ کیا، جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ملکی معیشت پر بھی زوال آیا۔ موجودہ حکومت کو سابقہ حکومت کے تجربات اور ناکامیوں سے سبق سیکھنا چاہیے تھا، لیکن موجودہ حکومت پہلے ملک بھر سے لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کے دعوے کرتی رہی، لیکن اب عوام کو صرف دلاسے دے رہی ہے، جب پہلے ہی معلوم تھا کہ حکومت لوڈ شیڈنگ پر قابو نہیں پاسکتی تو عوام کو بہکانے کی کیا ضرورت تھی۔ عوام نے اپنے مسائل حل کرنے کے حوالے سے جو توقعات حکومت سے وابستہ کر رکھی تھیں، وہ ہنوز تشنہ تکمیل ہیں۔ جب تک توانائی کے بحران پر قابو نہیں پایا جاتا، اس وقت تک عوام کو اندھیروں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو ایسے اقدامات ضرور کرنا پڑیں گے، جن سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے میں مدد ملے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630790 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.