اصل مجرم کون؟ کسان یا دکاندار

كسان کی بيوی نے جو مكھن كسان كو تيار كر كے ديا تھا وہ اسے لے كر فروخت كرنے كيلئے اپنے گاؤں سے شہر کی طرف روانہ ہوگيا، يہ مكھن گول پيڑوں کی شكل ميں بنا ہوا تھا اور ہر پيڑے كا وزن ايک كلو گرام تھا۔

شہر ميں كسان نے اس مكھن كو حسبِ معمول ايک دوكاندار كے ہاتھـ فروخت كيا اور دوكاندار سے چائے کی پتی، چينی، تيل اور صابن وغيرہ خريد كر واپس اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گيا.

كسان کے جانے بعد.. دوكاندار نے مكھن كو فريزر ميں ركھنا شروع كيا.... اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے. وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 - 900 گرام ہی تھا.

اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكھن لے كر جيسے ہی دوكان كے تھڑے پر چڑھا، دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وہ دفعہ ہو جائے، كسی بے ايمان اور دھوكے باز شخص سے كاروبار كرنا اسكا دستور نہيں ہے. 900 گرام مكھن كو پورا كلو گرام كہہ كر بيچنے والے شخص کی وہ شكل ديكھنا بھی گوارا نہيں كرتا.

كسان نے ياسيت اور افسردگی سے دوكاندار سے كہا: "ميرے بھائی مجھ سے بد ظن نہ ہو".

ہم تو غريب اور بے چارے لوگ ہيں، ہمارے پاس تولنے كيلئے باٹ خريدنے کی استطاعت كہاں؟

آپ سے جو ايک كلو گرام چينی لے كر جاتا ہوں اسے ترازو كے ايک پلڑے ميں ركھـ كر دوسرے پلڑے ميں اتنے وزن كا مكھن تول كر لے آتا ہوں-

YOU MAY ALSO LIKE: