اور مشعل بجھا دی گئی

مردان یونیورسٹی میں پیش آنے والے حالیہ واقعہ کر ایک تحریر

اورمشعل بجھادی گئی

ان سب کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا
وہ ہاتھوں میں پتھر اٹھائے بس ایک جانب ڈور رہے تھے
جیسےانہیں اپنے ایمان کا ثبوت دینا ہو
وہ سب مسلمان تھے ، مگر ان کے چہروں پر غصہ کالک کی طرح تھوپ دیا گیا تھا
ان کے ہاتھوں میں پتھر تھے
ان کے دوڑتے قدموں کے نیچے زمین کانپ رہی تھی
وہ بے بس تھی کہ ان دوڑتے قدموں کو پکڑ لے
وہ ڈر رہی تھی کہ ایک بار پھرزمین پر ایک بے گناہ کا خون بہنے والا ہے
وہ جانتی تھی کہ جب بھی زمیں پر کسی بے گناہ کا خون بہتا ہے زمیں بنجر ہوجاتی ہے
اس کے اندر چھپے ہرے بھرے گھنے جنگل ، پرندے اور خواب مرجاتے ہیں
وہ لوگ سر پٹ بھاگ رہے تھے اور ان کے آگے کوئی روکاٹ نہیں تھی
پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون ان کی رہنمائی کر رہا تھا
بس چیختے نعرے تھے ، اسے پکڑو، اسے مار ڈالو
عمارت کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں چھپا وہ کانپ رہا تھا
وہ بے گناہ تھا ،اور خدا کواپنی مد دکے لئے پکار رہا تھا
بنی آخری زمانﷺ کی محبت سے اس کا پورا وجودمہک رہا تھا
اس کے ایمان کی پختگی پر کوئی بھی رشک کرسکتاتھا کہ اس کی زندگی انسانیت کے نام وقف تھی
اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ لوگ اسے مار ڈالیں گے
انہی لوگوں کے ساتھ وہ برسوں سے تعلیم حاصل کررہا تھا
وہ لوگ اس سے محبت کرتے تھےاس کی باتوں کو غور سے سنتے تھے
اس کی گفتگومیں انسانیت کی باتیں ہوتی تھیں
وہ بلند قامت ، خوبصورت جسم کا مالک تھا، اس کی سوچ ، اور نیک جذبے
لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتے تھے
مگر ایک شیطان ان ڈورتے لوگوں کے ہجوم میں شامل تھا
جس نے دھوکے کے جال میں ہجوم کو گھیر لیا
لوگوں کے پاس تو ہین رسالت ﷺ کاکوئی ثبوت نہیں تھاں
وہ ہاتھوں میں پتھر اٹھائے بس ایک جانب ڈور رہے تھے

شیطانی آواز کے جال میں پھسنے ہوئے لوگوں نے آخر کار اسے ڈھونڈ لیا
آج ہر کوئی اپنی دانست میں اپنے ایمان کو تازہ کر رہا تھا
وہ سب شکار کئے گئے مردہ لوگ تھے جن کی ندامت میزان والے دن قبول نہیں ہوگی
انسانیت انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی
وہ نہتا تھا،بہت سے ہاتھوں نے اسے گھسیٹا اور اٹھا کر ہوا میں اچھال دیا
وہ دوسری منزل سے زمیں کی طرف گر تا جا رہا تھا
اس کے کانپے وجود کے اندر ،اس کی روح ایمان کی خوشبو میں لپٹی ہوئی تھی
وہ چاند ستاروں کے نور بہتے راستہ پر چلتا ہو ا دیکھ رہا تھا
زمیں پر اس کا وجود گرتا جارہا ہے
لوگ پاگلوں کی طرح شور مچا رہے ہیں شیطانی مسرت ان کے چہروں کو دھندلاکر رہی ہے
لوگ اپنےچہرے کھو رہے ہیں،روز قیامت انہیں اب کس نام سے پکارا جائے گا؟
وہ سب اپنے خود ساختہ امتحان میں کامیاب قرار پائے
تب ایک گولی چلی اور بارود کے بو نے فضا کو گدلا کر دیا
مسثال کی آنکھوں میں زندگی کاجلتا دیا ہمیشہ کے لئے بجھ دیا گیا
اپنے ماں باپ،بہن بھائی اور بیوی بچوں کے لئے وہ ہمیشہ کے لئے مر گیا
گھر کی چوکھٹ پر اس کی دستک کھو گئی
لوگوں کی نفرت اس کے نہتے شکتہ بدن پر لاٹھیوں کی صورت برس رہی تھی
پھر کسی نے اس کے بے جان جسم کو آگ لگا دی
شیطان ان کے درمیا ن سے کب کارخصت ہو چکا تھا
لوگ واپس پلٹ رہے تھے ،اپنے کمزرور ایمان کے ساتھ
ان کے ہاتھ خالی تھے ، مگر بے گناہ کے خون سے لتھرے ہوئے
ایک بوجھل دل کے ساتھ وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے
کیا ہوا تھا
وہ کس کی آواز تھی ، جسکی لپک پر وہ سر پٹ ڈورتے چلے گئے
انہو ں نے کچھ نہیں سوچا، اور انسانیت کا قتل کر دیا
اس نبی ﷺ کےنام پر جس کے سر پر تمام نسل انسا نیت کا تاج رکھا ہے
اب ایک ہی آواز ہمارے دلوں میں گونج رہی ہے
وہ ﷺ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ۔۔۔۔۔۔

اکمل نوید

anwer7star
About the Author: anwer7star Read More Articles by anwer7star: 2 Articles with 1327 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.