اسلامی بحریہ کے بانی: سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

عظیم صحابیِ رسول ﷺ،کاتبِ وحی،خال المؤمنین،فاتح قبرص
اسلامی بحریہ کے بانی: سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی
حیا ت و خدمات اور تعلق ِ رسول ﷺ

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہجرت سے 17 سا ل پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام ابوسفیانؓ بن حرب اور والدہ کا نام ہند ؓبنت عتبہ تھا۔آپ ؓ کا تعلق قریش کی مشہور شاخ بنو امیہ سے تھا۔آپ ؓ کا نسب پانچویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔امیرمعاویہ ؓ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہؓ بنت ابو سفیان ؓ کے ذریعہ نبی ﷺ کے برادرِنسبتی ٹھہرے۔

سیدنا امیر معاویہؓ میں لڑکپن ہی سے ایسی علامات پائی جاتی تھیں کہ لوگ کسرائے عرب کہتے تھے۔آپ کا شمار مکہ کےان چند گنے چنے لوگوں میں تھا جو علم وفن سے آراستہ اور لکھناپڑھنا جانتے تھے۔قبل از اسلام بھی آپ ؓ کا شمار قوم کے سرداروں اور مال دار لوگوں میں ہوتا تھا۔

آپ ؓ کا اپنا قول ہے کہ ”میں عمرۃ القضا سے پہلے ہی اسلام لے آیا تھا۔ مگر مکہ جانے سے ڈرتا تھا کیوں کہ میری والدہ اس کے خلاف تھیں۔،،تاہم ظاہری طور پر فتح مکہ کے موقع پر25سال کی عمر میں معاویہ ؓنے اپنے والد کے ہمراہ اسلام لانے کا اعلان کیا۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں بدر، احد،خندق اور صلح حدیبیہ سمیت تمام لڑائیوں میں آپ ؓ شریک نہ ہوئے۔حالانکہ آپ اس وقت صحت مند جوان تھے۔آپ ؓ کے والد سالار کے طور پر شریک ہورہے تھے۔اور آپ ؓ کے ہم عمر جوان بڑھ چڑھ کر اسلام کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے تھے۔ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدا ہی سے اسلام کی روشنی آپ کے دل میں اُتر چکی تھی۔

آپ ؓ غزوہ حنین اور محاصرہ طائف میں شریک رہے۔جب رسول اللہ ﷺطائف کامحاصرہ اُٹھاکر عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ روانہ ہوئے تو معاویہ ؓ بھی آپ ﷺ کے ہمراہ مدینہ چلے آئے۔حضور ﷺ چونکہ حضرت معاویہ ؓ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے،اس لئے اپنے خاص قرب سے نوازا، اور کاتب وحی مقرر ہوئے۔ بیرونی وفود کی خاطر مدارات اور ان کے قیام و طعام کا اہتمام بھی آپ ؓ کے ذمہ تھا۔
خلیفہ اوّل سیدنا ابکر صدیق ؓ کے دور میں سیدنا معاویہ ؓ نے مانعین ز کوۃ،منکرین ِختم نبوت،جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھر پور حصہ لیا اور کئی کارہائے نمایہ انجام دیا۔ان فتنوں سے نمٹنے کے بعد سیدنا ابوبکر ؓ نے رومیوں کے حملے کے سدِباب کے لئے چار لشکر مامور فرمائے،ان میں سے ایک لشکر کے امیر سیدنا معاویہ ؓ کے بھائی سیدنا یزید بن ابی سفیان ؓ تھے اور معاویہؓ بھی بھائی کے ہمراہ تھے۔چنانچہ فتوحات شام میں ان دونوں بھائیوں نے خوب شجاعت کے جوہر دکھائے۔خلیفہ ثانی سیدنا فاروقِ اعظم ؓ کے دورِخلافت میں جوفتوحات ہوئیں اس میں امیر معاویہ ؓ کا نمایا حصہ اور کردار تھا۔جنگ یرموک میں آپ ؓ بڑی بہادری اور دلیری سے لڑے۔ اس کے بعد فاروق ِ اعظم ؓ نے معاویہ ؓ کو اُردن کا حاکم مقررکیا۔طاعون عمواس میں یزید بن ابی سفیانؓ فوت ہوگئے تو سیدنا عمر ؓ نے معاویہ ؓ کو دمشق کا والی بنادیا۔ سیدنا عثمان ؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے معاویہ ؓ کو سارے شام کا والی(گورنر) بنا دیا۔خلافت عثمانی میں معاویہ ؓ جہاد و فتوحات میں مصروف رہے۔آپ ؓ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، شام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطالیہ، طرطوس،ارواڑ، روڈس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کردیا۔خلافتِ عثمانی ہی میں معاویہ ؓ نے اسلامی بحریہ کی بنیاد رکھی اور رومی عیسائیوں کو مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں شام وفلسطین اور مصرو طرابلس کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہوئی،سیدنا معاویہ ؓ جامع اموی دمشق کی تعمیر کرائی۔

سیدنا عثمان ؓ کی مظلومانہ شہادت کے بعدقصاص عثمان کے معاملے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف ہوا۔مدینہ میں سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کی خلافت قائم ہوچکی تھی مگر امیر معاویہ ؓ عثمان ؓ کے قاتلوں سے فوری قصاص لینے کا مطالبہ کررہے تھے۔منافقوں اور فسادیوں نے قصاص عثمان ؓ کے مسلہ کو اس قدر الجھا دیا کہ امت کو جنگ جمل اور صفین جیسے سانحے پیش آئے،ان سانحوں کی حقیقت پر صرف سیدنا علی ؓ کے درج ذیل ا قوال کافی ہیں۔
،،یہ ہمارے بھائی ہیں ان سے زیادتی ہوئی اور انہوں نے خود کو حق پر سمجھ لیا اور ہم نے خود کو۔۔۔۔۔۔“(قرب الاسناد)
،،بجائے ان گالی دینے کے ان کے اعمال کا تذکرہ کرو،اور ان سے صلح کی دعا مانگو،تاکہ ان کا اور ہمارا خون گرنے سے بچے۔۔۔۔“ (نہج البلاغہ)
سیدنا علی ؓ کی شہادت کے بعد کوفہ میں سیدنا حسن بن علی ؓ کی خلافت کی بیعت ہوئی، مگر شام میں سیدنا معاویہ ؓ خلافت کے دعویدار تھے۔سیدنا حسن ؓ نے حضور اکرم ﷺ کے فرمان:”میرا یہ بیٹا (سیدنا حسن ؓ)سردارہے امید ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دوعظیم جماعتوں میں صلح کرا دے گا“ (بخاری شریف)
اور سیدنا علی ؓ کی وصیت کے مطابق ”بیٹا(حسن ؓ ) معاویہ ؓ کی امارت قبول کرنے سے انکار مت کرنا،ورنہ باہم کشت خونریزی دیکھوگے“(ابن کثیر)کے مطابق امت کومزید خونریزی اور انتشار سے بچانے کے لئے 14ھ میں سیدنا معاویہ ؓ سے صلح کر کے خلافت ان کے سپرد کردی،یوں تمام عالم اسلام نے سیدنا امیر معاویہ ؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے انہیں خلیفہ وقت تسلیم کر لیا۔

سیدنا معاویہ ؓ اعلیٰ پائے کے منتظم اور زیرک سیاستدان تھے،آغازِ خلافت ہی میں علماء اور اشراف کی مدد سے ایک مجلس شوریٰ بنائی۔پہلی مجلس میں بغاوتوں پر تبادلہ خیال ہوا،اور یہ طے پایا کہ سب سے پہلا قدم خارجیوں کے خلاف اٹھایا جائے گا،کیونکہ وہ کھلم کھلا آمادہ ِ بغاوت تھے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ اور اپنے بھائی زیاد بن ابی سفیان ؓ کی مدد سے آپ ؓ نے ایک سال کے اندر اندر خارجیوں کا صفایا کردیا۔خارجیوں سے لڑائی کے دوران سیدنا معاویہ ؓ نے قاتلین عثمان کو بھی چن چن کر قتل کیا۔43ھ میں سیدنا معاویہ ؓ نے رومی خطرے کی طرف توجہ دی،قریباً 6ہزار جنگی کشتیاں تیار کرائیں اور جنادہ بن اُمیہ کو امیرالبحر مقررکیا۔فوج کے دو حصے بنائے،شاتیہ یعنی سرمائی فوج اور صائقہ یعنی گرمائی لشکر،یوں سردی اور گرمی دونوں موسموں میں یہ لشکر رومیوں کو اسلامی سرحدوں سے دور رکھتے۔معاویہ ؓ کے بحری لشکر نے قبرص اور روڈس کے جزیرے فتح کر کے قیصر روم کے کو جہازوں کو مشرقی بحیرہ روم سے بے دخل کردیا۔
48ھ میں سیدنامعاویہ ؓنے فتح قسطنطنیہ کے لئے ایک لشکر روانہ کیا جس میں عبداللہؓ بن عمرؓ،عبداللہ ؓبن زبیرؓ، عبداللہؓ بن عباسؓ،حسینؓ ابن علیؓ اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم بھی شریک ہوئے،اس بحری لشکر کی قیادت سفیان بن عوف کو ملی اور یزید بن معاویہ بھی ایک فوجی سالار کے طور پر ہمراہ تھے۔مجاہدین نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کرلیا۔اس معرکے میں بڑے بڑے جانباز شہید ہوئے جن میں ابو ایوب انصاری ؓ بھی شامل تھے۔فصیل کی مضبوطی،شہر کے قدرتی بحری دفاع اور سردی کی شدت کے باعث مسلمانوں کو محاصرہ اٹھاکر واپس آنا پڑا۔تاہم اس مہم سے رومیوں کی طرف سے حملہ آوری کا خطرہ دور ہوگیا۔یہ مہم رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے مطابق عمل میں آ ئی کہ ”میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر پر حملہ آور ہوگا وہ مغفرت یافتہ ہے“۔(بخاری)

50ھ میں امیرمعاویہ ؓ نے عقبہ بن نافع کو برقہ و افریقہ کا سپہ سالار بنا کر بھیجا۔انہوں نے طرابلس وتیونس کو مطیع کیا،اور 55ھ میں قیروان شہر بسایا جو صدیوں افریقہ کا دارالحکومت رہا۔ اور پھر الجزائر وتلمسان میں بربروں پر غالب آئے اور فتوحات حاصل کرتے چلے گئے۔

سیدنا معاویہ ؓ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالے سے شاندار ہے۔آپ ؓ کے زمانے میں کوئی علاقہ سلطنت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا، بلکہ اسلامی سلطنت کا رقبہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔آپ ؓنے خلفائے راشدین کے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھا۔ آپ ؓ کے دورِ خلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات،قندھار،قیقان،مکران،سیسان،سمرقند،ترمذ،شمالی افریقہ،جزیرہ روڈس،جزیرہ اروڈ،کابل،سسلی،سمیت مشرق ومغرب،شمال وجنوب کا 22لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا۔ان فتوحات میں معرکہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتا ہے۔

سیدنا معاویہ ؓ کا عظیم کارنامہ اسلامی بحریہ کی تشکیل ہے۔منصب خلافت سنبھانے کے بعد آپ ؓ نے سب سے زیادہ توجہ بحریہ کی ترقی پر صرف کی۔عہد عثمانی میں 500جنگی بحری جہازموجودتھے،آپؓ نے اس بیڑے کو مزید مستحکم بنایا اور مصر وشام کے ساحلی مقامات پر جہاز سازی کے کارخانے قائم کیے گئے۔بحری فوج کا سپہ سالار علیحدہ مقرر کیا گیا،جسے امیر البحر کہتے تھے۔

خلافت علی ؓ کے دوران عیسائی فوج نے سیدناعلی ؓکے زیر انتظام ایران کے شمالی صوبوں پر حملہ کرنا چاہاتو سیدنا معاویہ ؓ نے ایک خط قیصر روم کے نام لکھا کہ ”ہماری آپس کی لڑائی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے۔ اگر تم نے علی ؓ کی طرف رخ کیا تو علیؓ کے پرچم کے نیچے تمہاری گوشمائی کرنے والا پہلا سردار معاویہ ہوگا“۔اس پر رومی اپنے ارادے سے باز آگئے۔

کاتب وحی،جلیل القدر صحابی رسول،بانی اسلامی بحریہ،فاتح شام و قبرص اور19 سال تک 64لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے سیدنا معاویہ ؓ نے 70سال کی عمر میں 22رجب 60 ھ کو دمشق میں وفات پائی اور باب جابیہ اور باب صغیر کے درمیان دفن ہوئے۔رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ آپ ؓ نے تجہیز وتکفین کے بارے میں وصیت کی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے کرتا مبارک کا کفن پہنایا جائے اور آپ ﷺ کے ناخن مبارک اور موئے مبارک کو منہ اور آنکھوں پر رکھ دیا جائے۔

 

ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری
About the Author: ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری Read More Articles by ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری: 20 Articles with 45203 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.