شام اُتری ہے......

میرے سامنے کچھ اخباری صفحات بکھرے پڑے ہیں. ان صفحات پر موجود تصاویر نے میرا دل ہلا کر رکھ دیا ہے. یہ حالیہ کمیائی اور میزائل حملوں میں زخمی اور شہید ہونے والے کچھ شامی بچوں کی تصاویر ہیں. ان بچوں کی آنکھوں میں حسرتوں کے جو جہان آباد ہیں وہ ہم سب سے بس ایک ہی سوال کر رہے ہیں کہ اُن کا کیا قصور تھا کیوں اُن کے خوابوں کو اُن کے وجود سمیت منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا.ہمارے پاس اُن کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہے شائد ہم بے حس ہو چکے ہیں. بے حس لوگوں کے دلوں سمیت اُن کی آنکھیں بھی پتھر کی ہو جاتی ہیں جن میں سے آنسو بھی نہیں نکلتے ہاں ہم چند لمحوں کے لئے افسوس ضرور کرتے ہیں اور اس سے زیادہ ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے. شام میں ہونے والا یہ پہلا کمیائی حملہ نہیں ہے البتہ امریکہ کی طرف سے میزائل حملوں کی جو ابتدا کی گئی ہے اُس نے ہر درد مند انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ عراق والی کہانی دہرائی جا رہی ہے نجانے اس کہانی کا اب کیسا المیہ انجام ہو کیونکہ آثار کچھ اچھے نظر نہیں آ رہے. اب سے تقریباً چھے سال پہلے بشرالااسد حکومت نے اپنی ہی عوام پر کمیائی حملوں کا آغاز کیا تھا. پہلی بار ان حملوں کے بعد بشرالااسد نے یقین دلایا تھا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا مگر جن لوگوں کے منہ کو انسانی خون لگ جائے وہ پھر باز کہاں آتے ہیں سو یہ سلسلہ بھی چلتا رہا. شام میں جب سے یہ خانہ جنگی شروع ہوئی ہے اکثریت عوام دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کر چکی ہے. اب تو لوگوں کی بہت کم تعداد ادھر رہ گئی ہے جنھیں ان حملوں کے بعد ہمیشہ کی نیند سُلایا جا رہا ہے. مریم خلیلی ابھی محض چودہ برس کی ہے مگر یہ صرف اُس کی جسمانی عمر ہے وہ ذہنی طور پر اپنے ہم عمر بچوں سے بہت پیچھے رہ گئی ہے. اُس نے اس خانہ جنگی کے دوران اپنے سارے رشتوں کو کھو دیا ہے. رشتوں سے محرومی کے دکھ نے اُس کی ذہنی نشوونما روک دی ہے. وہ دمشق کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج ہے جس کے اوپر بھی دو فضائی حملے ہو چکے ہیں. جس نے مریم کو مزید خوفزدہ کر دیا ہے. اور شائد یہی خوف ایک روز اُس کی جان بھی لے لے. یہ صرف مریم کی کہانی نہیں ہے. شام کے طول و عرض میں بہت سی دل ہلا دینے والی داستانیں بکھری پڑی ہیں. مارچ 2011 میں پہلی بار چند لوگوں نے مل کر بشرالااسد کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا. اس اتجاج کو اگر پُرامن طریقے سے جانے دیا جاتا تو شائد یہ مسلہُ اتنی شدت اختیار نہ کرتا مگر بشرالااسد حکومت نے مظاہرین سے نمٹنے کے لئے پُرتشدد راستہ اختیار کیا. وقتی طور پر حکومت نے مظاہرین کو خاموش کروا دیا تھا. مگر یہ محض وقتی خاموشی تھی تھوڑے ہی عرصے بعد دوبارہ سے یہ سلسلہ شروع ہو گیا اور اب کی بار مظاہرین زیادہ پُرجوش تھے. اُنہوں نے ہتھیار بھی اُٹھا لیے تھے. اپوزیشن جماعتوں نے نہ صرف مظاہرین کی کُھل کر حمایت کی بلکہ اُن کے ساتھ مل کر باغی افواج کا ایک گروہ بنا لیا اور اس گروہ نے حکومت کے خلاف جھڑپیں شروع کر دیں اور یوں اس خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا جس میں بہت حد تک فرقہ واریت کا رنگ غالب ہے.خانہ جنگی کی اس آگ میں جلتے ہوے شام کو تقریباُ چھے سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے. اب تک اس جنگ میں 470000 سے زیادہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. 2015 میں صورتحال اُس وقت مزید خراب ہوئی جب دونوں اطراف سے فضائی حملوں کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں شامی گھروں سے بےگھر ہو گئے. یہ جنگ محض دو گروپوں کے درمیان نہیں ہے بلکہ عالمی طاقتیں بھی اس جنگ کی پُشت پناہی کر رہی ہیں. چار اپریل کو ہونے والے اس کمیائی حملے کے پیچھے اگر روس کا ہاتھ ہے تو میزائل حملے کا آغاز کر کے امریکہ نے بھی اس جنگ میں شامل ہونے کا اشارہ دے دیا ہے. یوں اس سارے بارود کے کھیل میں معصوم شہری اپنی جان سے جاتے رہیں گے. اس سارے معاملے میں مسلم اُمہ کا کردار بھی خاموش تماشائی سے بڑھ کر نہیں ہے. مسلم اُمہ اس مسلےُ پر دو حصوں میں تقسیم ہے کچھ ممالک روس کی حمایت کر رہے ہیں اور کچھ کے خیال میں امریکہ کا جوابی ردعمل ٹھیک ہے. لیکن شامی شہریوں کے متعلق کوئی نہیں سوچتا کہ اُنہیں کس جرم کی سزا ملی ہے جو پناہ گزینوں کی حثیت سے مختلف ممالک میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں. اصل زیادتی تو اُن کے ساتھ ہوئی ہے. وہ شامی شہری بھی ہیں جو اپنے ملک میں اس اُمید پر رہ رہے ہیں کہ شائد حالات ٹھیک ہو جائیں اور یہ تمام لوگ لڑتے لڑتے تھک جائیں. شام میں کمیائی حملوں کی بنیاد پر امریکہ کا واویلا مچانا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ عراق کے بعد اب وہ بچے کچھے شام کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے. مسلم اُمہ کی جو فوج بنائی گئی ہے جس کیب قیادت جنرل راحیل شریف کو سونپی گئی ہے .بظاہر وہ بھی صرف عرب ممالک کی فوج نظر آ رہی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شائد یمنی باغیوں کو سبق سکھانے کے لئے سعودی عرب نے یہ راستہ چُنا ہے اور اس کے پیچھے بھی امریکہ کا ہاتھ ہے. خدا کرے تمام تر اندازے غلط ثابت ہوں اور یہ فوج صحیح معنوں میں مسلم اُمہ کی فوج ثابت ہو. ابھی تو شام میں صرف اور صرف موت کا ہی رقص جاری ہے.
نجانے کون سے موسم کا لے کر نام اُتری ہے
میں روشنی ہوں اور میرے گھر میں شام اُتری ہے.

Fatima Khan
About the Author: Fatima Khan Read More Articles by Fatima Khan: 10 Articles with 7718 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.