بھینس کے آگے بین

دنیامیں جہاں جہاں بھی حکومتیں موجودہیں ان حکومتوں کی ہئیت ترکیبی جمہوریت ہے یا آمریت اگروہ اپنے عوام کے حقوق کاخیال نہ رکھیں اور ان پرظلم وستم ڈھانے کی مرتکب ہوں توانکے خلاف عوامی احتجاج کیاجاتاہے پہلے زمانے میں تواحتجاج کیلئے سادہ اورآسان طریقے استعمال میں لانے کارواج تھاجلسہ منعقدکیاجاتا،جلوس نکالے جاتے اور نعرے لگاکردلوں کابھڑاس نکالنے کی کوشش کی جاتی مگرزمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ احتجاج کے روایتی طورطریقوں میں بھی تبدیلی آئی اوراحتجاج کیلئے نت نئے طریقے ڈھونڈھنے کی ضرورت پڑنے لگی اس سلسلے میں روایت سے ہٹ کراحتجاج کئے گئے کہیں جوتوں کے ہارڈالکراحتجاج کیاگیاتوکہیں بچوں کے ساتھ گرم سڑک پرلیٹ کر احتجاج ریکارڈکیاگیاکہیں تپتی دھوپ میں قمیصیں اتارکراحتجاج کیاگیاتوکہیں انڈے ،ٹماٹر،بوتلیں اورجوتے اٹھاکرغم وغصے کااظہارکیاگیاامریکہ کے صدرجارج واکربش کو ایک عراقی صحافی نے جوتامارکراحتجاج کاانوکھاطریقہ متعارف کرایااس سے قبل بھی اگرچہ یورپ اورامریکہ میں جوتامارنے کے کئی واقعات سامنے آئے تھے مگراتنی بڑی شخصیت کوجوتامارنے کاواقعہ پہلی بارسامنے آیاجسے انٹرنیشنل میڈیانے بھرپورکوریج دی اورساری دنیامیں اس خبرکودلچسپی کے ساتھ سنا،دیکھااورپڑھاگیااسکے بعدمتعددبین الاقوامی سربراہوں اوراہم شخصیات کوجوتامارنے کی رسم اداکی گئی پاکستان میں جوتامارنے کے سلسلے کاتازہ واقعہ لاہورریلوے سٹیشن پرپیش آیاجہاں مسلم لیگ(ن) کے ایک کارکن نے شیخ رشیداحمدکوکس کے جوتاماراسی سی ٹی وی کیمروں کی مددسے جوویڈیوسامنے آئی اس میں جوتاشیخ صاحب کے سرکے اوپری حصے میں آکرلگابہرحال پاکستان کے لوگ بھی اب میڈیامیں کوریج اورغصے کے اظہارکیلئے غیرروایتی طریقے اپنانے کے راستے پرگامزن ہوچکے ہیں یہاں کچھ عرصہ قبل توغربت کے ہاتھوں تنگ آکرفٹ پاتھ پربیٹھ کربچے برائے فروخت کے بورڈ لگائے گئے ،پانی نہ آنے کے خلاف احتجاج میں بالٹیاں اٹھاکرجلوس نکالے گئے ،لوڈشیڈنگ کے خلاف خواتین کے احتجاج میں گھریلوالیکٹرک اشیاء کے ساتھ احتجاج کیاگیا،خواجہ سراؤں کااحتجاج توبذاتِ خودایک انوکھی خبرسمجھی گئی اسی طرح لاہورمیں نابیناافرادنے بھی احتجاج کے انوکھے طریقے اختیارکئے مگراحتجاج کاسب سے جدید اورانوکھاطریقہ کراچی میں کے الیکٹرک کی اووربلنگ کے خلاف احتجاج میں متعارف کرایاگیایہ شائد دنیامیں اپنی نوعیت کاپہلااحتجاج تھاجس میں ایک مشہورمحاورے پرعمل کرکے دکھایاگیااوروہ محاورہ ہے ’’ بھینس کے آگے بین بجانا‘‘ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے باقاعدہ بھینس کابندوبست کرکے اسکے سامنے بین بجائی اوراس طرح حکومت کی مسائل پرعدم توجہی اورغفلت پرانوکھے اندازمیں احتجاجی کوڑے برسائے گئے اس انوکھے احتجاج کومیڈیانے بھی بھرپورکوریج دی اورسوشل میڈیاپربھی اسے پذیرائی ملی اس انوکھے احتجاج کے بعداگرمحاروں پرعملی طورعمل کرکے احتجاج کانیاراستہ کھل گیاتو احتجاج کرنے والوں کومسائل کاسامناکرناپڑسکتاہے اس سے پہلے بھی جماعت اسلامی کے سابق امیرقاضی حسین احمدمرحوم نے بے نظیربھٹوحکومت کے خلاف1994میں دھرنے کے نام سے احتجاج کیاتھاجس کی پذیرائی کایہ عالم ہے کہ اب ہرروز ملک میں کوئی نہ کوئی دھرنالانچ کیاجاتاہے اگرچہ مشہورومعروف دھرنے دوہی ہیں جن میں قاضی صاحب کا1994والادھرنااوراسکے 20برس بعد2014میں عمران خان کاپارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا ،مگراب وطن عزیزمیں دھرنابھی ایک روایتی احتجاج کی صورت اختیارکرچکاہے اگرسابقہ روایت کے پیش نظرجماعت اسلامی کے حالیہ انوکھے احتجاج کوپذیرائی ملتی ہے اورلوگ محاوروں پرعمل کرکے احتجاج کاراستہ اپناتے ہیں تو پانامہ سکینڈل میں نوازشریف کے نااہل ہونے کی صورت میں ’’ آیااونٹ پہاڑکے نیچے‘‘ والامحاورہ صادق آئیگااب اس محاورے پرعمل کرنے کیلئے کسی بیچارے اونٹ کوپہاڑکے نیچے کچلناہوگااوراگریہ فیصلہ نوازشریف اوراسکی فیملی کے حق میں آتاہے تو محاورہ ’’ کھوداپہاڑنکلاچوہا‘‘ فٹ بیٹھے گااس محاورے پرعملدرآمدبے حدمشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتاہے کیونکہ پہاڑکھودنے کے بعداس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی کہ اس سے واقعی چوہاہی نکلے گا اسی طرح نظام کے خلاف احتجاج میں’’ اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی ‘‘والے محاورے کی ضرورت ہوگی حکومتوں کی کرپشن پراحتجاج کیلئے’’ بہتی گنامیں ہاتھ دھونے‘‘ ولامحاورہ استعمال ہوگااب پاکستان میں ناہی کوئی گنگاہے اورناہی اس میں کوئی ہاتھ دھوسکتاہے حکومت اپوزیشن کوطعنہ دینے کیلئے ’’پیٹ میں مروڑ اٹھنے‘‘ والامحاورہ استعمال کریگی اسے بھی عملی جامہ پہناناکارندرادہے سندھ حکومت وہاں کے عوام کوپنجاب کی ترقی جھوٹی ثابت کرنے کیلئے ’’دورکے ڈھول سہانے ‘‘کامحاورہ استعمال کریگی اس کیلئے ڈھول اوروہ بھی بہت دوربجانے کابندوبست کرناہوگاکیونکہ ایک مذہبی جماعت کے کارکن ڈنڈے لیکرڈھول بجانے والوں پرٹوٹ پڑسکتے ہیں صوبائی اپوزیشن جماعت اسلامی کے خیبربینک سکینڈل پر احتجاج کیلئے ’’دوسروں کونصیحت خود میاں فصیحت ،چورکی داڑھی مین تنکا اوربلی 100چوہے کھاکرحج کوچلی‘‘ کے محاوروں کوعملی شکل دیناچاہے گی یہی تینوں محاورے اپوزیشن کی جماعتیں پرویزخٹک کیلئے بھی استعمال کرناچاہیں گی تحریک انصاف کوجماعت اسلامی کی تنقیدسے تنگ آکرجس’’ تھالی میں کھانااس میں چھیدکرنے‘‘ والے محاورے کی ضرورت محسوس ہوگی جواب میں جماعت اسلامی’’ چولی دامن کاساتھ ‘‘والامحاورہ اگر عملی طورپرکرکے دکھائیگی تو مشکل کاسامناہوگامولانافضل الرحمان اورایم کیوایم کی حکومت سے ناراضگی کیلئے’’ چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ والامحاورہ مستعمل ہوگامذہبی جماعتوں کے اتحادکااونٹ اگرکسی کروٹ نہیں بیٹھتااورجماعت اسلامی تحریک انصاف کے اتحادسے بھی رہ جاتی ہے تو اسکے مخالفین’’ آسمان سے گراکھجورمیں اٹکا‘‘والے محاورے کوعملی شکل دینے کیلئے مشکل میں پھنس جائیں گے قبائلی عوام وفاقی حکومت کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کیلئے’’ شترمرغ کاسرریت میں دیکرطوفان گزرنے کاانتظار‘‘والے محاورے کوعملی شکل دیناچاہے گی نوازشریف کے غیرملکی طویل دوروں کیلئے پاکستانی عوام کو’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ‘‘والامحاورہ یادآئیگاالیکشن میں کسی بھی جماعت کی ناکامی پراسکے مخالفین کو’’کواچلاہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘والامحاورہ یادآئیگامذہبی جماعتوں کواسلام کی گردان پراسلام کا’’راگ الاپنا‘‘والامحاورہ عوام کویادآئیگاکئی پارٹیوں کی اچارحکومت کیلئے ’’کہیں کی اینٹ کہیں کاروڑابھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ والامحاورہ فٹ بیٹھے گا صوبائی حکومت میں تین سینئروزراپرایک’’ میان دوتلوارکی بجائے ایک میان تین تلواروں‘‘کامحاورہ استعمال ہوگاکوئی شنوائی نہ ہونے پربھینس کے آگے بین بجانے کے علاوہ’’ اندھے کے سامنے رقص ‘‘والامحاورہ بھی زبردست ہے الیکشن کے بعدحکومت سازی کے وقت ’’ایک انارسوبیمار‘‘والے محاورے کی ضرورت پڑسکتی ہے کسی سرکاری ادارے یاشخصیت کو’’عقل سے پیدل‘‘ ثابت کرنے کیلئے مشکل درپیش ہوگی اس سلسلے کاایک محاورہ پشتومیں بھی ہے’’ عقل ئے پوندوکے دے‘‘ یعنی اسکی عقل ایڑھیوں میں ہے اسے عملی شکل دینابھی ناممکن دکھائی دے رہاہے جوتاکھانے کے بعداسے بم ثابت کرنے والے سیاستدان کیلئے’’ انگلی کٹواکرشہیدوں میں نام لکھوانے ‘‘والامحاورہ کرپٹ سیاستدانون کاکسی ایماندارلیڈرکے اردگردجمع ہونے پر’’چراغ تلے اندھیرا‘‘لوٹابن کراپنی پارٹی کے کرتوت سامنے لانے والے سیاستدان کیلئے’’ گھرکابھیدی لنکاڈھائے‘‘مارشل لاء لگنے پر’’نہ رہے بانس نہ بجے گی بانسری‘‘’’بے وقت کی راگنی‘‘ صحرامیں اذان ‘‘اورکسی حکمران کی اکھڑپر’’گردن میں سرئیے ‘‘والامحاورہ استعمال ہوگا ان سب محاوروں پرعملی شکل میں عمل کرنااگرناممکن نہیں تومشکل ضرورہے لہٰذا بہتر ہوگا’’بھینس کے آگے بین ‘‘جیسے محاوروں کواحتجاجی سیاست سے دورکھاجائے۔

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51477 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.