ڈاکٹر محمود حسین ۔محقق،مورخ،معلم و سیاست داں جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر

جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین خان کا سانحہ ارتحال ١٠ اپریل ١٩٧٥ کو آج ان کی ٤٢ ویں برسی منائی جارہی ہے۔ اس موقع پر ایک علمی و ادبی شخصیت کو خراج تحسین۔ راقم کو یہ شرف حاسل ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب شیخ الجامعہ تھے تو میں جامعہ کراچی کا طالب علم تھا

ڈاکٹر محمود حسین

آج ڈاکٹر محمود حسین کی 42ویں برسی منائی جارہی ہے

جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر
انتقال10اپریل 1975کو ہوا تھا

پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین پاکستان کی تاریخ کا ایک معتبرو محترم نام،ماہر تعلیم، مورخ و مبلغ، محقق و مصنف، معلم، تاریخ دان ، منتظم و مترجم، سیاست داں اور جامعہ کراچی کے چوتھے وائس چانسلرجن کی وفات10 اپریل 1975کو ہوئی ۔ مَیں اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرتا ہوں کے میں نے ڈاکٹر محمود حسین کو قریب سے دیکھا، وہ میرے اس اعتبار سے استاد بھی تھے کہ میں جامعہ کراچی کا طالب علم تھا اور وہ وائس چانسلر۔مجھے ایم اے کی جو ڈگری جاری ہوئی اس پر ڈاکٹر محمودحسین کے دستخط ہیں۔ میں جس انجمن کا رکن تھا ، بعد میں سندھ کا صدر اور سیکریڑی کے بھی فرائض انجام دیے ڈاکٹر صاحب اس انجمن کے بانی صدر رہے۔ ان کی صدارت کا دورانیہ 18 برسوں پر محیط رہا۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی شریف النفس ، نرم اور میٹھے لب ولہجے کے مالک تھے،ان کی شخصیت باوقار اور جاذب نظر تھی، ان کی شخصیت کا خاکہ کچھ یوں بنتا ہے۔ دراز قد، فربہ جسم، گورا رنگ،غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، کھڑی ناک،مضبوط جسم، چہرے پر سنجیدگی، آنکھوں میں سوجھ بوجھ کی چمک، کلین شیو،گلابی ہونٹ، چوڑا سینہ،کتابی چہرہ، سر پر مختصر بال جن میں چاندی نمایاں تھی ، شیروانی اور علی گڑھ کٹ پا جامہ ہمیشہ کا لباس ، سنجیدہ طرز گفتگو، معلومات کا خزانہ،ہر موضوع پر تفصیلی اور حوالائی گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار، ان کا ظاہر جس قدر پر کشش تھا ، باتن ا س سے بھی زیادہ صاف ستھرا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کی رحلت کے بعد ان کے ساتھی اور دوست پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے ادبی جریدے ’نگار پاکستان‘ کا ’محمود حسین نمبر‘ شائع کیا ۔ اس خاص نمبر کے ابتدائیہ بعنوان ’’مُلاحظات : ہر گوشۂ چمن خالی ہے جائے بُلبل‘‘کی ابتداء اس طرح کی ’’۱۰ اپریل کو ڈاکٹر محمود حسین کے روپ مین ایوانِ مشرق کی ایک شمع اور بجھی‘ تہذیبی قدروں اور علم و فن کے چہروں کی روشنی ماند پڑگئی، علمی و ادبی مجلسیں سونی سونی ہیں‘ فضا پر بے دلی و مدنی سی چھائی ہے ہر چند کہ ان کے خونِ دل سے سیراب و شاداب باغات‘ جامعہ ملیہ اور جامعہ کراچی دونون موجود ہیں‘ دونوں میں حسب معمول کام ہورہا ہے‘ وہی طلبہ‘ وہی اساتذہ ‘ وہی وہی دفتری عملہ ، وہی جلسے، وہی کاوبار اور وہی گردشِ روزگار، کیا کچھ نہیں لیکن تازگی و شگفتگی کا چمن بکھیر دینے ولا متبسم چہرہ اور سلام کے لیے ہر وقت اُٹھے ہوئے لمبے ہاتھ اب نظر نہیں آتے۔ سارا ماحول عجب کی طرح سوگوار اور بے کیفی کا شکار ہے، نہ لطیفے ہیں نہ شگوفے، نہ قہقہے ہیں نہ چہچہے۔میر تقی میرؔ کے لفظوں میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ؂
ہر گوشۂ چمن خالی ہے جائے بلبُلْْْ

بات ہے1971کی، ہم بی اے کرنے کے بعد معاشیات میں ماسٹرز کرنے کی امنگ لیے جامعہ کراچی پہنچے، اس زمانے میں بنک کی نوکری میں بہت کشش تھی،نوکری بھی آسانی مل رہی تھی۔ جیسے آجکل آئی ٹی کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ اُس زمانے میں بنکر بننے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ بات مختصر کرتا ہوں کہ شعبہ معاشیات میں تو داخلہ نہ ہو سکا یا نہیں لیا، اس کے بجائے ہم لائبریری سائنس کے شعبہ میں داخل ہوگئے ، قدرت کا نظام بھی خوب ہے بندہ سوچتا کچھ ہے مالک تقدیر نے لکھا کچھ اور ہوتا ہے۔ شاید یہی انسان کے حق میں بہتر بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ معاشیات میں داخلہ نہ ہونا شاید ہمارے حق میں بہتر ہی ہوا۔ شعبہ لائبریری سائنس اُس وقت جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری جواب ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کے نام سے جانی جاتی ہے کی پانچویں منزل پر تھا۔ شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم تھے۔ یہ بات ہے 1971کے ابتدائی دنوں کی۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اپنے وقت کے معروف علمی شخصیت تھے۔ تاریخ ان کا مضمون تھا۔ کیمرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا تھا۔ سینٹ اسٹیفن کالج میں استاد بھی رہ چکے تھے۔ دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر رہے، وہ دہلی یونیورسٹی میں ڈین اور قائم مقام وائس چانسلر بھی رہے۔ڈاکٹر صاحب پانچ سال مرکزی حکومت میں وزارت تعلیم، وزارت اطلاعات اور وزارت بحالیات بھی رہے۔ تاریخ پر ڈاکٹر صاحب کی نظر بہت گہری تھی ،تاریخ کے حوالے سے انہوں نے کئی تصانیف تخلیق کیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پروفیسر بی اے ہاشمی کے بعد یہ منصب 23 جون 1961کو سنبھالا تھا اور دس سال اس منصب پر فائز رہے۔ ابھی ہم ایم اے سال اول ہی میں تھے کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی شیخ الجامعہ کی حیثیت سے 2 اگست 1971کو ریٹائر ہوگئے اور ان کی جگہ 3اگست 1971کوپروفیسر ڈاکٹر محمود حسین شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز ہوئے اس سے قبل ڈاکٹر صاحب تاریخ کے پروفیسر اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ہماری خوش بختی کہ ایک تاریخ دان کے بعد دوسرے تاریخ داں کے زیر سایہ ہم نے پہلی ایم اے کی ڈگری حاصل کی، دوسرا ایم اے سیاسیات میں 1985میں جامعہ کراچی سے ہی کیا البتہ پی ایچ ڈی کے لیے ہمدر د یونیورسٹی کا رخ کرنا پڑا اور سوشل سائنسز میں حکیم محمد سعید شہید کی کتب اور کتب خانوی خدمات کے حوالہ سے مقالہ تحریر کیا جس پر سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حق دار ٹہرا۔ڈاکٹر محمود حسین سے میری ایک مطابقت یہ بھی ہے کہ انہوں نے جرمنی کی ہاہیڈل برگ یونیورسٹی سے سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ شعبہ لائبریری سائنس کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید مرحوم تھے جن کے تعلقات ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور ڈاکٹر محمود حسین سے قربت کے تھے۔ چنانچہ ہمارے شعبہ میں ایک تقریب کا اہتمام ہوا جو ریٹائر ہونے والے شیخ الجامعہ کا الوداعیہ اور نئے آنے والے شیخ الجامعہ کے لیے ویلکم تقریب تھی۔ اس الوداعی اور ویلکم تقریب کی اہمیت ، وقعت کا احساس آج ہوتا ہے کہ جس تقریب میں پروفیسر اشتیاق حسین قریشی اور پروفیسر محمود حسین، ڈاکٹر عبد المعید، ڈاکٹر انیس خورشید جیسی ا علیٰ علمی شخصیات موجود تھیں ان کے درمیان ہماری موجودگی ہی ہمارے لیے
ایک بڑا اعزاز و افتخار سے کم نہیں۔مجھے اس پر فخر ہے۔ شاعر لکھنوی کے بقول ؂
ایثار کا خلوص کا پیکر تھی اُس کی ذات.......خوشبو ئے سادگی سے معطر تھی اُس کی ذات
لہجے میں اس کے قوس قزح کی گھلاوٹیں...رنگوں کے امتزاج کا مظہر تھی اُ س کی ذات

ڈاکٹر محمود حسین5جولائی 1907میں برطانوی ہندوستان کے صوبے یوپی(اتر پردیس) کے شہر قائم گنج ،ضلع فرخ آباد میں پیدا ہوئے۔ان کا خاندان آفریدی پشتون ہے جس کا تعلق پاکستان کے موجودہ خیبر پختونخواہ سے جا ملتا ہے۔ان کے جدِ امجد حسین خان نے 1751 میں کوہاٹ سے قائم گنج ہجرت کی تھی۔ ان کے والد کا نام فدا حسین خان اور والدہ ماجدہ نازنین بیگم تھیں۔ بھارت ( ہندوستان ) تیسرے صدر ڈاکٹر زاکر حسین ان کے بڑے بھائی تھے جو بھارت کے تیسرے اور پہلے مسلمان صدر تھے جو 13مئی 1967سے اپنے انتقال 3مئی 1969 ء تک اس اہم عہدی پر فائز رہے۔وہ بنیادی طور پر تعلیم کے شعبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ بھارت میں تعلیم کے شعبہ میں ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد29اکتوبر 1920 میں ا نگریز دور حکومت میں تحریک آزادی کے مجاہد مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ میں رکھی تھی پانچ سال بعد 1925میںیہ ادارہ علی گڑھ سے نئی دہلی منتقل ہوگیا۔ ، ڈاکٹر زاکر حسین اس جامعہ کے اولین وائس چانسلر تھے۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 22سال وائس چانسلر بھی رہے۔ انہیں ملک کا معتبر ماہر تعلیم اور دانش ور تصور کیا جاتا تھا۔ڈاکٹر صاحب کو ان کی اعلیٰ سیاسی و علمی خدما ت کے اعتراف میں حکومت کی جانب سے بھارت کا سول اعزاز ’’بھارت رتنا‘‘ سے نوازا گیا۔ڈاکٹر محمود حسین ، شکمِ مادر ہی میں تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا، ابھی چار سال ہی کے تھے کہ والدہ نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی پرورش ، تعلیم و تربیت ان کے چچا، چچی اور بڑے بھائیوں کی نگرانی میں ہوئی۔ڈاکٹر محمود حسین سات بھائی تھے، بہن کوئی نہ تھی،مظفر حسین خان، عابد حسین خان، ڈاکٹر ذاکر حسین خان، زاہد حسین خان، ڈاکٹر یوسف حسین خان اور ڈاکٹر محمود حسین خان۔ڈاکٹر یوسف حسین خان حیدر آباد دکن میں 1902 میں پیدا ہوئے اور 1979میں پاکستان میں وفات پائی۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان بھی اپنے دونوں بھائیوں کی طرح ماہر تعلیم، تاریخ دان، محقق ، تنقید نگار، مصنف و مترجم تھے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی اے اور یونیورسٹی آف پیرس، فرانس سے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ڈی لٹ کرنے کے بعد ڈاکٹر یوسف واپس وطن واپس ہوئے اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی انگلش اردو ڈکشنری کی تشکیل میں معاونت کی ۔ اس اعتبار سے وہ ماہر لغت بھی تھے۔ انہوں نے علمی و ادبی موضوعات پر 12 کتب تصنیف کیں ، ان میں سے ایک دیوانِ غالبؔ کاانگریزی ترجمہ بھی ہے ، چھٹے بھائی جعفر حسین خان تھے جو کم عمری میں ہی انتقال کر گئے تھے، ڈاکٹر محمود حسین تمام بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔

پاکستان کی شعر و ادب و سماجی دنیا کی معروف خاتون بیگم ثاقبہ رحیم الدین ڈاکٹر محمود حسین مرحوم کی صاحبزادی ہیں اور جنرل(ر) رحیم الدین خان ڈاکٹر صاحب کے داماد تھے۔بیگم ثاقبہ رحیم الدین ادبی ذوق کی مالک، شاعرہ ہیں، ادیب ہیں ، دانش ور ہیں اور ایک درد مند دل رکھتی ہیں۔ بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے انہوں نے ’پاکستان چلڈرن اکیڈمی ‘ قائم کی اور بچوں کے لیے بہت کام کیا، اِسی طرح علم و ادب کے فروغ و ترقی کے لیے بھی انہوں نے ایک ادارہ ’قلم قبیلہ ‘ کے نام سے قائم کیا۔یہ ایک ادبی تنظیم ہے جس نے ملک میں علم و ادب کے فروغ کے لیے متعدد کام انجام دیے۔بیگم صاحبہ شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ مستند مصنفہ بھی ہیں، بچوں کے لیے آپ نے متعدد کتب تصنیف کیں ان میں صبح کا تارا، جاگو جاگو، دوستوں چلے چلو، سورج ڈھلے، چاند نکلا، کرنیں، گلاب، بادل چھومے، ثاقبہ کی کہانی اور نیند آرہی ہے شامل ہیں، شاعری کے مجموعے بھی بیگم صاحبہ کے شائع ہوچکے ہیں ان میں چلتے چلتے، جی کا نور، خاموشی، پردہ، ہوا، برسات ، ماہِ نو، حسن کی چاہ میں شامل ہیں علمی و ادبی موضوعات پر بھی آپ کی متعدد تصانیف منظرِ عام پر آچکی ہیں ان میں ڈاکٹر محمود حسین ( شخصیت و تاثرات)، محفل تنہا، تہذیب کے زخم ، محبت، درد ہی درد، چراغ جلے، پیغامِ محبت و انسانیت، قلم قبیلہ، دل کی باتیں، گلہائے رنگ رنگ ، ڈھنگ اور چاندنی شامل ہیں۔ بیگم ثاقبہ رحیم الدین کی شخصیت اور علمی خدمات کے حوالے سے پاکستان کی مختلف جامعات میں تحقیق بھی ہوچکی ہے، مجھے تین تحقیقی مقالات کراچی کی ’بیدل لائبریری‘ میں ملے ، جن میں آمنہ مجید کا مقالہ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ، مصباح شیریں کا مقالہ ، عابدہ پروین
کا مقالہ اور شمائلہ اقبال کا مقالہ جامعہ کراچی میں پیش کیا گیا اور ایم اے سندھ حاصل کی۔

ڈاکٹر محمود حسین نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول ، اٹاوا اور علی گڑھ گورنمنٹ ہائی اسکول سے حاصل کی۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ ( بعد میں دہلی منتقل ہوا) کے اولین سیشن کے طالب علم تھے۔ ڈاکٹر محمود حسین نے 1932 میں جرمنی کی ہاہیڈل برگ یونیورسٹی (University of Heidelberg, Germany)سے سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔انہیں 1941 میں کولوراڈا اسٹیٹ کی جانب سے ڈی لٹ کی اعزازی یونیورسٹی سے نوازا گیا۔ وہ پاکستان میں سوشل سائنسیز کو باقاعدہ ایک فیکلٹی اور موضوع کی حیثیت دینے کے داعی تصور کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین اور ان کا خاندان علم و ہنر کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں بھی نیک نام نظر آتا ہے۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر زاکرحسین ہندوستان کے صدر رہے ۔ ڈاکٹر محمود حسین نے بھی پاکستان ہجرت کے بعد سیاست کے میدان میں قدم رکھا وہ پہلی مرتبہ پاکستان مسلم لیگ کے رکن کی حیثیت سے1949میں پاکستان کی منتخب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور انہیں وزارت دفاع، امور خارجہ اور کامن ویلتھ کے امور کی وزارت سونپی گئی، یہ دور لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کا دور تھا۔ 1950-51 میں وہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور امورِ صوبہ پختونخواہ رہے، یہ زمانہ بھی لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کا تھا۔ 1952-53 میں وہ وزیر برائے امورِ کشمیر کے فرائض انجام دیتے رہے، یہ دور خواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمیٰ کا تھا۔ 1953 میں گورنر جنرل غلام محمد نے لاہور میں مارشل لا ء لگایا اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو بر طرف کردیا ۔ اس عمل کے نتیجے میں ڈاکٹر محمود حسین نے بھانپ لیا کہ اب پاکستان میں سیاست کی بساط کسی اور رخ پر چلنے والی ہے چنانچہ انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور تعلیم کے شعبے کو اپنی زندگی کے لیے منتخب کر لیا تادم آخر تعلیم کے شعبے سے وابسطہ رہے اور اعلیٰ خدمات انجام دیں۔سَحر انصاری نے ڈاکٹر صاحب کو [علم کی تاریخ‘ کے عنوان سے خراج تحسین پیش کیا ، اس کا ایک بند کچھ اس طرح ہے ؂
رازمہ و مریخ تھے محمود حسین ...................اوہام کی تنسیخ تھے محمود حسین
کیوں علم کی تاریخ میں زندہ نہ رہیں....... خود علم کی تاریخ تھے محمود حسین

جامعہ کراچی معرض وجود میں آچکی تھی ، پروفیسر ابوبکر حلیم (اے بی حلیم) جامعہ کراچی کے اولین وائس چانسلر تھے ڈاکٹر محمود حسین 1953میں تاریخ اور بین القوامی تعلقات کے اولین پروفیسر کی حیثیت سے منسلک ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک اہم جامعات میں بھی درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھا، ابتدامیں وہ ہائیڈل برگ یونیورسٹی (1963-64) میں وزیٹنگ پروفیسر رہے، اس کے بعد کولمبیاء یونیورسٹی(1964-65) میں پروفیسر رہے اور پینسلوینیایونیورسٹی (1965-66)میں پروفیسر رہے۔ 1960سے1963انہیں ڈھاکہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا گیا۔ 1966 میں ڈاکٹر صاحب واپس کراچی آگئے اور جامعہ کراچی میں تاریخ کے پروفیسر اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس کی ذمہ داریاں سنبھالیں اس کے بعد آپ تادم آخر جامعہ کراچی سے وابستہ رہے۔ جامعہ کراچی میں ڈاکٹر صاحب نے ڈین فیکلٹی آف آرٹس کی حیثیت سے مس کمیونیکیشن اور لائبریری سائنس کے شعبہ جات کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ شہر کراچی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں تعلیم ،سیاست اور تاریخ کے حوالے سے معتبر حوالہ تصور کیے جاتے تھے۔ کتاب اور کتب خانوں سے انہیں بے حد عقیدت اور لگاؤتھا، جامعہ کراچی میں شعبہ لائبریری سائنس کے شعبے کے قیام میں دلچسپی کے علاوہ پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن جس کا قیام ۱۹۵۷ء میں عمل میں آیا ، ڈاکٹر صاحب اس انجمن سے بھی وابستہ رہے۔ پی ایل اے کے بانی رکن اختر ایچ صدیقی کے مطابق ’ صدارت کے لیے مجلس منتظمہ نے متفقہ طور پر ڈاکٹر محمود حسین مرحوم کو پی ایل اے کی صدارت کی پیش کش کی جو ڈاکٹر صاحب نے قبول کر لی، وہ پی ایل اے کے 1957ء سے 1975ء تک (تادم آخر) صدر رہے ۔ان کی صدارت کا دورانیہ 18سال پر محیط ہے۔ کتب خانوں کے قیام ، فروغ ، دلچسپی اور خدمات کے باعث جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری کو ڈاکٹر صاحب کے نام سے معنون کیا گیا جو اب ڈاکٹر محمود حسین لائبریری کہلاتی ہے صادق علی خان نے اپنی کتاب ’ڈاکٹر محمود حسین اور تحریک کتب خانہ پاکستان‘ میں لکھا ’’ڈاکٹر محمود حسین کی یوں تو بحیثیت ماہر تعلیم ، مورخ، معلم اور محب وطن خدمات قابل ستائش ہیں مگر پاکستان میں کتب خانوں کی تحریک میں جو کردار انہوں نے ادا کیا ہے وہ تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے۔ یہی نہیں بلکہ کتب بینی کے شوق کو جن لوگوں نے عام کرنے میں اپنا تن من لٹا یا ہے ڈاکٹر صاحب کا نام اُ ن میں سر فہرست ہے‘‘۔

ڈاکٹر محمود حسین جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی فضاؤں سے اپنے دل و دماغ کو معطر کیے ہوئے تھے، وہ مولانا محمد علی جوہر جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی بھی تھے سے متاثر تھے، ڈاکٹر زاکر حسین کا جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلق بھی ڈاکٹر محمود حسین کے دل و دماغ میں سمایا ہوا تھا پھر وہ از خود اس ادارے کے فارغ التحصیل بھی تھے۔ چنانچہ انہوں نے اسی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کی طرز پر کراچی میں اپنے ہم مزاج ساتھیوں کے ساتھ مل کر جامعہ ملیہ ملیر کی بنیاد رکھی اور اس کے اولین سربراہ ہوئے۔پروفیسر کرار حسین مرحوم نے ڈاکٹر صاحب کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’جامعہ ملیہ علی گڑھ اوردہلی کے ماحول سے انہوں نے یہ حیات افزا اثرات قبول کیے تھے ، جامعہ ملیہ ایک تحریک تھی پھر تجربہ بنی اور آخر میں ایک عظم ادارہ کی شکل اختیار کر گئی جس کے لیے ان کے برادر بزرگ ڈاکٹر زاکر حسین نے اپنا خون جگر صرف کیا تھا‘۔ کراچی میں ایک ادارہ ’’مجلس تعلیم ملی ‘ کے نام سے قائم تھا اس ادارے نے جامعہ ملیہ ملیر کی بنیاد رکھی، ڈاکٹر محمود حسین بھی اس ادارے میں پیش پیش تھے۔ بعد میں اس کے سربراہ ہوئے۔ ملیر کراچی کا ایک سرسبز اور خوبصورت علاقہ تھا ، جہاں اس ادارے کے لیے زمین حاصل کی گئی اور اس کی عمارت تعمیر ہوئی، ابتدائی تعلیم، فنی تعلیم، پیشہ ورانہ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم تک کے مواقع یہاں موجود تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اولین حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو نے تمام تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا اس عمل سے یہ ادارہ بھی حکومتی کنٹرول میں چلا گیا ۔ جامعہ ملیہ کالج، جامعہ ملیہ ٹیچر ٹریننگ کالج حکومتی سرپرستی میں تعلیمی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین کے ساتھیوں نے کچھ حصہ کو جامعہ ملیہ کے تحت محفوظ کرا لیا ہے جہاں پر تعلیم کا عمل جاری و ساری ہے۔ پروفیسر صادق علی خان صاحب جو ڈاکٹر محمود حسین کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے نجی جامعہ ملیہ کے اداروں سے وابستہ رہے۔ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر محمود حسین کے بعد ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی جامعہ ملیہ ملیر کے نائب صدر ہوئے اور وہ اس کے سیکریٹری تھے۔ سلیم الزماں صدیقی صاحب کے انتقال کے بعد پروفیسر ڈاکٹر عطا ء الرحمٰن اس کے نائب صدر ہوئے ، ان کے ساتھ بھی صادق علی خان صاحب نے سیکریڑی کے فرائض انجام دیے۔ اس وقت یہ ادارہ قائم ہے، اس کے سربراہ ڈاکٹر اسماعیل سعد صاحب ہیں جو جامعہ کراچی کے رجسٹرار بھی رہ چکے ہیں۔اس ادارے نے ’ڈاکٹر محمود حسین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ‘ قائم کیا ہے جو سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ادارے خواہ نجی حیثیت میں کام کریں یا سرکاری سرپرستی میں اپنے بانی کے نام سے جڑے رہیں گے ، ڈاکٹر محمود حسین کا نام جامعہ ملیہ ملیر اور جامعہ کراچی سے ہمیشہ وابستہ رہے گا۔ تاریخ ان تاریخ دانوں کو کبھی نہیں بھلا سکتی ۔یہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔

ڈاکٹر محمود حسین کی شخصیت بے بہا خوبیاں لیے ہوئے تھی۔ ان کی ہمعصرشخصیات نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کی زندگی کے مختلف حیثیتوں پر اظہار خیال کیا۔ جس سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ابھر کا سامنے آجاتی ہے۔ سابق شیخ الجامعہ کراچی ڈاکٹر جمیل جالبی نے صادق علی خان کی مرتب کردہ کتاب کے پیش لفظ میں لکھا’ڈاکٹر محمود حسین مرحوم جامعہ کراچی کے ان وائس چانسلروں میں سے ایک تھے جن کا نام آج بھی نہ صرف جامعہ کراچی کے حدود میں گونجتا ہے بلکہ ہماری قومی زندگی میں بھی ان کانام عزت و احترام سے لیا جات ہے۔ وہ مورخ تھے۔ صاحب علم تھے۔ شریف النفس انسان تھے۔ عظیم انسانی وتہذیبی روایتوں کے پاس دار تھے اور وہ آج ہم میں نہیں ہیں ان کی شرافت اور ان کی روایت ہماری معاشرتی و ذہنی زندگی کو حرارت نور سے روشن کئے ہوئے ہے‘۔حکیم محمد سعید شہید نے اپنے مضمون ’بیاد محمود ‘ میں لکھا ’’ڈاکٹر صاحب کے بارے میں کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے وہ مجھ پر مسکرارہے ہیں اور اپنی مخصوص شانِ استغنا کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ غم کیسا ، کس بات کا غم ، حیرت ہے کہ تم نے مجھے نہ پہچانا، میں تو زندہ ہوں اور زندہ رہونگا، میں اس وقت تک زندہ رہوں گاجب تک میرا ایک بھی طالب علم بھی میرا ہم رازہے اور میرے مشن کو اپنی ذات کو جذو سمجھتا ہے۔میرا تعلق زماں و مکاں سے نہیں، میں تاریخ پڑھاتا تھا،اور تاریخ لکھتا ہی نہیں تھا تاریخ بناتا بھی تھا میری ذات اس تاریخ کا ایک حصہ ہے‘‘۔احسان دانش نے ’آئینہ وآداب‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ؂
صاحب غیرت و ایمان تھا محمود حسین...................قابل رشک مسلمان تھا محمود حسین
اٹھ گیا آہ سلگتی ہوئی یادیں دے کر..................قحط آدم میں اک انسان تھا محمود حسین
جس میں ایثار و مروت کے تھے لاکھو ں پہلو.......وہ شرافت کا اک عنوان تھا محمود حسین

ڈاکٹر محمود حسین کی گفتگو کے انداز پر ڈاکٹر محمد علی قاضی کا کہنا تھا کہ وہ ایک تاریخ داں تھے اور فطری طور پر ایک معلم بھی دونوں حیثیتوں نے ان کی شخصیت میں ایک انوکھا نکھار پیدا کردیا تھا جس کی وجہ ان کی گفتگو کا انداز نہایت باوقار اور شیریں تھا۔ ایک تاریخ داں کی حیثیت سے قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر ان کی نظر گہری اور دور رس تھی۔ انہوں نے تاریخ کے مطالعہ کو علمی سطح تک ہی محد ود نہیں رکھا تھا بلکہ اس کو اپنی شخصیت اور دوسروں کے کردار کو سنوارنے کے لیے بھی استعمال کیا‘۔ ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے مضمون ’لیکن ترا چراغ برابر جَلا کیا‘ میں لکھا ’تاریخ داں اور استاد کی حیثیت سے آپ نے ہمیشہ کتاب کی ضرورت کو محسوس کیا۔ کتاب کی نارسائی کو دور کرنے میں بھی آپ ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ وزیر تعلیم تھے تب آپ نے لیاقت میموریل لائبریری کے کام کو آگے بڑھایا ، جب جامعہ ملیہ ملیر کی بنیاد ڈالی تو سرمائے کی کمی کے باوجود کسی مرحلے پر کتب خانے کی ضرورت اور اہمیت کا متاثر نہ ہونے دیا‘۔ڈاکٹر ریاض الاسلام نے انہیں ’ایک روشن مینار ‘ کہا ان کی رائے تھی کہ ’ڈاکٹر صاحب کی ایک اور خوبی جو ہر استاد کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے وہ ان کی صفائی فِکر تھی۔ ان کی سوچ میں الجھن ، پیچیدگی اور ابہام نہ تھا۔ ان کی فکر کسی عظیم مغل عمارت کی طرح روشن اور واضح تھی۔ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ موضوں کو بڑی خوش اسلوبی اور دلنشیں وضاحت کے ساتھ بیان کردیتے ‘۔میجر آفتاب حَسن کا کہنا تھا کہ ’میں نے ان کو مختلف روپ میں دیکھا ہے کہیں وہ اچھے منتظم کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں تو کہیں مدیر کے روپ میں اور کہیں استاد کے روپ میں جلوہ افروز ہیں تو کہیں ماہر تعلیم کے روپ میں۔ کہیں تاریخ داں و سیاستداں کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں تو کہیں کتب خانوں اور عجائب خانوں کی انجمنوں کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں مصلح قوم کے روپ میں سرگرداں ہیں‘۔ جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر احسان رشیدکا کہنا تھا کہ ’بعض شخصیتیں کچھ اتنی دلکش اور ہمہ گیر ہوتی ہیں کہ ان کے ذکر سے نہ سننے والے کی طبیعت سیر ہوتی ہے اور نہ بولنے والے کی۔ ڈاکٹر محمود حسین ایسی ہی معزز اور ہر دل عزیز شخصیتوں میں سے ایک تھے‘۔جامعہ ملیہ ملیر کے موجودی سربراہ ڈاکٹر اسماعیل سعد کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر صاحب مرحوم، ان بڑے آدمیوں میں سے کہ جن کے قریب آنے سے دل میں ان کی محبت اور بڑھتی ہے اور طبیعت میں وہ وحشت نہیں پیدا ہوتی جس کا بہت سے بڑے آدمیوں کو قریب سے دیکھنے میں انسان کو تجربہ ہوتا ہے‘۔ جامعہ ملیہ ملیر کے ایک استاد نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ’کتب خانے سے ڈاکٹر صاحب کو وہی لگاؤ تھا جو خوشبو سے پھول کو یارنگ سے قوس قزح کو‘۔ ڈاکٹر صاحب کے حسن اخلاق کے حوالے سے پروفیسر اخلاق اختر حمیدی نے لکھ ’ ان کو دیکھ کر ہی آدمی ان سے والہانہ محبت کرنے لگتا تھا۔ کوئی اجنبی بھی انہیں سلام کرتا تو اس کا اس طرح ٹوٹ کر جواب دیتے تھے کہ گویا برسوں کی شناسائی ہو۔ ان کے ہشاش بشاس چہرے پر مسکراہٹ اس طرح پھیل جاتی جیسے جھیل میں کنول کھل گیا ہو‘۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھی معروف سائنسداں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا کہناتھا کہ ’ ڈاکٹرصاحب کی ہمہ جہت اور جمالیاتی شخصیت کی تشکیل میں مشاہدے اور مطالعے کی ا یک کلیدی حیثیت تھی۔ تعلیم و تدریس میں ان کا تشخص تاریخ اور فلسفہ تاریخ کے موضوعات سے منسلک تھا لیکن شعر و ادب اور بالخصوص فنون لطیفہ سے ان کا بڑا گہرالگاؤ تھا‘۔

ڈاکٹر محمود حسین کواردو اور انگریزی کے علاوہ جرمن اور فارسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے مضامین اور تقاریر کی تعدادتو ہزاروں میں ہوگی۔ تصانیف میں انگریزی سے اردو ترجمہ شدہ تصانیف زیادہ مشہور ہیں ان میں معاہدہ عمرانی یا اصول قانون سیاسی، بادشاہ، فتح مجاہدین، The Quest for an Empireکے علاوہ Of Libraries and Librariansاور دیگر شامل ہیں۔ڈاکٹرمحمود حسین جیسی علمی ،ادبی و سیاسی شخصیت پر بہت کچھ لکھا گیا ۔ مضامین کا تو شمار مشکل ہے۔ میری علم میں جو کتب آسکیں ان میں ڈاکٹر صاحب کی صاحبزادی بیگم ثاقبہ رحیم الدین نے ڈاکٹر صاحب پر ایک کتاب ’’ڈاکٹر محمود حسین: شخصیت و تاثرات مرتب کی، پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری مرحوم نے ادبی جریدہ ’’نگار پاکستان‘‘ کا محمود حسین نمبر 1975میں شائع کیا، جامعہ ملیہ کے ڈاکٹر صاحب کے ساتھی صادق علی خان صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور خدمات کے حوالے سے ایک مجلس مذاکرہ ترتیب دیا جس کی روداد کو انہوں نے کتابی صورت میں بعنوان’’ڈاکٹر محمود حسین اور تحریک کتب خانہ پاکستان: مجلسِ مذاکرہ بیاد ڈاکٹر محمود حسین صدر انجمن کتب خانہ پاکستان منعقدہ ۳۰ اپریل ۱۹۷۸ء‘‘ شائع کی۔ جس میں ڈاکٹر محمود حسین کے قریبی ساتھی اور دوستوں کے مضامین شامل ہیں۔نگار پاکستان کے خصوصی شمارے میں اس وقت کا کونسا اہل علم ایسا ہے جس نے ڈاکٹر صاحب سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار نہ کیا ہو۔بہت ممکن ہے کہ ان تینوں کے علاوہ بھی کچھ کام ہو ا لیکن میرے علم میں یہی آئے۔ یہاں کراچی کے بیدل لائبریری اور اس مہتمم زبیر صاحب کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، انہوں نے ڈاکٹر محمود حسین اور ثاقبہ رحیم الدین کے حوالے سے مواد فوری طور پر نکال کر دیدیا اور میری مشکل آسان ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب پر ان کی بیٹی کی تصنیف ، نگار پاکستان کا ڈاکٹر محمود حسین نمبر اس لائبریری میں محفوظ ہیں۔ ان کی ذرائع کی بدولت ایک اور مشکل حل بھی حل ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کی تاریخ وفات انٹر نیٹ پر 12اپریل درج ہے ،اب ضروری ہوگیا تھا کہ اس بات کی تصدیق کی جائے کہ درست تاریخ کیا ہے۔ ثاقبہ رحیم الدین کی تصنیف اور نگارِ پاکستان کے خاص نمبر سے درست تاریخ وفات معلوم ہوسکی۔

ڈاکٹر محمود حسین کا انتقال جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی کی سینڈیکیٹ کی میٹنگ سے فارغ ہوئے تو چند احبا ب نے ان سے کسی موضوع پر گفتگو کرنا چاہی۔ ڈاکٹر صاحب نے انہیں منع کردیا اور لفٹ کے ذریعہ اپنے دفتر میں واپس آگئے، جہاں پر پروفیسر انیتہ غلام علی ان کا انتظار کر رہی تھیں۔ صادق علی خان صاحب کہتے ہیں کہ یہ بات محترمہ انیتہ غلام علی نے بتائی کہ ڈاکٹر صاحب اپنے آفس میں تشریف لائے تو کچھ تھکے تھکے لگ رہے تھے، بیٹھتے ہی انہوں نے اپنی شیروانی کے بٹن کھولنا شروع کیے اسی دوران انہیں دل میں درد محسوس ہوا ، فوری طور پر انہیں اسپتال لے جایا گیا، دو تین دن اسپتال میں رہے اور 10اپریل 1975کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

معروف شاعرہ پروین شاکر بھی اس وقت جامعہ کرچی میں شعبہ انٹر نیشنل ریلیشنز کی طالبہ تھی اور شاعرہ کے طور پر معروف ہوچکی تھی پروین شاکر ڈاکٹر محمود حسین سے عقیدت رکھتی تھیں اور ان کی مداح بھی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اچانک رحلت نے انہیں گہرے صدمے میں مبتلا کیا ۔ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار ’’وہ خوشبو کے سفر میں‘‘ کے عنوان سے اس طرح کیا ؂
اترا تھا لہو جس کا رگ شاخ ثمر میں
پایا تھا غم پھول نے جس دستِ ہنر میں
روٹھا ہے گلستان سے بہاروں کی طلب میں
بچھڑا ہے ہواؤں سے وہ خوشبو کے سفر میں.............(۱۳۹۵ھ )

رئیسؔ امرہوی مرحوم نے ڈاکٹر صاحب کو عالم نکتہ داں کہتے ہوئے اسے ایک عظیم حادثہ قرار دیتے ہوئے یہ قطعہ کہا ؂
اک عالم نکتہ داں کی رحلت .......دراصل ہے ا ک جہاں کی رحلت
سچ ہے کہ عظیم حادثہ ہے.............. ’’محمود حسین خان‘‘ کی رحلت

ڈاکٹر محمود حسین کا جسد خاکی 11مئی 1975ء کی شام چار بجے ان کی وصیت کے مطابق ان کے مکان واقع پی ای سی ایچ ایس سے جلوس کی صورت میں جامعہ ملیہ ملیر کے احاطے میں لے جایا گیا ، اس وقت کے معروف عالم دین جناب احتشام الحق تھانوی نے نماز پڑھائی اور اس محبوب ہستی کو آہوں اور سسکیوں میں جامعہ ملیہ ملیر کی مسجد کے دروازے کے سامنے دائیں جانب جامعہ تعلیم ملیہ ملیر کے سیکریٹری ماسٹر عبد الحئی مرحوم کی قبر کے برابر مٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا
فرمائے، آمین(10اپریل 2017)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278734 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More