امریکی صدر ٹرمپ ۰۰۰ہند و پاک کے درمیان ثالثی کا رول ادا کریں گے!

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہندوپاک کے درمیان کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کا انتظار کئے بغیر مصالحتی رول ادا کرنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان امن و سلامتی کے لئے امریکہ اہم رول ادا کرے گا ۔ وائٹ ہاؤز میں صحافت سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ عالمی سطح پر دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ہر ملک ممکنہ اقدامات کریں انہوں نے کہا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کا رول ادا کریں گے۔امریکی صدر نے ہندوپاک سے متعلق اوباما کی پالیسی میں تبدیلی کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ امریکی صدر دونوں ممالک کے درمیان بہتر اور پرامن تعلقات بحال کرنے کی بات کرکے نریندر مودی اور نواز شریف کی دوستی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اب دیکھنا ہیکہ دونوں ممالک کی حکومتیں امریکی صدر کی جانب سے ثالثی رول ادا کرنے کے فیصلہ کو کس زاویہ سے دیکھتے ہیں۔اگر واقعی ہندو پاک کے درمیان امریکہ ثالثی کا رول ادا کرکے کامیاب مساعی کرتا ہے تو یہ خوش آئند اقدام ہوگا لیکن کیا چین امریکی صدر کے اس ثالثی کے فیصلہ کو خاموش تماشائی کی طرح برداشت کرسکتا ہے۔خیر مستقبل قریب میں اس سلسلہ میں دونوں ممالک کی جانب سے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں اس پر نظر رکھنی ہوگی۔

ہندو پاک ہو کہ دیگر ممالک ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی مقام پر کوئی نہ کوئی بہانہ بناکران پر ظلم و ستم ڈھانے یا انہیں بدنام کرنے کی کوششیں ابتداء اسلام سے ہی ہوتی رہی ہیں ۔ مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ آغاز اسلام سے ہی توڑے جانے لگے تھے اور یہ سلسلہ قربِ قیامت تک شاید جاری رہے گا۔ اسلام کی حقانیت و صداقت اور عظیم الشان مذہب ہونے کا دشمنانِ اسلام نے بھی اعتراف کیا ہے لیکن جب اس عظیم المرتبت مذہب کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی بات آتی ہے تواس سے انحراف کیا جاتا رہا ہے کیونکہ جس کو اﷲ رب العزت کی ہدایت ملی وہ کامیاب و کامران ہوکر فلاح پالی اور جس نے اپنے دل میں کج روی اختیار کی اور اسلام کے خلاف اپنے دل میں زہر رکھا وہ ناکام ونامراد ہوکر واصل جہنم ہوا۔ آج بھی بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ یہی سب کچھ ہورہا ہے کہیں پر مسلمانوں کو عبادت سے روکنے کی کوششیں ہوتی ہیں تو کہیں مسلمانوں کی املاک کو لوٹا جاتا ہے ۔ گذشتہ دنوں فرانس کے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکنے کے لئے مسجد کو بند کردیا گیا۔ پیرس کے مضافاتی علاقے میں واقع ایک مسجد کوبند کئے جانے پر احتجاج کرتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں نے شہر کی سڑکوں پرجماعت کے ساتھ نماز اداکرکے احتجاج درج کروایا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فرانس کے سینکڑوں مسلمانوں نے شمالی پیرس کے کلیشی علاقے میں اس مسجد کے سامنے سڑک پر نماز ادا کی جسے نماز جماعت کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس مسجد میں نماز کے ساتھ عربی اور اسلامی تاریخ کی تعلیم بھی دی جاتی تھی جس میں کم و بیش تین سوطلباء تعلیم حاصل کررہے تھے جو فی الحال یہ طلباء درس سے محروم ہوچکے ہیں۔ احتجاجی مظاہرین گذشتہ دو ہفتوں سے اس مسجد کے سامنے جمع ہو کر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان احتجاجی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا اس وقت تک وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہیکہ فرانس میں تقریبا پچاس لاکھ مسلمان آباد ہیں ۔ مسلمانوں کو نماز سے روکنے کی اس کوشش کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ وہاں کے احتجاج کرنے والے مسلمان کہیں اشتعال انگیزی پر اتر نہ آئیں کیونکہ کسی کے ورغلانے پر نوجوان نسل کچھ بھی کرسکتی ہے اگر خدانخواستہ ایسا کچھ ہوتاہے تو اس سے نوجوانوں پر کئی ایک الزامات عائد کرکے سخت قوانین کے تحت انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالدیا جائے گا اور انہیں مستقبل میں دہشت گرد کے طور پر بھی پیش کیا جاسکتا ہے، ان حالات میں مسلمان صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت فرانس سے مطالبہ کریں کہ وہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد کا تالا کھولیں ورنہ حالات بگڑنے کی صورت میں تالا لگانے والے خود اس کے ذمہ دار ہونگے۔ایک طرف مسلمانوں کو اس طرح عبادت سے روکا جاتا ہے تو دوسری جانب فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کی ظلم و زیادتی میں ہر روز اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کو اسرائیل ملیامیٹ کردیتا ہے اس کے باوجود اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اسرائیل منصوبہ بندی کے تحت بین الاقوامی مبصرین کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ تنظیم کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت باقاعدہ منصوبہ بندی سے یہ اقدام کر رہی ہے تاکہ غزہ میں ہونے والی مبینہ زیادتیوں کو چھپایا جا سکے۔ تنظیم نے مزید بتایا کہ 2008ء سے مبصرین اور ماہرین کو اس علاقے میں داخل ہونے سے روکا جا رہا ہے۔ ہیومن رائٹس کی رپورٹ کے مطابق مصر نے بھی 2012ء سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ماہرین کو غزہ میں داخل ہونے نہیں دیا ہے۔مصر میں سابق فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی کی حکومت قائم ہے جنہوں نے جولائی 2013میں جمہوری طور پر منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کی ،2012میں منتخب صدر محمد مرسی کے حامیوں کو جوفوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی کی بغاوت کے خلاف محمد مرسی کی تائید و حمایت میں جمہوری طرز پر تحریر اسکوائر چوک پرخاموش احتجاج کررہے تھے انہیں بے دردی سے ظلم و بربریت کے ذریعہ موت کی آغوش میں پہنچایا جسے ساری دنیا جانتی ہے ان احتجاج کرنے والے اخوان المسلمون میں معصوم بچے ، مرد و خواتین سب ہی شامل تھے۔ عبدالفتاح السیسی ہزاروں کی تعداد میں اخوان المسلمون کے اراکین کو ہلاک ہی نہیں کیا بلکہ اخوان المسلمون کے روحانی پیشوامحمد بدیع اور ہزاروں اخوان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرکے قید کیا اور انکے خلاف سخت دفعات عائد کئے تاکہ عدلیہ کے ذریعہ انہیں سخت سے سخت سزا دی جاسکے ، انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق مصر میں چالیس ہزار افراد سیاسی قید ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق عبدالفتاح السیسی مصر میں اپنی مضبوط گرفت قائم کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کے طور پر انہوں نے مصر سے غزہ جانے والی کئی سرنگوں کو اسرائیل کے کہنے پر بند کیا۔اسرائیلی حکومت کے ساتھ مل کر عبدالفتاح السیسی اپنی ظالمانہ کارروائیوں کواور غزہ کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم و بربریت کو منظر عام پرلانا نہیں چاہتے یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ مصر میں ہیومن رائٹس کا داخلہ ممنوع ہے کیونکہ اس سے ان کی مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی ظالمانہ کارروائیوں کا پردہ فاش ہوجائیگا۔صدرعبدالفتاح السیسی 3؍ اپریل 2017کو امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤز میں ملاقات کی اس ملاقات کے دوران دونوں قائدین کا کہنا تھا کہ اتحادی طاقت کے باوجود داعش کو شکست نہیں دی جاسکی۔مصر اور امریکہ کے درمیان بہتر تعلقات کا ذکر کیا گیا اور عالمی امن کے لئے دونوں ممالک نے عہد کیا۔ عبدالفتاح السیسی ایک طرف عالمی امن و اتحاد کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنے ہی ملک میں عوام پر جبرو ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اگر نہیں ہے تو پھر حقوق انسانی کی تنظیم مصر میں داخلہ کی اجازت دیں۔ امریکی صدر بھی امن و اتحاد کی بات کرتے ہیں لیکن افغانستان میں اپنی فوج کے ذریعہ جس طرح افغانی عوام پر دہشت گردی کے خاتمہ پر ظلم و بربریت کرتے ہیں اس کے خلاف روس نے آواز اٹھائی ہے۔ روس نے طالبان کے مطالبہ کی حمایت کرتے ہوئے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی غیرمعینہ مدت تک قیام کے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔افغانستان کیلئے روسی صدر کے خصوصی ایلچی ضمیر قابلوف نے ماسکو میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے ضمن میں طالبان کا مطالبہ منصفانہ ہے، انھوں نے کہا کہ کوئی بھی افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی غیرمعینہ مدت تک موجودگی کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ضمیر قابلوف کا کہنا تھا کہ امریکہ اپریل کے وسط میں افغانستان میں قیام امن کیلئے ماسکو میں منعقدہ بات چیت کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے، انھوں نے امریکہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اورکہا کہ امریکہ کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو ڈکٹیٹ کرے کہ افغانستان کے حوالے سے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، انھوں نے کہا کہ افغان طالبان کی اکثریت داعش کے خلاف ہے اورطالبان نے عالمگیر جہاد کا نظریہ ترک کردیا ہے، اس لیے اب طالبان کی حیثیت ایک قومی فورس کی ہوگئی ہے۔اس طرح روس کی جانب سے افغان طالبان کی حمایت امریکہ کیلئے تشویش کا باعث ہوسکتی ہے کیونکہ روس عالمی سطح پر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی سعی کررہا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ امریکہ افعانستان میں متعین اپنی فوج کے بارے میں روس کو کیا جواب دیتا ہے۔ایرانی ٹیلی ویژن کے مطابق افغانستان میں داعش اور طالبان ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے ہیں اس طرح دونوں دہشت گرد تنظیموں کے درمیان خطرناک کارروائیوں کا سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہ سکتا ہے۔

یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے آبادکاروں کی بستیوں کی "بے سوچے سمجھے" توسیع امن کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک نئی بستی کے قیام کی منظوری کے فیصلے کو براہ راست تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق وہائٹ ہاؤز میں ایک ذمّے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ "صدر ٹرمپ نے اعلانیہ طور پر اور نجی محفلوں میں بھی یہودی بستیوں کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر بستیوں کا وجود بذات خود امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں تو بھی اس کی اندھا دھند توسیع امن کے عمل کو آگے لے جانے میں مددگار نہیں ہو گی۔ یورپی ممالک نے غرب اردن میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے صیہونی کابینہ کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ برطانیہ ، فرانس اور جرمنی نے بھی ایک بیان جاری کر کے غرب اردن میں نئی یہودی کالونی کی تعمیر کی اسرائیلی کابینہ میں منظوری کو بین الاقوامی اصولوں و قوانین کے منافی قرار دیا ہے۔ جرمنی کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ وہ 1967ء کی سرحدوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ بوریس جانسن نے بھی اسرائیلی حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تعمیرات، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس سے خود مختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کا طریقہ کار کمزور ہو گا۔ فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کی اسرائیلی کابینہ میں منظوری کی مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو تشویشناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے کشیدگی میں اضافہ ہو گا اور امن کا عمل خطرے میں پڑ جائے گا۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی اسرائیلی حکومت کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرقی بیت المقدس سمیت مقبوضہ فلسطین میں کسی بھی طرح کی کالونی کی تعمیر، بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔امریکی صدر اور یوروپی ممالک کے قائدین کی جانب سے مذمتی بیانات اسرائیلی حکومت کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اسرائیلی حکومت ماضی میں بھی امریکہ اور اقوام متحدہ و دیگر عالمی طاقتوں کے مذمتی بیانات کے باوجود فلسطینی علاقوں پر قابض ہوکر نئی بستیاں قائم کرتی رہی ہے اور اب ان تمام کی جانب سے مذمتی بیانات آنے کے باوجود وہ اس سے باز آتا دکھائی نہیں دے رہا ۔

یمن کیلئے شاہ سلمان مرکز سے 58 کروڑ ڈالر کی امداد جاری
سعودی عرب یمن میں ایک طرف حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں سخت روی اختیار کئے ہوئے ہے تو دوسری جانب امدادی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ سعودی عرب کے یمن کیلئے قائم کردہ شاہ سلمان امدادی مرکز سے اب تک 58 کروڑ ڈالر سے زیادہ امداد جاری کی جاچکی ہے۔شاہ سلمان مرکز کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس مرکز کا افتتاح خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے 2015 ء میں کیا تھا اور یہ اپنے قیام سے اب تک انسانی بنیادوں پر یمن کے عوام کیلئے مختلف منصوبوں کیلئے 58 کروڑ 44 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی امداد جاری کرچکا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یمن میں انسانی بنیادوں پر قائم کیے جانے والے منصوبوں کی تعداد 123 تک پہنچ چکی ہے جبکہ اس عمل میں 81 شراکت دار ہیں۔انھوں نے کہا کہ فوڈ سیکورٹی، چھت کی فراہمی اور کیمپ مینجمنٹ اور تعاون کے منصوبوں کی تعداد بڑھ کر 44 ہوچکی ہے جن سے دوکروڑ افراد استفادہ کریں گے ، ان پر 238 ملین ڈالر لاگت آئے گی جبکہ اس عمل میں 24 شراکت دار ہیں۔تعلیم، تحفظ اور جلد بحالی کے 16 منصوبوں پر 42 شراکت داروں کے تعاون سے کام جاری ہے جن پر 7,81,76,921 ڈالر لاگت آئے گی اور ان سے پونے تین کروڑ افراد مستفید ہونگے۔ہنگامی صورتحال میں رابطے، لاجسٹک، امداد اور انسانی بنیادوں پر تعاون کے 10 منصوبے شروع کیے ہیں جن سے 15657 افراد کو فائدہ ہوگا، ان منصوبوں پر4 شراکت داروں کے تعاون سے 5,69,48,162 ڈالر خرچ ہوں گے اس طرح سعودی عرب ایک طرف یمن میں حوثی باغیوں کی بغاوت کو ختم کرنے کے لئے کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے تو دوسری جانب یمن کے عوام کو امداد پہنچا کر صدر عبد ربہ منصور ہادی کے اقتدار کو مضبوط کرنے کی سعی کررہا ہے اب دیکھنا ہے کہ حوثی باغی یمن میں ہتھیار ڈالتے ہیں یا یہ جنگ طویل نوعیت اختیار کرجائے گی کیونکہ حوثی باغیوں کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے ۔

روس کے میٹرو اسٹیشنوں میں دھماکہ
سینٹ پیٹرزبرگ میں زیرِ زمین ٹرین اسٹیشنز میں ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم 11 افراد ہلاک اورتقریباً 50 زخمی ہوگئے ۔ روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک مشتبہ شخص جس کی عمر 20سال بتائی جارہی ہے جو ایک کرغزنژاد روسی شہری ہے۔کرغزستان کی سیکیوریٹی سرویسز کے مطابق مبینہ حملہ آور کا نام اکبرزون جلیلوف ہے ۔روسی صدر ولادیمیر پوٹین نے ان دھماکوں کے سلسلہ میں کہا ہے کہ تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور دہشت گردی سمیت تمام وجوہات مدّنظر ہیں۔
***

 

Rasheed Junaid
About the Author: Rasheed Junaid Read More Articles by Rasheed Junaid: 352 Articles with 208950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.