بچوں کے سوالات ۔ فضول ہوتے ہیں یا وہ کچھ جاننا چاہتے ہیں؟


چھوٹے بچے اکثر سوال کرتے ہیں، کیونکہ وہ دنیا کو جانتے نہیں، وہ دنیا میں ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کوئی انسان کسی غیر معروف جنگل میں پہنچ جائے، اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا، بچوں کے لیے بھی دنیا ایک غیر معروف جگہ ہوتی ہے، وہ وقفہ وقفہ سے والدین سے سوالات کرتے ہیں۔ اس مضمون میں والدین کو یہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ بچوں کے سوالات کی قدر کریں اور انھیں ان کے سوالات کا صحیح جواب دیں۔

سوالات

اکثر اوقات والدین بچوں کے کثرت سے سوالات کرنے پر پریشان ہوجاتے ہیں،انھیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ عمر کے ہر مرحلے میں بچے کے سوالات کا انداز بدلتا ہے، یہ چیز دراصل بچے کی علمی پیاس کی علامت ہے، کبھی کبھی بے چینی اور خوف کی وجہ سے بھی بچہ طرح طرح کے سوالات کرتا ہے، لیکن اس موڑ پر والدین کی سب سے بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ بچے کو اس کے عجیب وغریب سوالات کا جواب دینے کے بجائے اس کے سوالات سے بچ نکلتے ہیں یا اکتاہٹ اور بوریت کا اظہار کرتے ہیں یا جان بوجھ کر جواب دینے میں تاخیر کرتے ہیں، خصوصا حساس سوالات کے سلسلے میں بعض والدین کا رویہ انتہائی افسردہ ہوتا ہے، لیکن یہ چیز بچے کی نفسیات پر گہرااثر چھوڑتی ہے، اگر سوال شرمناک ہوتو پھر بچہ میں گناہ پرآمادگی کا جذبہ پروان چڑھنے لگتا ہے، اسی طرح اگروالدین کے جواب ناقص ہوں تو بچہ کسی دوسرے ذریعے سے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے، اسی کے ساتھ بچے کا والدین پر سے بھروسہ ختم ہونا شروع ہوجاتا ہےاور پھر بچے کی یہ کیفیت اور حالت اسے کئی لاجواب سوالات اور مصائب کے بیچ تنہائی پر مجبور کردیتی ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے کے ساتھ لین دین کا معاملہ کرنا اور اس کے ہر سوال کا جواب دیناوالدین کے لیے ضروری ہے، اس لیے کہ اس میں بچے کے لیے کئی بڑے بڑے فوائد پوشیدہ ہیں۔ جن میں بچے کی شخصی ترقی، زبان پر قدرت، نئے نئے الفاظ اور محاوروں کے استعمال میں ترقی، فن سماعت میں بہتری اور والدین کے ساتھ گہرا تعلق شامل ہے، نیز بچے کی خوداعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق بچے کے لیے بچپن کی زندگی ایک ایسے جنگل کی طرح ہے جس سے وہ ناواقف ہے، وہ اس جنگل میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتا ہے، اس لیے بار بار سوال کرکے اپنی بے چینی ، نفسیاتی کشیدگی اور خوف کو دور کرنا چاہتا ہے۔

بچہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے، وہ باتیں کرتا ہے اور چلتا پھرتا ہے لیکن زندگی کے بارے میں اسے کچھ پتہ نہیں رہتا، اسے ان باتوں کا علم نہیں رہتا کہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟ رات کیوں آتی ہے؟ بارش کیوں ہوتی ہے؟ موت کیوں آتی ہے؟ ان سارے سوالات کو بچہ اپنے گھر کے ماحول میں پاتا ہے، لیکن ان کے مطالب ومفاہیم سے ناواقف رہتا ہے، جن کی وجہ سے اس کے سوالات کا سلسلہ تھمتا نہیں، لہذا ایسی صورتحال میں والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سوالوں کا جواب دیں، اور ان کے سوالات کی اہمیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور اہمیت دیں۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچہ تین برس کی عمر میں اپنے اطراف کی ہر چیز کے بارے میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پوچھنے لگتا ہے، وہ جو بھی دیکھتا ہے یا محسوس کرتا ہے ماں باپ سے فورا اس کے بارے میں پوچھتا ہے، ماہرین نفسیات کے بقول بچوں کے فضول سوالات ایک فطری چیز ہے، یہ چیز ان کے اطراف کے ماحول کو سمجھنے اور جاننے کے سلسلے میں ان کی ذکاوت ، ذہانت اور رغبت کی علامت ہے، چیزوں کے بارے میں جاننے کے لیے بچے کی عمر کا ابتدائی مرحلہ انتہائی حساس ہوتا ہے، لہذا والدین کو اس مرحلے میں خاص توجہ دے کر بچوں کے ذہنی وشخصی ارتقاء میں مددگار بننا چاہیے۔

ماہرین نفسیات کی والدین کو یہ بھی نصیحت ہے کہ وہ بچوں کے سوالات کو بغور سنیں، انھیں ان کی استطاعت وقابلیت کو دیکھتےہوئے مناسب اور صحیح جواب دیں، بچوں کی گفتگو کو ختم کرنے کی غرض سے ناقص یا غلط جواب دینا یا جواب دینے میں تاخیر کرنا یا یہ کہنا کہ جب بڑے ہونگے تو معلوم ہوجائے گا، یہ چیز بچوں کےمستقبل کے لیے نقصاندہ ہے۔

افسوس ہے کہ اکثر خاندانوں میں بچوں کی تربیت میں غلط طریقے کو اپنایا جاتا ہے، بچوں کے ساتھ سختی اور سنگدلی کا معاملہ کیا جاتا ہے اور اس کےذریعے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سختی اور سنگدلی بچوں کی صحیح تربیت میں معاون ومددگار ہے۔ بعض والدین بچوں کی ضروریات اور تقاضوں کو بھی یہ سمجھ کر پورا نہیں کرتے ہیں کہ یہ عمل تربیت کے لیے ضروری ہے، اسی طرح بعض والدین بچوں کو دینی نصیحت کرنا بھی اس لیے ضروری نہیں سمجھتے ہیں کہ بچے کی عمر ابھی پانچ ہی سال ہے، اسے کسی نصیحت وغیرہ کی ضرورت نہیں، والدین اس عمر کو بے اثر سمجھتےہیں اور اس کی دینی رہنمائی کرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور نہ اسے عقیدے سے متعلق کسی سوال کا جواب دینا مناسب سمجھتے ہیں۔

لیکن اس سلسلے میں والدین کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کو اپنا نا چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے مسائل حل فرماتے تھے، ان کے سوالات کا جواب دیتے تھے، ان سےکبھی کبھی سوال بھی فرمایا کرتے تھے اور غلطیوں کو بہت ہی نرمی اور شفقت کے ساتھ دور فرماتے تھے۔

والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ وہ ان کی فکر اور سوچ کا احترام کرتے ہیں، وہ عموما ان کے کسی بھی سوال کو برا نہیں سمجھتے ہیں، خاص طور پر دین اور عقیدے سے متعلق سوالات پر خوش ہوتے ہیں، یہ احساس بچےکی شخصیت پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔
(مجلہ الوعی الاسلامی کویت ، شمارہ فروری ۲۰۱۷،)

Mubassir Ur Rahman Quasmi
About the Author: Mubassir Ur Rahman Quasmi Read More Articles by Mubassir Ur Rahman Quasmi: 7 Articles with 18696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.