وہ بھی کیا وقت تھا؟

کئی سال پہلے ایک دوست نے بتایا کہ جاپان میں سٹرکوں کے کنارے زرعی فارم ہاوسز کے مالکان سبزی اور فروٹ کے سٹال لگا دیتے ہیں اور ریٹ لسٹ آویزاں کردی جاتی ہے۔ سٹال پر ایک باکس بھی رکھا ہوتا ہے، کسٹمرز اپنی پسند کی سبزی اور فروٹ ساتھ رکھے ہوئے باکس میں رقم ادا کرکے چلے جاتے ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ کیا لوگ وہاں سے سبزی چوری نہیں کرتے یا کم رقم تو ادا نہیں کرتے تو انہوں نے بتلایا کہ ایسی اطلاعات نہیں ہیں۔ یہ خبر میرے لیے حیران کن تھی اور بارہا سوچتارہا کہ اپنے ملک سے نقل مکانی کرکے جاپان ہی چلے جانا چاہیے۔ میں نے عموم میں کبھی بھی بیرون ملک جانے کا پروگرام نہیں بنایا۔ مختلف اوقات میں احباب نے مختلف ممالک میں ملازمت اور کاروبار کے امکانات کا ذکر بھی کیا اور کچھ بہت ہی اچھے دوستوں نے سپانسرشپ دینے کا اظہار بھی کیا لیکن میں اس پر آمادہ نہیں ہوا۔ تاہم جب کبھی جاپان کے بارے میں یہ خبر میرے حافظے میں تازہ ہوتی تو بلا سوچے سمجھے جاپان جانے کو دل کرتا۔

یہ کیسا خوشگوار ملک ہوگا جہاں پر لوگ اپنی مرضی سے سبزی،فروٹ پسند کرتے ہیں اور ساتھ ہی لکھے ہوئے ریٹ پر پوری دیانتداری سے ادائیگی بھی کردیتے ہیں۔ یہ ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جہاں چوری، جھوٹ اور دھوکہ دہی کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہو گا۔ یقینا جو لوگ اتنے دیانتدار ہوں گے وہ پرامن بھی ہوں گے، روادار بھی ہوں گے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں بھی شریک رہتے ہوں گے۔ آج کی افراتفری، بدامنی، لاقانونیت، عدم برداشت اور دہشت گردی کی عفریت سے بھری ہوئی دنیا میں امن کا مسکن لگتا ہے۔یہ ایک خوشگوار سا خیال کبھی کبھار میرے دل و دماغ میں گردش کرتا رہتا اور مجھے اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے میں جاپان کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جان سکا تاہم اس معاشرے کے بارے میں سب ہی کچھ جاننے کا شوق ہمیشہ تازہ رہتا ہے۔

چند دن پہلے بچپن کی کچھ یادیں اپنے بچوں کے ساتھ تازہ کررہے تھے کہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے دیہاتی سماج میں پن چکی (جندر) ہوا کرتا تھا۔ جندر پانی سے چلنے والی چکی ہوتی تھی، جو دریا کے کناروں پر جا بجا پائی جاتی تھی۔ دیہاتی لوگ مکئی، گندم اور جوؤ کی پسائی کے لییوہاں آتے تھے۔ اس زمانے میں چکی کا مالک وہاں نہیں ہوتا تھا اور نہ چکی کے دروازے پر کوئی تالا تھا۔ پسائی کے لیے آنے والے چکی کے دروازے کھولتا، دانے چکی کے دانیدان میں ڈالتا، باہر نکل کر پانی چکی میں لگانے کے لیے لکڑی کے پشتے تبدیل کرتا، اندر آکر جندر کو سٹارٹ کرتا گندم یا مکئی کی پسائی کرتا اور طے شدہ مقدار میں مکئی یا گندم چکی میں موجود ترازو سے تول کر مالک کے تھیلے میں ڈال دیتا۔ چکی کا مالک دوسرے یا تیسرے دن آتا اور جمع شدہ غلہ لے جاتا۔ اس دور میں کبھی بھی سننے میں نہیں آیا کہ کسی نے جندر(پن چکی) میں رکھا ہوا غلہ چوری کرلیا ہے اور نہ کبھی یہ سننے میں آیا کہ کسی نے مکئی کی پسائی تو کرلی لیکن مالک کا حصہ (پہاڑہ) ادا نہیں کیا۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارے ہاں تعلیم ناپید تھی، زیادہ تر لوگ جاہل تھے لیکن امانت دار اور ہمدرد تھے۔ پتہ نہیں اس زمانے میں جاپان والے لوگ کیسے تھے، کیا یہ اقدار وہاں پرانی ہیں یا تعلیم، صنعت وحرفت کی ترقی کے بعد ان میں یہ خوشگوار تبدیلی آئی ہے۔ ہمارے ہاں اب تعلیم بھی عام ہے اور خوشحالی بھی ہے لیکن وہ دیانتداری، ہمدردی اور انسان دوستی دکھائی نہیں دیتی۔

میں جب دنیا میں پھیلے ہوئے خوف کے سائے دیکھتا ہوں تو مجھے آج بھی اپنا علاقہ (باغ، آزادکشمیر) جنت کا ٹکڑا لگتا ہے۔ ذرا چند مناظر دیکھ لیں کہ آپ رات کے کسی بھی پہر آزادکشمیر کے کسی بھی علاقے میں بلاخوف و خطر کسی بھی سواری پر یا پیدل سفر کرسکتے ہیں۔ اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کسی بھی جگہ پارک کرکے سٹرک سے دور کسی جگہ جا سکتے ہیں۔ آپ کو اور آپ کی گاڑی کو کوئی خطرہ نہیں۔گزشتہ سال عید کے موقع پر میری گاڑی میں پٹرول کم ہوگیا اور قرب و جوار کے تمام پٹرول پمپوں پر پٹرول ختم ہو گیا۔ مجھے راولاکوٹ سے باغ جانا تھا، پریشانی کے عالم میں ایک ایک منٹ کا سفر طے کررہا تھا، رات کا اندھیرا چھا چکا تھا تو ویرانے میں کچھ نوجوان بیٹھے گپ شپ کرتے دکھائی دئیے، ذرا ہچکچاہٹ کے بعد میں نے گاڑی روکی اور ان سے پڑول کی دستیابی کے بارے میں پوچھا۔ نوجوانوں نے بہت دلچسپی سے میری بات سنی اور کہا کہ قرب و جواز میں موجود پٹرول پمپوں پر پٹرول ختم ہو چکا ہے لیکن فکرمندی کی کوئی بات نہیں، ادھر قریب میں ایک دکان سے کھلا پٹرول مل جائے گا۔ ایک نوجوان نے کہا انکل اگر وہاں سے پٹرول نہ ملا تو وہ اپنی موٹرسائیکل سے پٹرول نکال کر مجھے دے د یگا، جو وہ 20 کلومیٹر دور سے آج ہی ڈلوا کر آیا ہے۔ مجھے ایسے لگا جیسے میں کسی اور معاشرے میں ہوں۔ فون پر رابطہ ہوا تو پتہ چلا کہ پٹرول تو دستیاب ہے لیکن دکاندار گھر جا چکا ہے، اس نوجوان نے اس کو درخواست کی کہ وہ دوکان پر آکر ہمیں پٹرول دے۔ چند منٹوں کی مسافت پر جب ہم دوکان کے قریب پہنچے تو تب تک دکان کھل چکی تھی اور ہم پٹرول لے کر واپس اسی ویرانے میں آئے اور ان نوجوانوں سے مل کر خوشی خوشی اپنے گھر کو روانہ ہوئے۔ یہ بچے انٹر میڈیٹ لیول کے طالب علم تھے اور رات کے اندھیرے میں محض کھلنڈرے سے لگ رہے تھے، جو میرے لیے رحمت کے فرشتے ثابت ہوئے۔

ہمارا ملک اورہمارا معاشرہ ایسی لاکھوں خوبیوں سے بھرا پڑا ہے، پتہ نہیں ہمارا میڈیا محض برائیوں کو کیوں اجاگر کرتا ہے۔ جب مجھے یہ سب کچھ یاد آتا ہے تو اپناوطن جاپان سے بھی زیادہ دلکش سا لگتا ہے، ہاں اگرکرپٹ سیاستدانوں اور نالائق نوکرشاہی سے نجات مل جائے تو ہم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے مقابل کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
 

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105105 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More