کفن ہمارا جوڑا ہے اور قبر بنی سسرال

کراچی کے معروف علاقے اورنگی ٹاؤن میں پیش آنے والا یہ سچا واقعہ،میرے دوست نے مجھے سنایا ہے۔
شفیق صاحب ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کی صرف دو ہی بیٹیاں تھی،جو اب جوانی کی عمر میں داخل ہوچکی تھیں ،باپ کو دن رات یہی بات ستاتی تھی کہ وہ اپنی ان جوان بیٹیوں کا نکاح کیسے کرے گا وہ ایک نچلے درجے کے ریلوے ملازم تھے ،گو کہ وہ ملازم تو ضرور تھے لیکن محکمہ سے اسے تھوڑی سی تنخواہ ملتی تھی ،جس سے بڑی مشکل سے وہ ان دو بیٹیوں کا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالتا تھا ۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا شفیق صاحب کی پریشانی دن بدن بڑھتی گئی۔بیٹیوں کے لئے رشتے پہ رشتے آتے گئے لیکن غریبی اور بے بسی کے آگے دونوں میاں بیوی بہت لاچار ہوگئے تھے،بارگاہِ الہی میں ہاتھ اٹھا کر بس یہی دعائیں کرتے رہتے تھے کہ: اے خدا ہمیں اس لائق بنا دے کہ ہم با عزت اپنی بیٹوں کا نکاح کروا کر اپنا فرض ادا کر سکیں یہی ہماری پہلی اور آخری خواہش ہے۔ مجبور باپ نے اپنے دفتر میں مدد مانگی، پھر اپنے رشتہ داروں کے پاس مدد کی امید ظاہر کی کہ میری مدد کرو، تاکہ میں باعزت اپنی بیٹوں کا نکاح کروا کر اپنے باپ ہونے کا فرض ادا کر سکوں۔لیکن سب بے سود ثابت ہوا،سب لوگ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے ،حیلے بہانے بناتے رہے، کسی نے مہنگائی کی کہانی سنا کر نفی کر دی تو کسی نے اپنی ہی پریشانی سنا کر بے آس کر کے واپس لوٹا دیا ۔

شفیق صاحب دن بھر دفتر میں حاضری دے کر ایک فرض تو پورا کررہا تھا لیکن اس کو اس بات کا غم پل پل کھائے جا رہا تھا کہ اس کی زندگی کا اصل مقصد کب پورا ہوگا، شام کو جب وہ گھر لوٹ آتا اور اپنی نوجوان بیٹیوں کا معصوم چہرہ دیکھتا اور آنسوں بہاتا رہتا کہ میری معصوم بیٹیوں کی قسمت میں خدا نے نہ جانے کیا لکھا ہوگا ۔ بیٹیاں کافی سمجھدار تھیں جب وہ اپنے مجبور باپ کی اس تکلیف کو دیکھتی تھیں تو وہ بھی تنہائی میں جاکر اپنی آنکھیں نم کر لیا کرتی تھیں۔انسان وقت اور حالات کے سامنے مجبور ہوتا ہے، ایک دن جب شفیق صاحب اپنے ملازمت سے گھرلوٹے ،کچھ وقت بیٹیوں کے ساتھ بیتایا اور پھر آرام کرنے کے لئے چلے گئے ۔

تو اسی دوران حالات نے شفیق صاحب کو اس قدر مجبور کیا کہ اس کے ذہن میں ایک خطرناک سوچ نے جنم لیا، جب وہ بستر پہ لیٹے تو سوچ میں گم ہو گئے ،سوچتے سوچتے وہ اس نتیجے پہ پہنچے کہ میں ایک ریلوے ملازم ہوں اگر میری موت ہوگئی تو میرے مرنے کے بعد میری بیوی کو پیسے ملیں گے جس سے وہ ان بیٹیوں کی شادی کر سکے گی۔ اس نے سوچا کہ صبح کام پہ نکلتے ہی میں کسی گاڑی کے سامنے آجاؤں گا اور اپنی جان دے دوں گا کیونکہ میری جان نہیں میری بیٹوں کی عزت سے بڑھ کر ۔ لیکن ادھر بیٹیوں کی سوچ میں بھی ایک دم تبدیلی آگئی ،وہ ماں باپ کی اس پریشانی کا شکار ہو کر رہ گئی کہ آخر ہم اپنے ماں باپ پہ بوجھ بن کر رہ گئیں ہیں۔رات بھر چار افراد پہ مشتمل یہ چھوٹا سا کنبہ اپنی اپنی پریشانی میں مبتلا رہا ۔

صبح کا سورج طلوع ہوا ،لیکن آج کا طلوع ہونے والا سورج شفیق صاحب کے گھر کے لئے روشنی لے کر نہیں ،بلکہ اندھیرا لے کر آیا تھا ۔صبح جب باپ حسب ِ معمول اپنے دفتر نکلا، تو کچھ ہی دیر بعد ان کے انتقال کی خبر آگئی، یہ خبر محلے میں آگ کی طرح پھیل گئی، محلے والے اپنے گھروں سے باہر نکل کر ایک بعد ایک ان کے گھر جانے لگے، جب بیوی نے سنا تو وہ غم کے مارے اپنا سینہ پیٹنے لگی ،آہیں بھرنے لگی ، زور زور سے اپنے قسمت پہ رونے لگی اور اپنی جوان بیٹیوں کو آواز دینے لگی، آؤ یکھو تمہارے بابا کی کیا حالت ہو گئی ہے، اب آپ کے بابا آپ کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔لیکن ماں کی لاکھ آوازیں دینے پر بھی بیٹیاں باہر نہیں آئیں۔

ماں نے اندر جا کر دیکھا تو دونوں بیٹیوں نے خود پھانسی دے اپنی جانوں کا خاتمہ کرلیا تھا ۔اور اپنے بابا کے نام ایک خط چھوڑا تھا ،جس میں انھوں نے یہ تحریر کیا تھاکہ کفن ہمارا جوڑا ہے اور قبر بنی سسرال۔
 

YOU MAY ALSO LIKE: