اچانک بے تحاشا مہنگائی…… متوسط طبقہ بھی بلبلا اٹھا

ملک بھر میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اچانک ہوش ربا اضافے نے عوام کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، درمیانے اور نچلے طبقات مہنگائی سے پریشان ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اشیائے خورونوش اور روز مرہ استعمال کی دیگر اشیا کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کا نوٹس لے کر انتظامیہ کو قیمتیں کم کرانے کی ہدایت کی ہے، لیکن وزیر اعظم کا نوٹس لینا بھی کام نہیں آیااوروزیراعظم محمد نوازشریف کے نوٹس لینے کے باوجود مرغی کے گوشت کی قیمت میں اضافہ، جبکہ ٹماٹر کی قیمتوں میں گراں فروشی جاری رہی، جبکہ مرغی کے گوشت اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کی گئی ہے، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت قمیتوں کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، شہریوں کو مہنگائی سے نجات دلانا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں ملک بھر میں مرغی، پھلوں اور سبزیوں کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے غریب تو پہلے پریشان تھے، اب متوسط طبقہ بھی بلبلا اٹھا ہے۔ عام لوگوں کا کہنا ہے کہ پچھلے تین ماہ میں سبزیوں، پھلوں اور بیشتر اشیائے خوردنی کے نرخوں میں تقریباً ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں مہنگائی 1.2فیصد بڑھی ہے۔ سبزیوں اور پولٹری کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح میں گزشتہ 1 ہفتے کے دوران تقریباً 1.2 فیصد کا اضافہ ہوا، جو رواں سال کا تیز ترین اضافہ ہے۔ اسلام آباد، لاہور سمیت تمام بڑے شہروں کے اتوار بازاروں اور عام مارکیٹ میں سبزیوں، پھلوں اور مرغی کی قیمتوں کو پَر لگ گئے۔ اتوار بازاروں میں ٹماٹر نایاب ہوگئے۔ اتوار بازار انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 100روپے کلو کے ٹماٹر سبسڈی پر دیا جا رہا ہے، جبکہ ایک گاہک کو ایک کلو سے زاید ٹماٹر نہیں دیا جا رہا۔ پاکستان بیورو شماریات کی جانب سے جاری کردہ ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ملک میں ٹماٹر کی قیمتیں اوسطاً 59 فیصد کے اضافے سے 115روپے فی کلوگرام ریکارڈ کی گئیں، تاہم ملک کے بعض شہروں میں نرخ 150روپے فی کلو گرام تک جا پہنچے، خصوصاً اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور میں بھاؤ میں نمایاں اضافہ ہوا۔ پنجاب کے بیشتر شہروں میں ٹماٹر کی قیمتیں 120روپے سے تجاوز کرگئیں۔ کراچی میں زیادہ سے زیادہ نرخ 110 روپے فی کلو ریکارڈ کیے گئے۔ ٹماٹر کے نرخ خیبرپختونخوا میں بھی 100 روپے سے زیادہ رہے، تاہم سب سے کم قیمتیں صوبہ بلوچستان کے شہروں میں ریکارڈ کی گئیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ٹماٹر کے کم سے کم نرخ 55 روپے فی کلو ریکارڈ کیے گئے۔ انڈے کے نرخ بھی اچانک بڑھ گئے، ملک میں انڈے کی اوسط قیمت 16فیصد بڑھ کر 97 روپے فی درجن ہوگئی، تاہم وفاقی دارالحکومت میں قیمت 110، پنجاب سندھ و خیبر پختونخوا میں 100روپے سے بھی زیادہ رہی۔ اسی طرح مرغی کی اوسط قیمت 8 فیصد کے اضافے سے 184.45 روپے فی کلوگرام ریکارڈ کی گئی، مگر کراچی میں زندہ مرغی کی قیمت 215 روہے، اسلام آباد، حیدرآباد میں 200 روپے، راولپنڈی 175، گوجرانوالہ 177، سیالکوٹ 183، لاہور 174، فیصل آباد 190، سرگودھا 170، ملتان 195، پشاور میں 188 روپے فی کلوگرام ریکارڈکی گئی۔ ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق 24 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران مجموعی طور پر 13 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ آلو کی قیمت ڈیڑھ فیصد کے اضافے سے 30روپے فی کلوگرام ہوگئی۔ اس کے علاوہ پیاز، بکرے کے گوشت، ٹوٹا چاول، ہوٹل کی پکا بیف پلیٹ، ایل پی جی، جلانے کی لکڑی، چینی، گھی اور کیلے کے بھاؤ میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ اس دوران 9 اشیا کی قیمتیں کم ہوئیں، مگر یہ کمی واجبی سی رہی۔ دالوں کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ اس ہفتے بھی برقرار رہا۔ دال چنا کی قیمت سب سے زیادہ 1.42 فیصد کمی سے اوسطاً 128 روپے فی کلوگرام ہوگئی۔ دال مسور 0.84 فیصد، دال ماش 0.83 فیصد اور دال مونگ 0.81 فیصد سستی ہوئی۔ لہسن، سرخ مرچ پسی ہوئی کھلی، گندم، آٹے اور گڑ کی قیمتوں میں بھی کمی آئی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں 4.82 فیصد کا اضافہ ہوا۔ وزیراعظم نوازشریف نے مختلف اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اچانک اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کو قیمتیں کم کرانے کی ہدایت جاری کی، لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اشیا مہنگے داموں کی مل رہی ہیں۔پنجاب میں بھی وزیر اعلیٰ نے مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اچانک اور مصنوعی مہنگائی کو حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کے لیے بنیادی ضرورت کی اشیاء خریدنا بھی مشکل ہوگیا۔ مرغی اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مرغی کے گوشت سمیت دیگر اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ رمضان المبارک سے پہلے مصنوعی مہنگائی کا بحران پیدا کر کے عوام پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔

ایک ہفتے کے اندر اندر اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں ہونے والا غیر معمولی اضافہ سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ایسا کیا طوفان برپا ہو گیا، نہ کوئی سیلاب آیا اور نہ عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں قابو سے باہر ہوئیں جو اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتیں۔ حالیہ دنوں میں اچانک مہنگائی کی ایک یہ وجہ بھی بیان کی جارہی ہے کہ پاک افغان سرحد کھلنے سے منافع خور تاجر سبزیاں اور پولٹری مصنوعات دھڑا دھڑ افغانستان پہنچا رہے ہیں، جہاں ان کی شدید قلت ہے۔ اس کے نتیجے میں یہاں ان کی رسد کم اور طلب زیادہ ہو گئی ہے، جس سے قیمتیں غیر متوقع طور پر بڑھ گئی ہیں، اگر یہ وجہ درست ہے تو حکومت کو قیمتوں کو اس معاملے کی جانب بھی سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔ شہری شکوہ کناں ہیں کہ حکومت نے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کوئی میکنزم نہیں بنایا، مہنگائی مافیا جب چاہتا ہے قیمتوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے باوجود ان کا معیار ناقص ہے۔ یہ امر تشویش انگیز ہے کہ متعلقہ اداروں اور حکام نے بڑھتی ہوئی گرانی کی جانب توجہ نہیں دی اور قیمتوں کو باقاعدہ بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی، حالانکہ اس کے آثار بہت پہلے سے ظاہر وہ رہے تھے۔ بعض صورتوں میں ضلعی انتظامیہ ضروری اشیا کے نرخ بھی مقرر کرتی ہے اور سرکاری ٹیمیں ان پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے چھاپے بھی مارتی ہیں، مگر مہنگائی کی موجودہ لہر کو روکنے کے لیے کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی اور سرکاری طور پر مقرر کردہ نرخوں کی کھلے عام خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ مارکیٹ میں تیزی کا رجحان گزشتہ دو ہفتوں سے دیکھنے میں آ رہا تھا، لیکن صوبائی حکومتوں نے بگڑتی ہوئی صورتحال کا نوٹس لینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم فعال ہوتا تو یہ صورت حال نہ ہوتی۔ مہنگائی مافیا کو روکنے والے انتظامی ادارے اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کر رہیں۔ مارکیٹ میکنزم پر اثر انداز ہونے والے تاجروں اور سرمایہ داروں کی گرفت کیوں نہیں کی جاتی۔کیا مہنگائی مافیا اس قدر طاقتور ہو گیا ہے کہ انتظامی ادارے اسے کنٹرول نہیں کر پا رہے۔

بعض شہری حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے اور بجا کہا جارہا ہے کہ زرخیز زرعی زمینوں کو بڑی تیزی سے رہائشی کالونیوں کے نام پر ختم کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب پانی کا بحران بھی زرعی پیداوار میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے، اس کے علاوہ زرعی مداخل مہنگی ہونے، ناقص اور غیرمعیاری بیج اور جعلی ادویات کے باعث بھی زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے، اس پریشان کن صورت حال کے تناظر میں کسان حکومتی امداد اور تعاون سے مایوس ہو کر اپنے پیشے کو خیرباد کہہ کر روز گار کے دیگر ذرایع کی جانب مائل ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر یہ صورت حال خوش آیند نہیں، اگر معاملات یونہی چلتے رہے تو خدشہ ہے کہ آیندہ چند برسوں میں غذائی بحران جنم نہ لے لے اور حکومت کو غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے مہنگے داموں درآمد کرنا پڑے، جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا اور روز مرہ کی اشیائے خورونوش عام آدمی کی رسائی سے دور ہوتی چلی جائے گی، جس سے غربت کے ساتھ ساتھ جرائم میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ ہمارے پاس دنیا کا بہترین نہری نظام ہے، دنیا کی زرخیز ترین زمین ہے، اس کے باوجود بھی زرعی اجناس مہنگی ہورہی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت زراعت کے شعبے کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے، حکومت کاشتکاروں سے تعاون نہیں کر رہی، جس کی وجہ سے وہ زراعت کے شعبے کو چھوڑتے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے نوٹس لے کر صوبائی حکومتوں کو قیمتیں کنٹرول کرنے کی ہدایت جاری تو کی ہے۔ بہرکیف اب دیکھنا ہو گا کہ صوبائی حکومتیں وزیراعظم کی ہدایت پر کس طرح عمل کرتی ہیں۔ موجودہ صورتحال اس ایکشن کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ دکاندار کو کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے، کیونکہ دکاندار کا اس میں کوئی قصور نہیں، اْسے مارکیٹ سے جس بھاؤ چیز ملے گی، وہ اْس میں معمول کا منافع شامل کر کے بیچے گا۔ اگر قیمتیں نیچے لانا ہیں تو سپلائی بہتر بنائیں اور دو تین ماہ پہلے منصوبہ بندی کریں کہ ہر سبزی مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ایک معقول مقدار میں اگائی جائے۔ فی الحال یہ ہو سکتا ہے کہ اگر منافع خوری ہو رہی ہو تو اسے زبردستی روکا جائے، یقیناگراں فروشوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کا جواز موجود ہے۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.