فارغ التحصیل ملحد ایاز نظامی۔ پکڑ میں

ایاز نظامی نامی مرتد، ملحد اور گستاخ قانون کے شکنجے میں آ چکا ہے اور مجھے یقین کامل ہے کہ یہ قانون کے شکنجے میں نہیں بلکہ اللہ کی پکڑ میں آ چکا ہے۔ اس کا انجام جلد ہی شدید ترین ہوگا۔

ایاز نظامی کا اصل نام عبدالوحید ہے لیکن اس کا سوشل میڈیا پر مشہور قلمی نام ایاز نظامی تھا یہ صرف سوشل میڈیا کا ہی بندہ تھا باقی اس کی حیثیت کچھ نہیں تھی۔ اب اس کا تذکرہ سوشل میڈیا پر ہی سب سے زیادہ کیا جارہاہے اور گذشتہ رات ٹویٹر پر اس کو لٹکانے کے لیے ایک ٹرینڈ چلایا گیا یہ آواز کروڑوں مسلمانوں نے اٹھائی اور مطالبہ کیا کہ اسے تختہ دار پر لٹکا کے ان جیسے گستاخوں کو سبق سکھایا جائے۔ اس آواز پر ایاز نظامی کے ہم خیال یا نام نہاد سیکولر اور لبرل طبقہ یہاں تک کہ گورے بھی چیخ اٹھے کہ مسلمان انتہا پسندانہ سوچ کو پروموٹ کر رہے ہیں۔

لیکن ان بے ضمیروں کی اعتدال پسند سوچ اس وقت خاموش رہتی ہے جب نظامی جیسے گستاخ مسلمانوں کے نبی کریمؑ کی کھلے عام گستاخی کی جا رہی ہوتی ہے۔

پاکستان کے لبرل طبقے اس وقت تک خاموش رہے جب تک انہیں یہ معلوم نہ ہوا کہ یہ گستاخ کیونکہ ان کے کسی قبیلے کا ہوگا جیسے پچھلے دنوں چند بلاگرز کی گمشدگی پر اپنے پیجز اور زبانیں بند کر چکے تھے لیکن ایاز نظامی کی گرفتاری پر ان کی خاموشی کا صبر اس وقت ٹوٹ گیا جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ گستاخ کسی مدرسے کا فارغ التحصیل ہے۔ پھر تو لبرل مافیا کے وارے نیارے ہو گئے اور ان کو موقع مل گیا مدارس پر اپنی آوازیں کسنے کا۔ ابھی تک وہ جاری و ساری ہیں کہ مدارس سے ہی ملحد نکلا۔

روزنامہ امت کی رپورٹ سے ہی معلوم ہوا ہے کہ ایاز نظامی جامعہ بنوریہ سے فارغ التحصیل تھا اور دس سال تک کسی مدرسے میں مدرس بھی رہا ہے لیکن اس وقت اس کا دماغ خراب ہوا جب اس کا ایک بیٹا کراچی اہل تشیع کے کسی جلوس کے ہونے والے دھماکے میں جاں بحق ہو گیا۔ اس کا ایمان اس وقت اپنے بچے کی موت پر ڈولا کہ مذہب کی مسلکی نفرت سے ہی اس کا بیٹا مرا ہے۔ یہ صدمہ اس کے لیے تو نیا تھا لیکن پاکستان کیا عالم اسلام میں ہزاروں لوگ شہید ہوتے رہے ہیں لیکن ان کا ایمان کبھی نہیں ڈولتا۔ دراصل معاملات اور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انسان بعض اوقات مذہب میں پھنس جاتا ہے اور مواقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ کوئی موقع میسر آئے اور راہ فرار اختیار کی جائے۔ عبدالوحید عرف ایاز نظامی نے مذہب سے بغاوت کے بعد 2013 تک بیرون ملک سیر کرنے کے بعد صرف ایک عام سی کار کی حیثیت ہوئی تھی کیونکہ یہ بھی کسی روایتی مولوی کے لیے بڑی شئے ہوتی ہے۔ لیکن اس کی یہ پہلی کامیابی ہی تھی جو اسے کہیں سے تحفے میں ملی تھی اس نے کام کو مزید تیز کردیا اور دجالیت کا وسیع نیٹ ورک بچھا دیا۔ یہاں تک سننے میں بھی آیا ہے راجپال گستاخ والی وہ کتاب جس کے لیے غازی علم الدین شہید نے راجپال کو مارا تھا اس کتاب کا اردو ترجمہ کروا کے پاکستان میں اس نے تقسیم کروائی۔ کافی سارے گروپوں میں یہ عبدالوحید ایاز نظامی کے نام کے ساتھ الحاد کی تبلیغ کرتا رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے شروع میں اپنے خاندان کو بھی خبر نہ دی تھی لیکن بعد میں صرف اپنی بیوی کو قائل کرنے میں کامیاب ہوا تو اسے خبر دے دی۔ اب بھی گرفتاری سے کچھ دن قبل جب یہ کراچی آیا تو ڈر خوف سے تمام نمازیں اپنے نزدیک کی مساجد میں پہلی صف میں ہی باجماعت ادا کرنے لگا۔

عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ ملحدین طبقہ یا مذہب بیزار طبقہ دنیا کا ناکام ترین طبقہ ہوتا ہے۔ جب ان سے خود سے کچھ نہیں ہو پاتا تو اس کا دوش خدا کی ذات کو ٹھہراتے ہیں پھر خدا بھی ان کو چھوڑ دیتا ہے۔ایسا حال تقریباً تمام ملحدین کا ہے یا تو وہ دنیا کے ناکام ترین انسان ہوتے ہیں یا پھر نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے انتطار مین رہتے ہیں کہ کوئی پیش کش میسر ہو تو وہ کلٹی ماریں۔

ملحدین کا باپ کارل مارکس کو کہا جاتا ہے جو بنیادی طور پر یہودی تھا پھر ناکامیوں کی بدولت عیسایت میں چلا گیا لیکن وہاں بھی کچھ نہ ملا تو اس نے مزدوروں اور غریبوں کے حقوق پر لکھنا شروع کر دیا اور مذہب کو ہی اپنی ساری ناکامیوں کی وجہ بتلایا حالانکہ وہ ایک ناکام ترین شخص رہا۔

یہ قصور مدارس کا نہیں ہے کہ وہاں سے نظامی جیسے بندے ہی ملحد کیوں ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ نفسانی خواہشات کی چکا چوند ضرورتیں ان کی ضرورت ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ مذہب میں رہتے تو ہیں لیکن مذہب کا صرف لبادہ اوڑھا ہوتا ہے اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کئی علماء اور بزرگان دین کی نسلیں اب نہ ہی عالم بن سکیں نہ ہی ولی کیونکہ انہوں نے خود کی کواہشات کی بدولت مذہب کی جانب گوارا نہ کیا۔

حجروں میں ہونے والے زیادتیوں کے واقعات کے پیچھے کسی مدرسے کا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ ان کی شیطانی خواہش کار فرما ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ حجروں میں تو رہتے ہیں لیکن وہ بھی دراصل ملحد بنے ہوتے ہیں جنہیں مساجد کے دروازے پر اپنے قرآن پڑھنے والے شاگردوں کو اپنی حوس کا نشانا بنا ڈالتے ہیں۔ ایسے واقعات کوئی آج سے نہیں ہیں بلکہ قرون اول سے ہیں حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کنعان بھی اللہ کا منکر تھا جو غرق ہوا۔

اب حکومت وقت کو چاہیئے کہ کروڑوں مسلمانوں کا یہی مطالبہ ہے کہ اسے قانونی تقاضے پورے کرنے کی بعد فوری طور پر سزائے موت دی جائے تاکہ آئیندہ کوئی گستاخی کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ اس کی پکڑ سے ملحد طبقے کو سوچنا چاہیئے کہ اللہ کی لاٹھی ایسی ہوتی ہے۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 40576 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.