نماز عصر کا ضیاع ، مال و اولاد کا ہی نہیں سارے نیک اعمال کا ضیاع ہے

ایک مسلمان کے اوپر دن ورات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں جنہیں اپنے اپنے وقتوں پر اد ا کرنا ہے ، ان کا تارک قرآن وحدیث کی روشنی میں کافر ہے ۔پنچ وقتہ نمازیں فریضہ ہونے کے ساتھ اپنے دامن میں نمازی مومنوں کے لئےہزاروں فیوض وبرکات لئے ہوئے ہیں ۔دل کا سکون ، پریشانی کا حل ، بیماری سے شفا، آنکھوں کی ٹھنڈک ، مال ،اولاداور زندگی میں برکت ، گناہوں کی مغفرت، درجات کی بلندی، خالق ومالک کی قربت اور اس کی نصرت ومہربانی، شروفساد سے پناہ ، دنیا میں عزت وراحت اور آخرت میں کامیابی وکامرابی یہ سب اور ان کے علاوہ بے شمار خوبیاں نماز میں ہیں ۔ اس کا سب سے عظیم فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہنم سے دور کردے گا اور جنت ان کا ٹھکانہ بنائے گا۔
پنچ وقتہ نمازوں میں نماز عصر کا ایک خاص مقام ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اسے صلاۃ وسطی (درمیانی نماز)سے تعبیر کی گئی ہے اور اس پہ محافظت ومداومت کا الگ سے حکم دیا گیا ہے ۔اللہ کا فرمان ہے :
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (البقرۃ:238)
ترجمہ: نمازوں کی حفاظت کرو ، بالخصوص درمیان والی نماز(عصر) کی اور اللہ تعالٰی کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو ۔
مسلمانوں کی اکثریت اس کی اہمیت وفضیلت سے غافل اور اس کے ترک کے نقصان سے بے بہرا ہے ۔ اس مضمون میں مختصرا اسی پہلو کو اجاگر کیا جائے گا تاکہ نماز عصر کے تئیں ہمارے دل میں اشتیاق پیدا ہواور ہمیشہ اس کے ترک سے خوف کھاتے رہیں ۔ اس بات کے علم کے ساتھ کہ عصر کے ماسوا چار نمازیں بھی اپنی جگہ مسلم اور فرض ہیں جنہیں ادا کئے بغیر ایک مسلم کے لئے کوئی چارہ کار نہیں ۔
پہلے یہاں نماز عصر کے چند فضائل ملاحظہ فرمائیں تاکہ اس کی ادائیگی کی فضیلت اور اسکے ترک سے نقصان کا بخوبی اندازہ ہوسکے ۔
(1)حضرت فضالہ لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
علَّمَني رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فكان فيما عَلَّمَني: وحافِظْ على الصلواتِ الخمسِ. قال: قلتُ: إن هذه ساعاتٌ لي فيها أشغالٌ، فمُرْنِي بأمرٍ جامعٍ إذا أنا فعَلْتُه أجزَأَ عنِّي. فقال: حافِظْ على العَصْرَيْنِ، وما كانت مِن لُغَتِنا. فقلتُ وما العَصْرانِ؟ فقال: صلاةٌ قبلَ طلوع ِالشمسِ، وصلاةٌ قبلَ غروبِها.(صحيح أبي داود:428)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نماز پر محافظت کرو، میں نے کہا: یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں، آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم دیجئیے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے کافی ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عصرین پر محافظت کرو ، عصرین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا، اس لیے میں نے پوچھا: عصرین کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو نماز: ایک سورج نکلنے سے پہلے، اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے ( فجر اور عصر ) ۔
فائدہ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی نماز اور عصر کی نماز بہت ساری چیزوں سے کافی ہوجائے گی (اس کا یہ مطلب نہیں کہ بقیہ تین نمازیں ظہر،مغرب وعشاء نہیں پڑھنی ہے )۔
(2)جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إنَّكم ستُعرَضونَ على ربِّكم فترَونَه كما ترونَ هذا القمرَ لا تُضامونَ في رؤيتِه ، فإن استطعتُم أن لا تُغلَبوا على صلاةٍ قبلَ طُلوعِ الشَّمسِ وصلاةٍ قبل غروبِها فافعَلوا . ثمَّ قرأ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ(صحيح الترمذي:2551)
ترجمہ:تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ترجمہ: پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔
فائدہ : اس حدیث سے نماز فجر اور نمازعصر کے لئے شدت اہتمام کا پتہ چلتا ہے کہ کسی صورت یہ دونوں نمازیں چھوٹنے نہیں پائے ،نیز اسی طرح بقیہ تین نمازیں بھی ادا کرنی ہیں ۔
(3)ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَتَعاقَبونَ فيكُم: ملائِكَةٌ بالليلِ وملائِكةٌ بالنهارِ، ويجتمعونَ في صلاةِ الفجرِ وصلاةِ العصرِ، ثم يَعْرُجُ الذينَ باتوا فيكُم، فيَسألُهُم وهو أعلَمُ بِهِم: كيفَ تَرَكتُم عِبادي ؟ فيقولون : تَرَكْناهُم وهُم يُصلونَ، وأتَيناهُم وهُم يُصلونَ .(صحيح البخاري:555)
ترجمہ:رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ فجر اور عصر کی نمازوں میں (دونوں قسم کے فرشتوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔
فائدہ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح فرشتہ اللہ کو نمازفجر پڑھنے والوں کی خبر دیتا ہے ویسے نماز عصر پڑھنے والوں کی بھی خبر دیتا ہے ،اس لئے فجروعصر کا اہتمام کریں تاکہ اللہ کے یہاں ہمارا ذکر جمیل ہو۔
(4)حضرت عمارہ بن رویبہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےانھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا :
لن يلجَ النارَ أحدٌ صلى قبل طلوعِ الشمسِ وقبل غروبها يعني الفجرَ والعصرَ(صحيح مسلم:634)
ترجمہ: وہ شخص ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا جو سورج نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے یعنی فجر اور عصر کی نمازیں ۔
فائدہ : ویسے نماز جہنم سے نجات دلانے والی ہے مگر یہاں فجر وعصر کا ذکرخاص اس نماز کی خاص فضیلت پر دال ہے ۔
(5)ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
من صلى البرديْنِ دخل الجنةَ( صحيح مسلم:635)
ترجمہ: جوشخص دو ٹھنڈی نمازیں (فجروعصر) پڑھتا رہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
فائدہ : یہاں بھی بطور خاص دو نمازوں کی اہمیت کا ذکر ہے جو جنت میں لے جانے کا سبب ہے وہ ہے نماز فجروعصر۔
(6) حضرت جا بررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
إذا دخلَ الميِّتُ القبرَ ، مُثِّلَتِ الشَّمسُ عندَ غُروبِها ، فيجلسُ يمسحُ عَينَيهِ ، ويقولُ : دَعوني أصلِّي(صحيح ابن ماجه:4272)
ترجمہ: جب میت قبر میں پہنچتی ہے تو اسے سورج ڈوبتا نظر آ تا ہے ۔وہ آ نکھیں ملتا ہو ا اٹھا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے مجھے چھوڑو نماز پڑ ھ لینے دو ۔
فائد ہ : اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب میت کو قبر میں دفن کردیا جاتا ہے اور فرشتے سوال کے لئےاسے اٹھاتے ہیں تو مومن میت كو محسوس ہوگا کہ سورج ڈوب رہا ہے اور وہ نمازعصر سے سویا رہ گیا اس لئے فرشتے سے کہے گا ہٹوپہلے مجھے نماز عصرپڑھنے دو۔جو لوگ دنیا میں نماز عصر کا اہتمام کرتے رہے ان شاء اللہ انہیں قبر میں بھی نماز کی فکر ہوگی گوکہ وہاں نماز نہیں پڑھنی ہے ۔
ان ساری احادیث سے عصر کی نماز کی بڑی تاکید اور بیحد اہمیت وفضیلت کا علم ہوتا ہے اس لئے مومن بندہ جہاں پانچوں نمازوں کا اہتمام کرے وہیں بطور خاص فجر کی نماز اور عصر کی نماز کاشدت اہتمام کرے ۔فجر بندوں پر نیند کی وجہ سے بھاری ہے تو عصر کام کاج میں مشغولیت کی وجہ سے ۔ اللہ کے نیک بندے اپنے خالق کی عبادت کے لئے نیند سے بھی بیدار ہوتے ہیں اور کام کاج بھی روک دیتے ہیں ۔
نماز عصر کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس کے ترک کرنے کی وجہ سے اسی قدر سخت ترین وعید ہے ۔ ایک مرتبہ نبی ﷺ نماز عصر سے روک دئے گئے (آپ نے چھوڑا نہیں تھا ) تو جن کی طرف سے نماز عصر سے روک دئےگئے آپ نے انہیں بددعا دیدی ۔
عن عبدِاللهِ ؛ قال : حَبسَ المشركونَ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ عن صلاةِ العصرِ . حتى احمرَّتِ الشمسُ أوِ اصفرَّتْ . فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ شغلونا عن الصلاةِ الوُسطى صلاةِ العصرِ . ملأ اللهُ أجوافَهم وقبورَهم نارًا أو قال حشا اللهُ أجوافَهم وقبورَهم نارًا(صحيح مسلم:628)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مشرکوں نے (جنگ میں مشغول رکھ کر) رسو ل اللہ ﷺ کو عصر کی نمازسے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج سرخ یا زرد ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :انھوں نےہمیں درمیانی نماز، عصرکی نماز سے مشغول رکھا ، اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں میں آگ بھر دے ۔ یا فرمایا : اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے ۔
اس حدیث کی روشنی میں ذرا اندازہ لگائیں کہ طائف میں آپ ﷺ پر بے پناہ ظلم ہوا، احد میں آپ کا دندان مبارک شہید کیا گیا ، آپ کو اور آپ کے اصحاب کو مکہ سے نکال دیا گیا مگر آپ نے بددعا نہیں مگر نماز عصر سے مشغول کردینے والوں کے حق میں بددعا دی ،اس لئے ہم نبی ﷺ کی محبت میں اس نماز سے ہم بھی اسی طرح محبت کریں اور کبھی کسی عذر کی بناپر چھوٹ جائے تو اسی طرح افسوس کا ظہار کریں ۔
جب نماز سے مشغول کردینے والوں کے حق میں رسالت مآب کی بددعا ہے تو جو مسلمان ہوکر اس نماز کو پڑھتے ہی نہیں اس کے حق میں کیا ہوگا؟ آئیے حدیث ملاحظہ کریں ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
من فاتَتْه العصرُ فكأنما وَتِرَ أهلَه ومالَه(صحيح مسلم:626)
ترجمہ: جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا اس کے اہل و عیال اور مال و دولت( سب کچھ) تباہ و برباد ہوگئے۔
اس حدیث کو پڑھیں اور اپنا محاسبہ کریں ، کیا ہماری غربت، بے چینی، بے برکتی، نافرمان اولاد یا مال واولاد کی تباہی وبربادی کہیں نماز عصر چھوڑنے کے سبب تو نہیں ؟ اگر نمازوں سے غافل ہیں تو اللہ کی طرف رجوع کریں اور پنچ وقتہ نمازوں پہ محافظت کریں بطور خاص نماز عصر کا اہتمام کریں ۔
اس سے بھی زیادہ سخت وعیدنمازعصر چھوڑنے والوں کے لئے ایک دوسری حدیث میں ہے جس میں سارے اعمال ہی ضائع ہوجانے کی خبر دی گئی ہے ۔
ابوالملیح سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كنا مع بُرَيْدَةَ في غَزوَةٍ، في يومٍ ذي غَيمٍ، فقال : بَكِّرُوا بصلاةِ العصرِ فإن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال : من ترك صلاةَ العصرِ فقد حَبِطَ عملُه(صحيح البخاري:553)
ترجمہ: ہم بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر جنگ میں تھے۔ ابر و بارش کا دن تھا۔ آپ نے فرمایا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا نیک عمل ضائع ہو گیا۔
یہاں نماز چھوڑنے سے مراد جان بوجھ کر نماز چھوڑنا ہے جیساکہ ایک دوسری روایت سے پتہ چلتا ہے ۔
ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَن تَركَ صلاةَ العَصرِ مُتعمِّدًا فقد حَبِطَ عَمَلُهُ(صحيح الترغيب:479)
ترجمہ: جس نے جا ن بوجھ کرعصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا عمل ضائع ہو گیا۔
متعدد احادیث ایسی ملتی ہیں جن میں بہت سارے کام پر سارے اعمال ضائع ہونے کا ذکر ملتا ہے،یہاں میں صرف قرآن کی روشنی میں بتلانا چاہتا ہوں کہ اسےکفر اور شرک کے مقابل میں گردانا گیا ہے یعنی نماز عصر کا ترک کرنا صریح کفر ہے اس سے سارا عمل ضائع ہوجاتا ہے جس طرح ایمان کے انکار (کفر) سے سارا عمل ضائع ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَمَنْ يَكْفُرْ بِالإيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ في الآخِرَةِ مِنَ الخَاسِرينَ (المائدة:5)
ترجمہ: منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں ۔
اسی طرح تارک صلاۃ عصر کی سزا مشرکین کے برابر ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ أُوحي إِلَيْكَ وَإِلَى الذينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الخَاسِرينَ(الزُّمَر:65)
ترجمہ: یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے ( کے تمام نبیوں ) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا ۔
ان کے علاوہ قرآن میں نبی ﷺ کی آواز سے اونچی بولنے، کفر کرنے کے ساتھ مومنوں کو اللہ کی راہ سے روکنے اور رسول کی مخالفت کرنے، اللہ کی رضا کی راہ چھوڑکراس کی ناراضگی کی راہ چلنے ، اللہ کی نازل کردہ شریعت سے کراہت محسوس کرنے، رب کی آیات اور اس سے ملاقات کا انکار کرنے ، مومنوں کے ساتھ نہ رہنےاور دین سے پھرجانے پر سارے اعمال ضائع ہونے کی اللہ تعالی نے خبر دی ہے ۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بقیہ نمازیں بھی جان بوجھ کر چھوڑنے سے نیکیاں رائیگاں ہوجاتی ہیں کیونکہ یہ بھی کفر ہے لیکن بطور خاص عصر کی نما ز کا ذکر اس کے تارک کے لئے شدید قسم کا گناہ اور بدترین قسم کی سزا کا ضامن ہے جبکہ دوسری طرف اس نمازکی محافظت کرنے والوں کے لئے عظیم اجروثواب ہے ۔
اے اللہ ! تو ہمیں پنچ وقتہ نمازی بنا اور اپنی توفیق سے نمازعصر ترک کرنے سے بچا۔ آمین
 
Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 315 Articles with 311534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.