عمل کی ضرورت ہے

انسانی معاشروں کی تاریخ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے اور مسلسل جدو جہد کرنے ہی سے اقوام کو عروج حاصل ہوا ہے،

یہ جدو جہد اس وقت زیادہ ضروری اور اہم ہو جاتی ہے جب قوم بحثیت مجموعی زوال کا شکار ہو جائے،اس وقت ہر فرد پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس زوال سے نکلنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پہ جدو جہد کرے۔لیکن جب قومیں مجموعی طور پہ زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی ہیں تو پھر وہاں ہر طرف جہالت،رجعت پسندی ،بے عملی کا دور دورا ہوتا ہے۔جھوٹ اور سچ میں تمیز ختم ہو جاتی ہے،قومی سطح سے لے کر نچلی سطح تک ہر فرد اور ادارہ ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کے درپے ہو جاتا ہے،ایک فٹ پاتھ پہ بیٹھا ہوا سبزی بیچنے والا اور ایوان اقتدار میں بیٹھا ہوا ایک حکمران دونوں کی سرشت ایک ہو جاتی ہے دونوں اپنے مفادات کی تکمیل میں ہر حد سے گذر جانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔گلی محلہ،سڑک،ادارہ، مارکیٹ، سب افراتفری، کرپشن، ناہلی اور بد انتظامی کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔افراد معاشرہ کی اکثریت قانون شکنی،بد عملی، کام چوری اور عدم برداشت کا شکار ہو جاتی ہے،ایسی صورتحال میں وہ چند افراد جو کسی سطح پہ اس قانون شکنیوں، بد تہذیبیوں اور کرپشن کے خلاف دعوت و اصلاح کے لئے کوشش کرتے ہیں انہیں دھتکار دیا جاتا ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسی قومیں یا تو خود مٹ جاتی ہیں یا کوئی دوسری قوم جو تہذیب و تمدن، اخلاقیات میں اعلیٰ ہوتی ہے ان پہ اپنا غلبہ قائم کر لیتی ہے۔تاریخ میں یہ عمل بارہا دہرایا گیا ہے اور آئندہ بھی دہرایا جاتا رہے گا۔

اس تناظر میں آج ہم اپنے معاشرے کا تجزیہ کر سکتے ہیں کہ ہم اس وقت زوال کی کس سطح پہ کھڑے ہیں،اور ہمیں کس سطح کی جدو جہد کی ضرورت ہے؟خاص طور پہ پڑھے لکھے باشعور طبقے پہ اس وقت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اجتماعی تبدیلی کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔

معاشرے کو کرپٹ مافیا کے حوالے کر کے چین کی بنسری بجانے سے کبھی تبدیلی نہیں آسکتی،معاشرے کبھی نظام کے بنیادی اداروں کی فعالیت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے،اگر تمام قومی اداروں کے انتظامی امور نااہلوں اور کرپٹ افراد کے سپرد ہو جائیں گے تو سوائے تباہی کے کچھ نتیجہ بر آمد نہین ہوتا۔

لہذا اس شعور کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ ریاستی نظام کا کنٹرول ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے جو ان کو عادلانہ اصولوں اور عصری تقاضوں کے مطابق چلانے کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہوں۔قومی حب الوطنی اور دیانتداری جیسے خصائل ہوں،اور اس کے علاوہ انصاف کا ایسا مضبوط نظام قائم ہو کہ کسی کو جرات ہی نہ ہوسکے کہ وہ قانون یا آئین سے رو گردانی کرے۔لیکن یہ سب کچھ کیوں کہ ممکن ہو سکتا ہے،کیا کوئی غیب سے آ کر سب کچھ تبدیل کر کے ہمیں دے گا یا خود ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انفرادی سطح پہ اور اجتماعی سطح پہ انقلابی جذبے سے کام کریں۔

اپنے ارد گرد پھیلے اضطراب سے غفلت نہ برتیں اپنے حصے کا چراغ جلائیں، اپنی اپنی بساط اور صلاحیتوں کے مطابق کسی بھی شعبے میں چاہے انفرادی سطح پہ ہو یا اجتماعی سطح پہ معاشرتی فلاح و بہبود کے لئے کام کریں،جس شعبے میں ملازمت کر رہے ہیں اس میں ایمانداری اور دیانتداری سے کام کریں۔محنت کو عار مت جانیں، انسانوں سے محبت کریں، خدمت کے جذبے سے کام کریں۔ایسے تمام افعال و نظریات سے اپنے آپ کو دور رکھیں جن سے معاشرے میں فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو، ایسے کسی نظریئے کو مت اپنائیں جس سے معاشرے کے اندر کسی بھی سطح پہ تفرقہ یا تقسیم پیدا ہوتی ہو،زبانی جمع خرچ کی بجائے عمل کو شعار بنائیں، آج کل یہ روش عام کر دی گئی ہے کہ طرح طرح کے نظریات کی بھرمار ہے،ذہنی مشقیں تو ضرور ہو رہی ہیں لیکن عملی طور پہ کسی کام کی تحریک نہیں ہے،سوشل میڈیا ہو یا، آن لائن بلاگز اور اخبارات، الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا سب اپنے اپنے وقتی،عارضی مفادات کے لئے مصروف عمل ہیں،اجتماعی تبدیلی کی تحریکوں کے لئے جن جاندار نظریات اور قوت محرکہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ ناپید نظر آتے ہیں۔ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں،تقریریں ،لیکچر،تحریریں، عمل سے فارغ شب وروز،اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ گلیاں،محلے،شہر اور قصبے، اضطراب میں ڈوبے ہیں، بھوک و افلاس،گندگی زدہ ماحول،ہسپتال مریضوں سے اٹے پڑے ہیں،بے انصافی کا غلبہ ہے،عدم تحفظ کے احساس نے زوال کو مزید گہرا کر دیا ہے۔لیکن زبانی جمع خرچ کے خزانے ہمارے موجود ہیں،کوئی لبرل ازم کا پرچار کرتے نہیں تھکتا تو کوئی مذہب کے قصیدے سناتا ہے،کوئی نظام کو برا بھلا کہتا ہے، اور کوئی اپنے ذاتی مفادات کے خول میں بند اس معاشرے کے خون کو چوسنے میں مصروف ہے۔ واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو بولیں کم اور کریں زیادہ،عمل شروع کریں چاہے وہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو،ایک ادنیٰ سے بہترین عمل کئی دنوں کی فلسفیانہ موشگافیوں سے کہیں بہتر ہے۔

سیاسی نظام کو فقط گالیاں دینے کی بجائے سیاسی عمل میں شریک ہوں کیونکہ سیاست کو پیشہ ور اور مفاد پرست عناصر کے حوالے کرنے سے ملکی ادارے تباہ و برباد ہو رہے ہیں،ملکی معیشت لوٹ کھسوٹ کا شکار ہے، عصر حاضر اور ملکی و قومی حالات اور تقاضوں کے مطابق قانون سازی کا فقدان ہے، جاہل اور مفاد پرست عناصر کا قانون ساز اداروں میں غلبہ ہے،جو عام طور پہ اسمبلیوں میں جانا گوارہ نہیں ،اگر حاضر بھی ہوں تو ان کی دلچسپی صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مصروف رہتے ہیں۔ضروری ہے کہ پڑھے لکھے باشعور افراد ان کی جگہ لیں،بلکہ اس کر پٹ مافیا سے قوم کو نجات دلائے،سیاسی اداروں کو کرپٹ سیاسی مافیا سے پاک کرنے کے لئے ایک منظم سیاسی جدو جہد کی ضرورت ہے،نوجوانوں کو اب سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ان مافیا گروپوں سے اسے نجات دلانا پڑے گی۔اس کے لئے نوجوانوں کو قومی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔

اگر سیاسی نظام میں جوہری تبدیلی لائی جائے تو کوئی شک نہیں کہ ریاست کے دیگر شعبے بھی درست کئے جا سکتے ہیں،لیکن کرپٹ سیاسی نظام کے ہوتے ہوئے کسی بھی ادارے کی سمت درست نہیں کی جا سکتی۔

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 135532 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More