پاکپتن کے بازار

پاکپتن تاریخ میں دھارا نگری، انہل، واڑا ، انہل پتن، گڑوہ، اجودھن کے ناموں سے مشہورتھا ،پاکپتن بھول بھلیوں کی طرح ہے جہاں ہر موڑ پر ایک حیرت کھڑی ہے ۔پاکپتن ہندکے انسان کے تہذیبی ارتقاء کی دلچسپ کہانی ہے، کئی بار اسکی بساط کو الٹی، طوفان ہائے بادو باراں ، حملہ آوروں کی خون آشام سفاکیوں نے اس کو بلند ٹیلے میں تبدیل کردیا ، اس ٹیلے (ڈھکی)کی بلندی اسی فٹ ہے اور یہ شہر تقریبا ستر مرتبہ زمیں بوس ہو کر خاک بنا۔تاریخ پاکپتن میں درج ہے کہ یہ شہر5000 سال پرانا ہے، حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے تین سو پچیس سا پہلے یہ قصبہ موجود تھا۔ رگ وید آف انڈیا کے مطابق اجودھن کی تہذیب 25ہزار سال پرانی ہے، شمالی ہندوستان میں اجودھن ہندووں کا بہت بڑا مذہبی مرکز تھا ، یہ شہر ایک مضبوط قلع کی مانند تھا،اسکے گرد چار دیواری تعمیرکی گئی تھی اور چھ مشہور دروازے بناے گئے تھے جن کے نام لال دروازہ، سرکی دروازہ، ابودروازہ، موری دروازہ، رحموں دروازہ ، اور شہیدی دروازہ قابل ذکر ہیں۔

ُُؒٓلال دروازہ!۔
یہ دروازہ جنوب کی طرف فورہ چوک کے مشرق اور ایم سی ہائی سکول اور پولیس چوکی کے سامنے واقع ہے یہ دروازہ قدیم عہد کی زندہ تصویر ہے، محقیقین کی قلم اس دروازے پر ابھی تک خاموش ہے۔

سرکی دروازہ!۔
یہ دروازہ بابا فرید کے مزار کے مشرق جانب ہے یہ درگاہ بازار کے نام سے مشہور ہے ، زائرین پہلے دروازے سے آیا کرتے تھے اب بھی بہشتی کے دوران زائرین کا اخراج اسی بازار سے کیا جاتا ہے ایک بم دھماکے کے بعد یہ دروازہ مکمل پرانی طرز پر نیا بنا ہے ۔

ابو دروازہ!۔
یہ شہر کے مشرق کی طرف پرانی سبزی منڈی کے قریب ڈھکی پر ہے۔ اسکا اسم دیوان عبدالرحمن کے نام پر رکھا گیا تھا، محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت اور باسیو ں کی بے اعتنائی کی بدولت یہ دروازہ اپنا وجود کھو بیٹھا اب اس دروازے کے ایک حصے کا فقط کچھ حصہ باقی ہے محکمہ آثار قدیمہ سے اس کی فور ی مرمت نا کر کے مجرمانہ غفلت سر زد ہوئی جو آنے والی نسلیں اسکو نا دیکھ سکیں گی ۔

شہیدی دروازہ!۔
جنوب کی طرف صرافہ بازار میں ہے یہ بازار قدیم زمانوں میں بھی گولڈ کی مارکیٹ تھا لوگ دور دراز سے سونے کی خرید و فروخت کے لیے آتے،اس دروازے کے بارے میں عام روایت یہی ہے کہ دیوان عبدالسبحان کے عہد میں حجرہ شیر گڑھ کے سادات اور قصور کے پٹھانوں کے درمیان لڑائی ہوئی سادات حجرہ یہاں آکر پنا ہ گزیں ہوے اور انکی حفاظت کرتے ہوے دیوان عبدالسبحان اسی دروازے کے قریب شہید ہو ے انکی شہادت کی بنا پر اس کا نام شہیدی دروازہ رکھا گیا۔ا س دروازے کی جبیں پر ایک چوبی کنندہ تختی نصب ہے جس پر تسمیہ کے ساتھ دروازے کی تاریخ اور افتتاحی کلمات درج ہیں ، دیمک خوردنی کی بنا پر تختی پر کندہ تمام عبارت مٹ چکی ہے۔

موری دروازہ!۔
یہ دروازہ شمال کی طرف گلی حضرت میاں علی محمد بسی شریف کے بلمقابل ڈھکی پر واقع ہے ،اس دروازے سے گزرنے کے لیے ایک چھوٹی کھڑکی ہے اس کی مناسبت سے اس کا نام موری دروازہ ہے اس کے پہلو میں عہد قدیم کی شاہکار ایک مسجد بھی ہے جس میں پیر حضرت میاں علی محمد آف بسی شریف اپنی حیات میں ہر ماہ رمضان میں مع مریدین نماز تراویح ادا کیا کرتے تھے، پاکستان سے قبل موری دروازہ کو ہانڈیاں والا دروازہ بھی کہتے تھے یہ دروازہ اب باسیوں کی بے مروتی کا رونا رو رہا ہے اس دروازہ کا ایک پاٹ آج بھی پوری طرح موجود ہے اور دوسرے کا وجود بھی نہیں۔

رحموں دروازہ!۔
مغرب کی جانب ٹاون ھال کے بالمقابل واقع ہے، اس کی وجہ شہرت کے بارے میں کوئی مستند معلومات میسر نہیں تاہم بابا فرید گنج شکر ؒکے مزار کی قربت کی بنا پر پہلے یہ رحمت دروازہ سے مشہور تھا بعد ازاں رحموں سے مشہور ہو تا گیا اور آج یہ دروازہ مزار کی طرف بند ہو گیا اس کی ایک دیوار بلکل ختم ہو گئی ہے دوسری سائیڈ محکمہ آثار قدیمہ کے بے حسی کا رونا رو رہی ہے۔
 

Bakht Yar Ahmad Zafar
About the Author: Bakht Yar Ahmad Zafar Read More Articles by Bakht Yar Ahmad Zafar: 2 Articles with 3668 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.