ہمارے معاشرے میں عورت کا مقام

عورت ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے روپ میں ہمارے معاشرے کی پیشانی کا وہ جھومر ہے جسے ہم صرف دکھاوے کیلئے یا پھر اپنی ظاہری نمائش کیلئے سجاتے ہیں اور اگر ہم اسے ماں کے روپ میں دیکھیں تو دنیا کی پوری آبادی اس بات پر متفق ہے کہ اگر کسی جنت کا تصور ہے تو یہ ماں کے قدموں تلے ہے۔ مگر انتہائی افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہمار ے معاشرے میں عورت خواہ ماں کے روپ میں ہو خواہ وہ بہن، بیوی یا پھر بیٹی کے روپ میں ہو ہم اسے وہ مقام نہیں دیتے اور نہ ہی ہم اسے پیدائش کے وقت قبول کرتے ہیں ہیں کیونکہ ہمارے زہن میں یہ بات صدیوں سے چپکی ہوئی ہے کہ وہ عورت جو بیٹی پیدا کرتی ہے وہ بد نصیب ہوتی ہے اور ہم اس ماں کو جو اس بیٹی کو جنم دیتی ہے وہ مقام نہیں دیتے اور اسے طعنہ زنی کرنا ایک عام سا رواج پایا جاتا ہے۔ ایسے ایسے خاندان بھی ہیں کہ اگر انکے یہاں بیٹیاں پیدا ہو ں تو وہ ایسی عورتوں کو نہ ہی وہ مقام دیتے ہیں اور نہ ہی انکی وہ عزت ہوتی ہے جسکی وہ متقاضی ہوتی ہیں اور ایسی عورتوں کو عموماً ہمارے معاشرے میں طلاق تک ہو جاتی ہے اور اسے منحوس قرار دیکر گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک ایسی عورت جو بیٹوں کو جنم دیتی ہواسکی عزت اور مقام ایسی عورتوں کے مقابلے میں ذیادہ ہوتا ہے اور ایسی عورتوں کو ہمارے معاشرے میں خوش قسمتی کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ اور ایسی عورتوں کو اعلیٰ مقام اور عزت دی جاتی ہے ۔ اسکی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں اور اسکے بیٹا جننے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں اسے زیور ، مٹھائی اور میوں سے لادا جاتا ہے اور خوشی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بیٹے کی پیدائش پر کئی کئی دنوں تک پورے محلے یا پھر گاؤں میں لوگوں کی کھانوں سے تواضع کی جاتی ہے اور شادیانے بجائے جاتے ہیں اور اسکا اعلان فائرنگ کرکے کیا جاتا ہے اور پورے محلے اور گاؤں والوں کو اس بات کی نوید دی جاتی ہے کہ انکے یہاں لڑکے نے جنم لیا ہے۔ اور بیٹی کی پیدائش پر سانپ سونگھ جاتا ہے کئی معاشروں میں تو ایسی لڑکیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی لڑکی کی پیدائش پر گھر ماتم کناں ہوتا ہے جیسے کوئی بہت بڑی مصیبت آ گئی ہو۔ ہمارے معاشرے میں عورت کے حقوق کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اسے مذہبی طور پر ہی مرد کا مرہون منت کر دیا گیا ہے اور اسے مرد کی نسبت فیصلے کرنے کی قوت اور جسمانی طور پر انتہائی کمزور اور ناتواں اور مرد سے کم تر سمجھا جاتا ہے اور رہی بات اسکے حقوق کی تو ہم نے نہ ہی معاشرتی طور پر اور نہ ہی مذہبی طور پر آج تک اسکے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ عورت کے حقوق کے حوالے سے اگر کہا جائے کہ تعلیم حاصل کرنا اسکا بنیادی اور معاشرتی حق ہے تو یہ بات ہمارے معاشرے میں رہنے والے خاص طور پر مذہبی سخت گیر اور عمومی طور پر قبائلی علاقوں میں رہنے والے پٹھان اور بلوچی یا پھر دوسرے ثقافتی نظریات سے وابسطہ پرانے طرز کے لوگ آج بھی عورت کی تعلیم کے خلاف ہیں اور یہ عورت کی ذ ہنی پسماندگی اور جہالت کے وہ مجرم ہیں جنہوں نے معاشرے میں تعلیم کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور تعلیم کو عورت اور خاندان کی غیرت و حمیت سے جوڑ کر پورے معاشرے کو جاہل اور ان پڑھ رہنے میں گھناونا کردا ادا کیا جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ پاک و ہند، افغانستان ، ایران اور عرب معاشرے میں مذہبی ملاؤں نے ہمیشہ عورت کی تعلیم کے حوالے سے ان پر قد غن لگائی اور مختلف تاویلیں پیش کر کے اسے مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی یہاں تک کہ ہمارے یہاں کے مذہبی ٹھیکیداروں نے عورت کے اخبار اور کتاب پڑھنے پر بھی پابندی لگائی ۔ عورت کو معاشرے میں ہمیشہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور اسے گھر کی چار دیواری میں پابند کرکے اسکی زہنی نشو نما کو روکنے اور اسکی قابلیت اور صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے میں انتہائی جابرانہ کردار ادا کیا ا جو پورے معاشرے کی درسگاہ کا کام سر انجام دیتی ہے۔ عورت کو ہمیشہ مرد کے مرہون منت سمجھا گیا اور اسکی شخصیت اور اسکی ذاتی پہچان کو ہمیشہ مرد کے ساتھ جوڑ کر اسکا استحصال کیا گیا ۔ اسے ہمیشہ مرد کی ملکیت قرار یکر مرد کے حکم کی تعیل کا پابند بنا دیا گیا خواہ یہ حکم منفی ہو یا پھر مثبت وہ مرد کی اجازت کے بغیر نہ تو اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے اور نہ ہی وہ اپنی مرضی سے اپنے ارمان نکال سکتی ہے۔ اسطرح اسکے ارمانوں کاجنازہ نکال کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسکے وجود کی شناخت کو ختم کر دیا گیا جو آج بھی جاری ہے ۔ ہمارے قبائلی رسم و رواج، ہمارے مذہبی ملاؤں کے ان پڑھ رویے نے عورت کو گھر کی چار دیواری میں محصور کرکے اسکے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس سے تعلیم کا حق چھین لیا گیا اور اسکی تعلیم کے حوالے سے ہمیشہ یہ کہا گیا کہ لڑکی کو تعلیم حاصل کرکے کیا کرنا ہے اسنے شادی کے بعد چولھا اور ہانڈی ہی جھونکنا ہے جو ہمارے لئے باعث شرم ہے۔ہمارے معاشرے میں آج بھی ملا کلچر میں رہنے والے مولویوں نے عورت کے تعلیم کے بارے میں فتوے جاری کئے اور مذہب کو بنیاد بنا کر کہا گیا کہ عورت کو پردے میں رہنے کا حکم ہے ۔ ہم ماں کے سامنے سر جھکانے کو بھی شرک سے تعبیر دیتے ہیں حالانکہ ہم اپنے مطلب کیلئے جنت کو اسکے پاؤں کے نیچے قرار دیتے ہیں جو ہماری منافقت کی حد ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایک عورت کو اسکے وراثتی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض گھرانے آج بھی ایسے ہیں جو عورت کے حقوق کی ادائیگی سے خوف کھاتے ہوئے انکی شادیاں نہیں کرتے اور ان گھرانوں نے اپنی زمین اور جائیداد میں سے حصہ دینے کے خوف سے انکی شادیاں قران پاک سے کر رکھی ہیں جو ہماری خاندانی روایات کا حصہ بن چکی ہیں اور یہ ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔ ہم نے عورت کو ہر روپ میں خواہ یہ روپ ماں کا ہو ،بیٹی کا ہوبہن کا ہو یا پھر بیوی کا ہو اسے محکوم بنا کر رکھنا اسکی مار پیٹ، اس پر تشدد کرنا، اسے آگ لگا کر جلادینا اسے گھر میں مقید کرکے رکھنا ایک مرد کا حق سمجھتا جاتاہے ۔ غیرت کے نام پر عورتوں کا ہر روز قتل عام ہمارے معاشرے میں معمول ہے جبکہ غیرت کے نام پر مرد کو قتل کرنے کا رواج ہمارے معاشرے میں نہیں پایا جاتا ۔ حالانکہ یہ مرد ہی ہے جو عورت کے اختلاطی جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ عورت کی سیاہ کاری یا پھر غیرت کے نا م پر قتل ، اسکے بال کاٹ کر اسے گنجا کرکے اسکی بے عزتی کرنا ایسی فرسودہ اور قابل شرم رسوم ہیں جن سے تا حال ہم جان نہیں چھڑوا سکے۔ جو انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ اگر عورت کو کاری قرار دیکر مرد کو سزا دی جائے تو اسکی بھینٹ بھی عورت ہی چڑھتی ہے اور مرد کا گناہ اسکی بیٹی یا پھر بہن کو عورت کے بھائی یا پھر بیٹے سے شادی کی شکل میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں عورت ہی سزا وار ٹھہرتی ہے۔
 
اگر ہم واقعی میں زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان فرسودہ رسوم کو دفن کرنا ہوگا اور عورت کے مقام کو پہنچاننا ہوگا۔ ہمیں عورت کو اسکے حقوق ادا کرکے اسے جائز مقام دینا ہوگا۔ عورت کو برابری کے بنیاد پر قبول کرنا ہوگا اور اسپر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کو قبول کرکے یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ عورت کابھی مرد کے مقابلے میں وہی مقام ہے جو ایک مرد کو حاصل ہے۔ قانونی طور پر عورتوں کو برابر کے حقوق دینا ہونگے تاکہ وہ ایک با عزت مقام حاصل کرکے اپنی زندگی عزت و احترام سے گزار سکے اور تعلیم کے میدان میں مردوں کے مقابلے میں مساویانہ حقوق حاصل کرکے وہ مرتبہ حاصل کرسکے جس سے وہ تا حال محروم ہے۔ ہمارے یہاں عورتوں کے جو قوانین بنائے گئے ہیں انمیں بہت سے سقم اب بھی موجود ہیں مگر یہ سقم ہمارے مذہبی ٹھیکیدار دور کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جنکے لئے عورتوں کو اپنے گھروں سے باہر نکل کر آنا ہوگا اور وہ مرد حضرات جو عورتوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے ہیں اور وہ تنظیمیں جو عورتوں کی فلاح و بہبو د کیلئے متحرک ہیں انکے ساتھ مل کر اپنے حقوق کو چھیننا ہوگا۔ عورت کو اپنے حقوق منوانے کیلیئے جدو جہد کرنا ہوگی۔ اور معاشرے میں ان بے حس لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ عورت کو مرد کی جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ نہ سمجھا جائے عورت کو اس معاشرے میں یقینی طور پر ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کا مقدس مقام دینا ہوگا جو اسکا پیدائشی حق ہے۔

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 138561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.