فیس بک اور وہاٹس ایپ کا استعمال کتنا مفید، کتنا مضر؟

فیس بک اور وہاٹس ایپ کا استعمال کس طرح کرنا چاہیے اور کن پہلووں سے گریز کرنا چاہیے، ان جدید ٹکنالوجی کے تعلق سے ایک اہم تحریر جو ایک طرف جہاں ان کے منفی پہلووں کو اجاگر کر رہی ہے، وہیں دوسری طرف ان کے صحیح اور مثبت پہلووں کی طرف بھی کافی رہ نمائی کر رہی ہے، امید ہے قارئین اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھیں گے۔

عام طور پر کوئی بھی چیز فی نفسہ اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کی اچھائی یا برائی اس کے اچھے یا برے استعمال پر موقوف ہوا کرتی ہے ۔ یہ ضابطہ جہاں دنیا کی عام چیزوں میں جاری اور عملا نافذ ہے، وہیں فیس بک اور وہاٹس ایپ سمیت سوشل میڈیا کی دنیا بھی اس کلیہ سے مستثنی نہیں۔ اگر ان دونوں کا صحیح استعمال ہوتو ہم کہہ سکتے ہیں کہ تبلیغ اسلام ، اصلاح معاشرہ ، صالح تفکیر، حسن تدبر، مشاورت، مراسلت، تاثیر و تاثر اور تعمیم افکار کا بہترین ذریعہ ہیں، جن سے پوری دنیا جڑی ہوئی ہے۔ اور سالوں بلکہ عمروں میں کیا جانا والا کام ان کے توسط سے گھنٹوں میں کیا جاسکتا ہے۔ ایک کلک اور چند ساعتوں کی کھپت وہ گل کھلا سکتی ہے جس کا کل تک کوئی تصوربھی نہیں تھا۔ اس دعوے کی دلیل کے طور پر ابھی ماضی قریب میں مصر میں پیدا شدہ انقلاب کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جس کے پیچھے بنیادی طور پر مکمل کردار فیس بک کا تھا۔ فیس بک کے واسطے سے ہی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کی فکر عام ہوئی، اسی سے ذہنوں میں تبدیلی کا سور پھونکا گیا، اسی کے ذریعہ تغیر پسند لوگوں کی ٹیم تشکیل پائی اور پھر اسی سے بڑی شیرازہ بندی کے ساتھ احتجاجی جماعتیں وہاں کےتحریر چوک میں جمع ہوئیں۔ جس کے عظیم اور انقلابی نتائج کس روپ میں ظاہر ہوئے؟ اسے پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ مدتوں مطلق العنانی کا شکار رہی زمین مصر کی مکمل تاریخ کایہ اتھل پتھل کیا فیس بک کا جادوئی کرشمہ نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ اس سے متاثر ہو کر وہاں ایک آدمی نے اپنی بچی کا نام فیس بک رکھا ۔

یہ مثبت پہلو تھا جبکہ اگر اسی واسطے کو غلط ڈگر پر ڈال دیا جائے تو تاریخ نے دیکھا ہے کہ اسی فیس بک نے ہزاروں گھر بھی اجاڑے ہیں، طلاقیں بھی کروائی ہیں اور جانیں بھی لی ہیں۔ ماڈرن ایج کے میاں بیوی فرضی آئی ڈی سے ایک عرصے تک باہمی چیٹنگ کرتے رہے اور آخر ایک دن جب ملاقات کے لیے دونوں ہوٹل پہنچے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر اورمدتوں جاری رہی فحش چیٹنگ کے اپنے ہی کرتوتوں کو یاد کر کے دنگ رہ گئے اور پھر اسی دم اسی جا طلاق لے دے کر ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے ۔ کئی بار یہی صورت حال باپ اور بیٹی کے درمیا ن میں بھی پیدا ہوئی اور باپ جہاں اپنے کالے کرتوتوں پر پشیماں ہوا وہیں اپنی بیٹی کے کردار پر بھی انگشت بدنداں رہ گیا جبکہ بچی بھی باپ کی اس کارستانی پر پانی پانی ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔

راقم السطور ابھی زیر نظر مضمون لکھ ہی رہا تھا کہ فیس بک نے اسی کے ساتھ ایک بڑی چوٹ کر دی ۔ ہوا یوں کہ ایک دوست نے فون پر اطلاع دی کہ ایف بی پر اپنا پروفائل نام چیک کیجیے کسی نے پاس ورڈ ہیک کر کے ’’خالد ایوب مصباحی ‘‘ کی جگہ ’’خالد ایوب مصباحی ہندو‘‘ کر دیا ہے۔ دیکھا تو حیران رہ گیا ۔ حیرانی کے ساتھ مزید پریشانی اس وقت ہوئی یہ جب ایڈٹنگ کے تعلق سے یہ قانون دیکھنے کو ملا کہ پروفائل نام میں ایک بار ترمیم کرنے کے بعد ساٹھ دن سے پہلے دوبارہ کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ نہ جائے ماندن ، نہ پائے رفتن۔ بالکل یہی خرافات کئی ایک دیگر دوستوں کے ساتھ بھی کی گئی تھی اور ہر ایک کے ساتھ بس یہی ہوا کہ نام کے آخر میں ’’ہندو‘‘ کا لفظ بڑھا دیا گیا تھا۔

فیس بک پر اس طرح کی رذیل حرکتوں کے نتیجے میں ملک کئی بار سنگین حالات کا شکار ہو چکا ہے لیکن شرارت پسند عناصر اپنی فطرت سے مجبور معلوم ہوتے ہیں ۔ ملک کے طول وعرض میں ہر دن کہیں نہ کہیں اس تعلق سے فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو ہی جا تا ہے اور ایک طبقے کی نا پاک ذہنیت یہی ہے کہ یہ سلسلہ تھمنے نہ پائے ۔

آئے دن پیارکی شادیوں کے نام پر ڈھونگ رچنا اور صرف دو مطلب پرست نو جوان مرد اور دوشیزہ کا اپنے پیدا کرنے والے ماں باپ سمیت پورے کنبے اور تمام تعلق داروں سے ہمیشہ کے لیے رشتے ناطے توڑ لینا، نئی دنیا کے لیے ایک دل چسپ مشغلہ سا بن چکا ہے۔ اور اس میں شاید کسی کو تامل نہ ہو کہ یہ پورا کھیل زیادہ تر فیس بک کی دین ہوتا ہے۔ پہلے فیس بک سے دوستیاں ہوتی ہیں، باہمی تصویروں کا تبادلہ ہوتا ہے، چیٹنگ ہوتی ہے اور پھر موبائل فون کے ذریعہ رابطہ ہوتا ہے۔ اسکولز اور کالجز کی آزادیاں ملنے ملانے کا موقع فراہم کرتی ہیں ۔ بچوں کی غیر ضروری مصروفیات سےماں باپ کی لا تعلقی راستے کا ہر روڑا ختم کر دیتی ہے اور پھر شادی ہو یا نہ ہو وہ سب کچھ ہو جاتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔

فیس بک اگر چہ کوئی بہت پرانی ایجاد نہیں لیکن اگر اس نو مولود ایجاد کی یہی چندسالہ مختصر سی تاریخ دیکھی جائے تو اس قسم کے سیکڑوں نہیں ہزاروں واقعات ، حوادث اور کرشمے ملیں گے جبکہ لگ بھگ یہی صورت حال دیگر سوشل سائٹس کی ہے ، فرق اتنا ہے کہ فیس بک اپنی نسبتا قدامت و عمومیت اور بے پناہ مقبولیت کی بنیاد پر زیادہ چرچوں میں رہا اور دوسری سائٹس کو وہ حیثیت نہ حاصل ہو سکی۔ جبکہ ادھر جب سے وہاٹس ایپ کی ایجاد ہوئی ہے ، اس وقت سے فیس بک ہی کی طرح اسے بھی غیر معمولی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اور اس پذیرائی کا بنیادی سبب ہے اس سائٹ کی سہولت۔ لیکن اس کا عموم بھی لگ بھگ رفتہ رفتہ وہی تاریخ دوہرا رہا ہے جو فیس بک کا ریکارڈ رہی ہے ۔ وقت کا ضیاع، پیسوں کی بربادی، نظریات کی جنگ اور برائیوں کی تعمیم ، اس کے واضح نقصانات محسوس کیے جا رہے ہیں۔

اخلاق و کردار پر منفی اثرات مرتب کرنے کے علاوہ ان سوشل سائٹس کا جو دوسرا خطرناک پہلو ہے وہ ہے صحت اور معیشت پر غیر معمولی اثر اندازی ۔ جس شخص کو ان چیزوں کی لت لگ جاتی ہے ،د یکھا یہ جاتا ہے کہ اگر وہ کوئی بالغ نظر، ذی شعور اور قوت فیصلہ کا حامل فرد نہیں تو پھر گھنٹوں گھنٹوں ان میں یوں کھپا دیتا ہے جیسے زندگی کا کوئی اہم ترین مشغلہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ ظاہر ہے اس سے جہاں وقت اور پیسوں کی بربادی ہے وہیں موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ کی اسکرین پر مسلسل نظریں جمائے رہنے سے قوت بصارت اور مسلسل ہاتھ کی انگلیاں چلانے سے ان پر جو گہرے ضرر رساں اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ بھی کسی لعنت کے طوق سے کم نہیں۔ جبکہ اس قسم کی سائٹس کا عام استعمال کمپیوٹر کی بجائے موبائل سے ہوتاہے اور موبائل کی چھوٹی اسکرین کمپیوٹر کی اسکرین سے کئی گنا زیادہ نقصان دہ ہے۔ پیسوں کی بربادی کے لیے اتنا کافی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے کمپنیوں نے ان چیزوں کی لت لگانے کے بعد نیٹ پیک کے دام جس تیزی سے بڑھائے ہیں وہ اس پورے طبقے کے لیے بے پناہ تشویش کا سبب بنا ہوا ہے اور اس تعلق سے کچھ آن لائن تو کچھ آف لائن احتجاجات بھی ہو چکے ہیں۔

خیر! یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ عام طور پر ہر چیز میں نفع و نقصان کے دونوں پہلو ہوا کرتے ہیں ۔ سوشل سائٹس کے بھی یہی دونوں رخ ہیں جن کی ہلکی سی جھلک ہم نے اوپر دیکھی۔ اب ہم یہاں ان سائٹس کے استعمال کے کچھ اصول و آداب ذکر کر رہے ہیں جن کی رعایت سے امید ہی نہیں کامل یقین کی حد تک ضرر رساں پہلوؤں سے بچا سکتا ہے ۔

سوشل سائٹس کے استعمال کے اصول و آداب:۔ (۱) ضرورت بھر استعمال کریں : یعنی صرف ضروری گفتگو کے لیے یوز کریں۔(۲) ضرورت پر استعمال کریں: یعنی فضول چیٹنگ، گپ شپ، مضحکہ خیزیوں اور چوں چرا میں وقت ضائع نہ کریں کیوں کہ بہر حال یہ سب ضرورت کی چیزیں ہیں ، دل چسپی کی نہیں اور وقت سے قیمتی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس کے لیے بہتر ہوگا کہ ان کے استعمال کے لیے کوئی وقت مختص کر لیا جائے ۔ (۳) ٹائم ٹو ٹائم یوز کریں ، اینی ٹائم اسی میں الجھا رہنا نہ دانش مندی ہے اور نہ ضروری۔ (۴) اہل خانہ کے لیے مخصوص اوقات ہرگز ان میں صرف نہ کریں، کیوں کہ یہ جہاں عقلا جائز نہیں ویسے ہی اس سے پہلے شرعا نا جائز ہیں۔ (۵) اسی طرح عبادات یا دیگر متعینہ اوقات جیسے ڈیوٹی کے ٹائم وغیرہ ان میں ہرگز صرف نہ کریں ۔ (۶) ضرورت تک استعمال کریں: فحش تصاویر شیئر تو بہر حال نہیں کرنا ہے لیکن بھول چوک سے بھی ان کو زوم کر کے تفصیل کے ساتھ دیکھنا بھی نہیں ہے کیوں کہ بارہا نادانی میں اس طرح کی تصوریریں لائک ہو جاتی ہیں جو ہماری پروفائل دیکھنے والوں یا عقیدت کیشوں کے لیے تنفر اور بد گمانی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ (۷) بلا ضرورت کمینٹ کرنا، کسی کو چھیڑنا اور خواہ مخواہ کسی کا بچولیا بننا معقول نہیں۔ (۸) اگر کوئی معقول بات یا معقول تصویر ہو تبھی شیئر کریں ، ورنہ خواہ مخواہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے دنیا کے لیے درد سر بننا دانش مندی نہیں۔ (۹) معقول بات شیئر کرتے وقت بھی یہ دیکھ لینا چاہیے کہ آپ کی شیئر کی ہوئی بات کسی بھی طور پر کسی کے لیے دل آزاری کا سبب تو نہیں؟ (۱۰) پرسنل باتیں شیئر کرنا حماقت ہے جیسے: میں فلاں جگہ روانہ ہو رہا ہوں، فلاں جگہ پروگرام میں ہوں، فلاں سے مل رہا ہوں وغیرہ ، کیوں کہ یہ سب پرسنل سائٹس نہیں ، سوشل یعنی قومی ہیں اور عام ہیں اور عا م جگہ پر خاص گفتگو کہاں کی عقل مندی ہے؟یہ وبا عام طور پر پائی جاتی ہے ، اس کا علاج ہونا چاہیے۔ (۱۱) کسی بھی نظریے یا فکر سے اختلاف ہو تو بڑی سنجیدگی سے اس کا اظہار ہونا چاہیے کیوں کہ جس طرح ہمارے سامنے کوئی نہیں، اسی طرح پس دیوار کتنے ہیں، کیسے کیسے ہیں اور کون کون ہیں ؟ ہمیں کچھ نہیں معلوم، اس لیے احتیاط اور سنجیدگی کا دامن یہاں ہرگز نہ چھوٹے ۔ فیس بک پر یہ لحاظ بھی بہت کم لوگ کر پاتے ہیں اور یہیں سے بے وقوفی یا عقل مندی کا پہلا ثبوت فراہم ہوتا ہے ۔ (۱۲) اگر ہو سکے تو خدمت خلق اور خوش نودی رب کے لیے استعمال کریں مثلا: کسی کے تعاون کے لیے، کسی کی دینی ، دنیوی، تعلیمی، سماجی، رفاہی ، رہ نمائی کے لیے، کسی اہم اطلاع کے لیے، کسی سروس وغیرہ کے آفر کے لیے وغیرہ وغیرہ۔ (۱۳) ممکن ہو تو عادت بنائیں کہ دینی باتوں کو معقول ، مستحکم، قابل اطمینان اور مدلل انداز میں پیش کر سکیں، پیش کش ایسی ہو کہ اولا تو کسی کو اعتراض ہی نہ ہو اور اگر کسی کو کوئی اعتراض ہوتو بڑی معقولیت اور سنجیدگی سے اس کا شافی حل پیش کریں اور انداز بہر حال حکیمانہ اور داعیانہ ہو۔
تبلیغ دین کا یہ کام ان حقوق کی رعایت کے ساتھ ہر مسلمان کو بالعموم اور علما کو بالخصوص کرنا چاہیے اور ضرور کرنا چاہیے۔ کیوں کہ شاید ایسے آسان اور دل پذیر ذرائع سے زیادہ موثر ذرائع تبلیغ اور نہ مل سکیں۔ اور اس قسم کے ذرائع سے متاثر ہو کر آدمی سائیکلوجیکل طور پر جتنا جلدی اثر پذیر ہوتا ہے کبھی کبھار بالمشافہ افہام و تفہیم کے ذریعہ بھی اتنا متاثر نہیں ہوتا ۔ یہ کام اس لیے بھی ضروری ہے کہ بد باطن لوگ اپنے باطل نظریات کے فروغ کے لیے ان سوشل سائٹس پر حشرات الارض کی طرح بکھرے پڑے ہیں ، دل کش اور دل فریب ٹائٹلس کے ساتھ نت نئے گروپس، قسم قسم کے بلاگس، طرح طرح کی لنکس اور اب تو انڈروئڈ مارکیٹ نے سافٹ ویئرس کی ایجاد کو بھی اتنا سہل کر دیا ہے کہ ہر طرح کا مواد ویب سائٹس اور گوگل وغیرہ کی مدد کے بغیر ڈائرکٹ سافٹ ویئرس کے روپ میں مل جاتا ہے ۔ اس کا ایک بڑا نقصان جوہوا ہے وہ یہ کہ عام آدمی کے لیے اس مارکیٹ سے کسی بھی سافٹ ویئر کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے پہلے یہ امتیاز کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے کہ کھرا کون سا ہے اور کھوٹا کون سا؟ ایسے میں سب سے بہتر تو یہی ہے کہ ہمارے لوگ بھی انڈروئڈ مارکیٹ کا پورا فائدہ اٹھائیں اور جماعت اہل سنت کے انڈروئڈ سافٹ ویئرس زیادہ سے زیادہ اویلیبل ہوں ۔لیکن اگر علی الفور یہ نہیں کیا جا سکتا تو کم سے کم یہ ضرور ہونا چاہیے کہ وہاٹس ایپ گروپس ، چھوٹے چھوٹ ویڈیوز کی کلپس، ایک ایک عقیدے اور مسئلے کی چھوٹی چھوٹی امیجز وغیرہ بکثرت ہوں جن کی تحصیل بھی آسان ہو اور ان سے استفادہ بھی سہل۔ کیوں کہ اب طول طویل باتیں سننے سنانے اور پڑھنے پڑھانے کا زمانہ لد گیا ۔ دنیا اب وہ پڑھنا چاہتی ہے جس میں محض ایک نظر سے کام ہو جائے ، دوسری نظر اٹھانے کی بھی ضرورت نہ محسوس ہو، جنھوں نے یہ سہولت دی ہے ، وہ بڑھ رہے ہیں اور جنھوں نے اپنے آپ کو ان آسانیوں کے دور میں بھی زمانے کے دوش بدوش نہیں کیا وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہتے چلے جا رہے ہیں ۔ اور اگر اس پسماندگی کا احسا س نہ کیا گیا تو خدا نخواستہ وقت نکل جانے پر سواے حسرت کے اور کوئی یارا نہیں ہوگا۔ اس لیے جو ان میدانوں کے آدمی ہیں انھیں ان میدانوں کو سنبھال لینا چاہیے اور پھر سنبھل کر بیٹھ جانا چاہیے۔

اخیر میں بطور تشویق شاید اس بات کا ذکر بے جا نہ ہو کہ فقیر راقم السطور نے تقریبا سال بھر پہلے وہاٹس ایپ پر ’’آن لائن مفتی‘‘ نامی ایک گروپ بنایا تھا جس کا مقصد تھا عوام کو جوڑنا اور پھر ان کے دینی سوالات کے جوابات دینا۔ الحمد للہ اس گروپ کو اتنی مقبولیت ملی کہ یکے بعد دیگرے ’’ آن لائن مفتی‘‘ایک، دو، تین کرتے کرتے چھ گروپ بنانے پڑے جو تا دم تحریر اپنا کام کر رہے ہیں اور کامیاب ہیں۔ ان گروپس کی اتنی شہرت ہوئی کہ جہاں ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ ان سے وابستہ ہیں وہیں سعودی عرب، دوبئی، کویت، امریکہ، افریکہ، فیجی سمیت کئی ملکوں کے افراد استفادہ کر رہے ہیں۔ ان گروپس کا بنیادی مقصد عوام کی دینی گائڈنگ تھا اور جڑنے والا ہر ممبر اسی کا پابند لیکن رفتہ رفتہ یہاں وہ سب باتیں ہونے لگیں جو عام طور پر دار الافتاؤں میں ہوتی ہیں۔ روز مرہ کے مسائل، غیر مقلدوں کے بالمقابل احادیث ، جدید مسائل، اوراد و وظائف اور دیگر معمولات و معاملات وغیرہ۔ اب اسی سلسلے کو فقیر کے ہندی ماہ نامہ ’’احساس‘‘ جے پور، میں سلسلہ وار شائع کیا جا رہا ہے۔ اس تجربے کی روشنی میں یہ کہنا صد فیصد بجا ہے کہ عوام آج بھی پیاسی ہے اور متلاشی ہے۔ اور اس ناحیہ سے راہ بروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جدید تقاضوں سے لیس ہو کر ساقی کا کردار ادا کریں۔

سر دست ان سائٹس کے ذریعہ جو کام بڑی آسانی سے اور پوری مقبولیت کے ساتھ کیے جا سکتے ہیں وہ اس قسم کے ہو سکتے ہیں جن کی زیادہ ضرورت ہے: عقائد اہل سنت کی وضاحت۔عقائد اہل سنت کا اثبات۔ باطل اور حق پرست فرقوں کا تعارف ۔ سیرت رسول ﷺ کی تعمیم ۔ مسائل شرعیہ کی عقلی و نقلی تفہیم ۔ جماعت اہل سنت کے علما، مدارس، تحریکوں، خانقاہوں اور اداروں کا تعارف۔ اعلام اہل سنت کی سوانحیات ۔ مسلمانوں کی سیاسی قیادت۔ معمولات اہل سنت کا دفاع وغیرہ وغیرہ۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ کریم ہمیں جذبہ تبلیغ، درد امت، احساس و شعور اور توفیق خیر عطا فرمائے ۔
 

Khalid Ayyoob Misbahi
About the Author: Khalid Ayyoob Misbahi Read More Articles by Khalid Ayyoob Misbahi: 4 Articles with 3276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.