خواتین گارڈز

 بھارتی اداکار شاہ رخ خان نے اپنے گارڈز تبدیل کرلئے ہیں، ہمارے میڈیا نے اس معاملے کو خبر بنا کر پیش کیا ہے اور ہم نے اس خبر کو کالم بنا کر پیش کردیا ہے، یہی ایک چکر ہے، جو چلتا رہتا ہے اور ہم سب لوگ اس میں الجھے ہوئے ہیں۔ چکر کالم کے شائع ہونے تک ختم نہیں ہوجاتا، بات قارئین تک جاتی ہے، پھر اخبار قاری سے ہوتا ہوا ردّی فروخت کرنے والے کے پاس جاتا ہے، وہاں سے پکوڑے اور سموسے بنانے والا اسے خریدتا ہے، بات پکوڑوں کی فروخت سے پھر سیاستدانوں تک آتی ہے ، سیاستدانوں کے بیان پھر اخبار میں ، پھر کالم پھر قاری، پھر ردی اور پھر پکوڑے۔ یہ ایسا چکر ہے جو کبھی رکنے والا نہیں، کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے، اگر صدی کا وزن بھی اس کے پلڑے میں ڈال دیا جائے تو بات ہی کچھ اور بن جاتی ہے۔ بات شروع ہوئی تھی شاہ رخ خان سے۔ ہم پاکستانیوں کے انداز بہت نرالے ہیں، ہمارے پاس فلمی ہیرو اگر ہیں بھی تو انہیں کوئی ہیرو مانتا نہیں، دوسری طرف بھارت سے تمام تر مخالفتوں کے باوجود ہمارے نوجوانوں او رمیڈیا وغیرہ بھارتی فلمی ستاروں کو ہی ہیرو مانتے ہیں۔ فلم بھی انہی کی پسند، اداکار بھی اور گانے بھی۔
 
بات شاہ رخ خان سے شروع ہو کر پہنچ گئی اخباری چکر تک، کیا کیجئے، جب انسان کسی چکر میں آجائے تو نکلنا مشکل ہو جاتا ہے، ہم بھی اخباری چکر میں الجھے ہوئے ہیں۔ شاہ رخ خان کے گارڈز کا مسئلہ تھا، انہوں نے مرد گارڈ کو فارغ کر کے خواتین گارڈ رکھ لی ہیں، پوچھنے پر انہوں نے بتایا ہے کہ ’’․․․․خواتین کے خوبصورت اور لمبے ناخن ہوتے ہیں، جو وہ اپنے دفاع کے لئے خوب استعمال کر سکتی ہیں، دوسرا یہ کہ مرد حضرات خواتین کو آگے بڑھنے سے روکتے اور ان کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں، گویا یہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش ہے ․․․‘‘۔ گارڈ رکھنا فیشن نہیں، ضرورت بن چکا ہے، اور خاص طور پر ارب پتی لوگ جب باہر نکلتے ہیں تو انہیں محافظ کی سخت ضرورت ہوتی ہے، یہاں معاملہ صرف ارب پتی کا ہی نہیں عوامی مقبولیت کا بھی ہے، وہ کروڑوں عوام کے پسندیدہ ہیرو اور ان کے دلوں کی دھڑکن ہیں، عوام ان کی فلمیں تو دیکھتے ہی رہتے ہیں، مگر ان کی براہِ راست ایک جھلکی دیکھنے کے لئے بھی بے تاب رہتے ہیں، یہ لوگ جہاں جاتے ہیں وہاں ان کے چاہنے والوں کا ہجوم ہو جاتا ہے، اسی لئے انہیں حفاظتی حصار کی ضرورت رہتی ہے، اب خان صاحب نے مرد گارڈ ہٹا کر خواتین گارڈ کا فیصلہ کیا ہے تو یہ تبدیلی ایک بڑی خبر کی صورت میں سامنے آئی ہے۔

خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کو خان صاحب کے قریب آنے میں دقت ہوتی تھی، کیونکہ خان کے گرد مرد گارڈ خواتین کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہوتے تھے۔ ظاہر ہے جب کوئی خاتون اپنے ممدوح کے قریب آنا چاہتی ہے، تو ان کا محافظ ایسا کرنے سے انہیں روکتا ہے، خان صاحب کے بقول ’’گارڈ خواتین سے برا سلوک کرتے ہیں‘‘۔ اس برے سلوک سے بچانے کے لئے خان نے خواتین گارڈ ہی رکھ لیں، اب اس آزادی کے بعد خواتین کو قریب آنے سے کوئی نہیں روکے گا، ایسے میں خان کے ساتھ کیا ہوگا، یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا۔ ممکن ہے پوزیشن یہاں تک آجائے کہ اپنے ہیرو کی دیوانی خواتین کو قابو کرنا ہی مشکل ہو جائے، مرد گارڈ کی صورت میں تو وہ ڈرتی ہوئی قریب نہیں آتی تھیں، کیونکہ انہیں اپنے ہیرو سے پہلے گارڈ سے دو دو ہاتھ کرنا پڑتے تھے، اب وہ آزاد ہونگی۔ خواتین گارڈز انہیں کیسے روکیں گی؟ اگر یہ کام ناخنوں کے ذریعے ہی کرنا ہے، تو دونوں فریق خواتین ہی ہیں، ناخنوں کی اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں۔ ناخنوں کے ہتھیار کو خان صاحب نے ’خوبصورت‘ قرار دیا ہے، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خان بہادر ناخنوں سے دہرا کام لینا چاہتے ہیں، یوں جانئے کہ ہتھیار بھی ہو اور خوبصورت بھی تو کیا بات ہے؟ اگر یہ ہتھیار مرد حضرات کو روکنے کے لئے استعمال کئے جائیں گے تو پھر بھی معاملہ اتنا آسان نہیں، بہت سے مرد اِ ن ہتھیاروں کے زخم بھی نہایت خوشی سے برداشت کریں گے، بلکہ یوں کہیے کہ وہ بھی اس سے دو مزے لیں گے، کہ کسی حسینہ کے ناخن سے زخم کھانے کے بعد وہ اپنے محبوب ہیرو تک پہنچیں گے، تو ان کی خوشی دوبالا ہو جائے گی۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427128 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.