ایک بیلٹ، ایک شاہراہ

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں بھارت کی سفارتی شکست پر دنیا میں خوب بحث ہو رہی ہے۔نریندر مودی اس ناکامی پر سیاسی کامیابی کا لیبل لگانے میں مصروف ہیں۔جو انہیں اپنی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں 15سال بعد حاصل ہوئی ہے۔’’ ایک بیلٹ ، ایک شاہراہ‘‘کا منصوبہ ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے ملانے کاہے۔ جسے انسانی برادری کی تعمیر کا منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر چہ یہ خالص چین کا منصوبہ ہے جو اس نے دنیا سے سمندری اور زمینی راستوں کی مدد سے جوڑنے کے لئے تشکیل دیا ہے۔ تا ہم اس پر فوری عمل بھی ہو رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں اتفاق رائے سے منظور قرارداد میں چائنا پاک اقتصادی راہداری منصوبے کا ذکر ہے۔ جو اس قرارداد میں ایک پیراگراف کے طور پر شامل ہے۔ اصل قرارداد افغانستان سے متعلق ہے۔ جس میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن میں متفقہ طور پر ایک سال توسیع کی منظوری دی گئی ہے۔ چونکہ سی پیک میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہیں۔ جس پر بھارت کو اعتراض ہے۔ بھارت دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے چین کے فوجی کمانڈوز کی آزاد کشمیر میں کسی موجودگی کا واویلاکرتا رہتا ہے۔ جب کہ دنیا جانتی ہے کہ آزاد کشمیر میں جاری بجلی ، پانی اور سڑکوں کے منصوبوں میں چین کے کمانڈوز نہیں بلکہ انجینئرز کام کر رہے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لئے چین کے کمانڈوز کے بجائے پاکستانی سیکورٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔ مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی تعمیراتی عملے کی سخت حٖفاظت کی جا رہی ہے۔ بھارت کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر ہی اعتراض ہے۔ چونکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بجی غیر منقسم جموں و کشمیر ریاست کا حصہ ہیں۔ اس لئے بھارت کا ساری ریاست پر دعویٰ ہے۔ جموں و کشمیر پر بھارتی جبری فوجی قبضے کے بعد سے منقسم ریاست کے مستقبل کے بارے میں مختلف موقف پیش کئے جاتے ہیں۔ جب کہ سب سے اہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادیں ہیں۔ جن کے مطابق جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جانا ہے۔ بھارتی حکمران 70سال سے ٹال مٹول اور تاخیری حربے آزما رہے ہیں۔ وہ رائے شماری کرانے پر آمادہ نہیں۔ اپنی فوج کی نگرانی میں انتخابات کرنے کے بعد انہیں رائے شماری کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جسے کشمیری عوام کی اکثریت مسترد کرتی ہے۔ اسی وجہ سے جموں و کشمیر میں بھارتی فوجی قبضے کے خلاف جدوجہد چل رہی ہے۔ لیکن بھارت اس جائز آزادی کی تحریک کو بھی دہشت گردی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

جمو ں و کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں ہی آج 70سال سے کشمیر کی جنگ بندی لکیر کے آر پار اقوام متحدہ لے فوجی مبصرین موجود ہیں۔ جن پر بھارت کو اعتراض ہے۔ تا ہم کشمیری عوام ان مبصرین کی تعداد میں اضافے کا مطالبے کرتے ہیں۔ چین کی قراردادمیں سی پیک کا بھی ذکر کر کے چین نے انتہائی سفارتی چابکدستی سے کام لیا ہے۔ اب دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ سی پیک میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی شمولیت پر بھارتی اعتراضات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ اس خطے میں تعمیر و ترقی کے عمل کو روکنے کی بھارتی سازش ہے۔ جسے امن پسند دنیا قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتی۔ چین کو پاکستان سے زمینی راستوں سے ملانے والی شاہراہ ریشم کے بعد سمندری راستوں سے جوڑنے والی شاہراہ ریشم بھی تعمیر ہو گی۔ جب کہ ایک بیلٹ، ایک سڑک منصوبے سے فی الوقت دنیا کے 60ممالک مستفید ہوں گے۔ سی پیک منصوبے کی سلامتی کونسل کی جانب سے توثیق انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ اگر چہ اس نے بھارت کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے تا ہم یہ تشویش نا معقول ہے۔ اس کی بڑی وجہ بھارت کا مقبوضہ ریاست پر ناجائز قبضہ اور اس قبضے کو ختم کرنے کے بجائے اس میں توسیع کی لالچ ہے۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ سی پیک بھی صرف جنوبی ایشیا کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو معاشی تعاون، علاقائی روابط، تجارت، سلک روڈ، سمندر ی شاہراہ ریشم، علاقائی ترقی اور روابط میں تیزی لانے کا منصوبہ ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی انسانی برادری کی تعمیرکے تصور کا ایک فارمولہ پیش کیا ہو اہے۔ چین کی قرارداد میں اس تصور کو عالمی سطح پر توثیق ملی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ چین کے تصور نے دنیا کو متاثر کیا ہے۔ اسی وجہ سے چینی قرارداد کو اتفاق رائے سے دنیا نے منظور کیا ہے۔اس پر کسی نے ویٹو نہیں کیا۔سلامتی کونسل کی اس قرارداد کے مطابق دنیا کو چین کے اس منصوبے میں مثبت طور پر شامل ہوکر انسانی برادری کی مشترکہ تعمیر میں حسہ لینا چاہیئے۔ اس منصوبے میں چار تا آٹھ کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ آج کے دور میں جب دنیا اپنے مفادات کے لئے تڑپ رہی ہے، ہر ملک اپنے مفادات کو سب پر ترجیح دیتا ہے، ایسے میں دنیا کی مشترکہ تعمیر اور ترقی کا کوئی منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔ اس میں اگر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہو رہے ہیں تو بھارت کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے اپنی شمولیت اور مل کر دنیا کو جوڑنے کے اس عمل میں ساتھ دینا چاہیئے۔ آج دنیا اجتماعی ترقی کا سوچ رہی ہے، مل کر ترقی کرنا چاہتی ہے، ہر جگہ امن قائم کرنے کی خواہش بڑھ رہی ہے، اس دوران جبری اور ناجائز قبضے، قوموں کو غلام بنائے رکھنا، آزاد علاقوں کو ریاستی کالونیاں بنانا، نسل کشی، مظلوموں کا قتل عام ناقابل قبول ہے۔ دنیا کو روشنی کی تلاش ہے۔ بھارت اندھیروں میں گم ہو رہا ہے۔ بھارت میں ہندو دہشت گردی فروغ پا رہی ہے۔ نریندر مودی کی سرپرستی میں بھارت کا مستقبل خانہ جنگی اور ماردھاڑ کا پتہ دیتا ہے۔ کیوں کہ بی جے پی اور جن سنگھی اپنی عمارت کو نفرت اور انتہا پسندی پر کھڑا کر رہے ہیں۔ امن اور ترقی کا خواب دیکھنے والی دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔ ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے قدیم تجارتی راستوں کے زریئعے جوڑنے کا منصوبہ تقریباً 100ممال کی معیشت کو چار چاند لگا سکتا ہے۔ اس منصوبے میں کسی رکاوٹ کی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے یہ ممالک مل کر کام کریں تو دیگر ممالک بھی چین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کو توڑنے کے بجائے جوڑنے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ چین کی قراداد میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبے ، وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا بجلی ٹرانسمشن اور تجارتی منصوبے، افغانستان بھارت ایران کے چابہار بندرگاہ منصوبے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ جن میں چین کا براہ راست کوئی کردار نہیں لیکن چین نے تاثر دیا ہے کہ وہ ان منصوبوں کے لئے کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے۔ بھارت نے اگر عالمی کردار ادا کرنا ہے، جیسے کہ وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بھی بننا چاہتاہے، تو وہ پہلے خود سلامتی کونسل کی قرارداداوں پر عمل در آمدیقینی بنائے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 479709 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More