قصہ واں رادھا رام کے سفر کا

خواجہ سعد رفیق اسے ضرور پڑھیں کیونکہ بے شمار باتیں ان کی توجہ کا تقاضا کرتی ہیں

ریلوے کو اکثر مردہ گھوڑا کہاجاتا ہے جس میں جان نہیں ڈالی جاسکتی لیکن خواجہ سعد رفیق جیسے متحرک اور عوام دوست وزیر نے ناممکن کو ممکن کردکھایاہے ۔ اس کے باوجود کہ منزل ابھی بہت دور ہے اور پاکستان ریلوے کا تقابل کسی ترقی یافتہ سے نہیں کیاجاسکتا لیکن جس قدر تیزی سے انقلابی فیصلے اور ان پرعمل دیکھنے میں آرہا ہے اسے دیکھ کر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ بہت جلد پاکستان ریلوے ایشیا کی بہترین ریلوے روپ دھار لے گا ۔ یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک مرتبہ مجھے لاہور سے قصور فرید ایکسپریس کے ذریعے جانے کا اتفاق ہوا ۔ گاڑی کے چلنے کا اندازکچھ اس قدر خراب تھا جیسے گھٹنوں میں درد والا شخص دونوں جانب کندھے اچکا کر چلتا ہے جبکہ بوگیوں کے ایک ایک پرزے سے آوازیں نکل رہی تھیں اور ٹریک کے ڈھیلے پیچ الگ شور مچار رہے تھے۔ رائے ونڈ آیا تو چند منٹ کے لیے یہاں ٹرین رک گئی ۔ میں اتر کر ٹرین کے گارڈ کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ یہ ٹرین کہاں تک جاتی ہے ۔گارڈ نے مسکراتے ہوئے بتایاجناب یہ ٹرین براستہ قصور ،پاکپتن اور لودھراں،کراچی تک جاتی ہے ،میں نے کہا لگتا تو نہیں ہے ۔ کہ یہ واقعی کراچی تک خیر و عافیت پہنچ جاتی ہوگی ۔یہ وہ دور تھا جب ڈرائیور ، گارڈ ، ایس ٹی اور گاڑی کے ساتھ چلنے والے پولیس اہلکاروں مسافروں سے پیسے لے کر اپنی جیب میں ڈال لیتے اور مفت ٹرین پر سوار ہونے کی اجازت دے دیتے ۔اس طرح جو رقم اکٹھی ہوتی وہ سب آپس میں بانٹ لیتے ۔ مجھے بھی ایک ریلوے ملازم نے مفت سفرکرا نے کی پیشکش کی ، جسے میں نے یہ کہتے ہوئے مسترد کرد یا کہ ریلوے کا بھٹہ تو پہلے ہی بیٹھ چکا ہے ، میں اس قومی ادارے سے محبت کرتا ہوں اس لیے میں اس جرم میں شریک نہیں ہوسکتا ۔
انہی بدترین حالات کے پیش نظر پیپلز پارٹی کے وزیر مملکت ریلوے نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھاکہ ٹرین پر جس نے سفر کرنا ہے وہ اپنے رسک پر ایساکرے ۔ہم ذمہ داری نہیں لے سکتے کہ وہ خیر یت اپنے گھر واپس پہنچ سکتا ہے یا نہیں ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ماضی میں ٹرین کے سفر کا اپنا ہی لطف ہوا کرتا تھا جب ہم سب بھائی ماں کے ساتھ صبح نو بجے ٹرین پر سوار ہوکر شام پانچ بجے عارف والا پہنچتے ۔راستے میں ہر اسٹیشن پر اترنے اور چڑھنے والے مسافروں کی دھکم پیل ، گرما گرم پکوڑے کی آوازیں ہمارے دل پر اثر انداز ہوتیں اور ہم والدہ سے پکوڑے کھانے کا تقاضا کرتے ۔کیونکہ اس وقت ماں کی جیب میں پیسے نہیں ہوا کرتے تھے ۔سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ماں رات کو ہی گڑ والی ڈھیر ساری میٹھی روٹیاں پکا کر ساتھ باندھ لیتیں جب ہمیں بھوک لگتی تووہی گڑ والی روٹیاں ماں ہمارے ہاتھ میں تھما دیتیں۔ چونکہ والد صاحب ریلوے میں ملازم تھے اس لیے انہیں سال میں تین چار فری سفری پاس مل جاتے، جو ہمارے اس وقت کام آتے جب ہم چھٹیاں گزارنے کے لیے نانی کے گھر واقع عارف والا کا سفر کرتے ۔ چلتی ہوئی گاڑی کی آواز میں جو ردھم ہوا کرتا وہ ہمیں بہت اچھالگتا ۔ ہم کان لگا کر ان لمحات کے ہمیشہ منتظر رہتے جب گاڑی کسی بھی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہونے کے لیے کانٹے بدلتی تو ایک عجیب سی آواز پیدا ہوتی جو ہر سننے والے کے کانوں میں رس گھولتی ۔ اس وقت ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے موثر اور محفوظ ترین ذریعہ ریلوے ہی تھا ۔ بسیں چلتی تو تھیں لیکن شام ڈھلے ہی بند ہوجاتیں ۔ جبکہ ٹرین کا سفر 24 گھنٹے جاری و ساری رہتا ۔ لوگ اگلی ٹرین پر سوار ہونے کے لیے آدھا آدھادن پلیٹ فارم پر گزار دیتے ۔ ایک مرتبہ تو ہم سب بہن بھائی جب کہروڑ پکا، اپنی خالہ زبیدہ سے مل کر واپس آکر رہے تھے تو بورے والا کے قریب ٹرین کا انجن خراب ہوگیا۔ گرمیوں کی یہ رات ہمیں اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہی اس لیے گزارنی پڑی کہ متبادل انجن نے لاہور سے آنا تھا جس کے پہنچنے کے لیے سات آٹھ گھنٹے یقینی صرف ہوجاتے ۔سخت گرمی کے موسم میں مچھروں نے ہمارے سمیت تمام مسافروں کو جی بھر کے کاٹا ۔نامناسب لباس کی وجہ سے جسم کاکوئی نہ کوئی حصہ مچھروں کی غذا بن جاتا ۔ یہ اچھے وقتوں کی بات ہے جب قریبی آبادی کے لوگوں کو ٹرین کے انجن خراب ہونے کی خبر پہنچی تو چھوٹے بڑے ،اپنے گھروں سے کھانے پینے کی اشیاء لے کر ہمارے پاس پہنچ گئے جس سے ہم سب نے پیٹ کی آگ بجھائی ۔
بہرکیف خواجہ سعد رفیق نے جب وزیر ریلوے کا چارج سنبھالا تو حالت انتہائی بدترین ہوچکی تھی اور خدشہ تھا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر بنا ہوا یہ قومی ادارہ کسی بھی وقت دم توڑ جائے گا ۔ کرایوں میں حد درجہ کمی اور خراب انجنوں کی جگہ چائنز انجنوں کو ہی استعمال میں لا کر کسی حد تک خواجہ سعد نے ریلوے کو کامیابی کے راستے پر گامزن کردیا ہے ۔مجھے چونکہ عشق کی حد تک ریلوے سے پیار ہے بلکہ میرے خون میں ریلوے کے محبت رچی بسی ہے اس لیے دل کی گہرائیوں میں کہیں یہ خواہش پنپ رہی تھی کہ زندگی کی ڈھلتی شام کے آخری لمحات میں ریلوے کے سفر کو ایک بارپھر انجوائے کرنا چاہیئے ۔اخبارات و رسائل میں ریلوے کی ترقی اور دور جدید میں آگے بڑھنے کی کہانیاں زبان زد عام تھیں ۔ جب سے بڑھاپے اور گھٹنوں کے درد نے بے حال کیا ہے اب تصورات کی دنیا میں تو میں چاندکی سیر بھی کر آتا لیکن عملی طور پر گھر سے باہر نکلنے کو بھی دل نہیں کرتا ۔ سیر و سیاحت اور تاریخ میں مجھے گہری دلچسپی ہے لیکن یہ دلچسپی خواب اور خیالوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔
حسن اتفاق سے میرا ایک دوست سید ندیم احمدپوسٹ ماسٹر کی حیثیت سے کوئٹہ سے ٹرانسفر ہوکرپتوکی آیاجس کے آنے سے یوں محسوس ہوا جیسے پتوکی اب میراشہر ہے ۔ مارچ2011ء میں اور میری بیگم( عابدہ اسلم ) بذریعہ بس پتوکی جاپہنچے جہاں ڈاکخانے کی بالائی منزل پر سیدندیم احمدکی رہائش تھی ۔ پتوکی شہر کی پسندیدگی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ میرے والد پتوکی سے دوسرے ریلوے اسٹیشن واں رادھا رام (جس شہر کا نیا نام حبیب آباد ہوچکا ہے) میں بطور کانٹے والا تعینات تھے ۔یہ 1958 کا زمانہ تھا اس وقت میری عمر چار سال ہوگی بمشکل اپنے پاؤں پر چلنا شروع ہی کیا تھا کہ واں رادھا رام کی مٹی نے میری قدم بوسی شروع کردی ۔ یہ آج سے 57 سال پہلے والا زمانہ تھا جسے ہم پرانے زمانے کا نام دیتے ہیں لیکن اس دور میں واں رادھا رام شہر کی شہرت مرچوں کی منڈی کے حوالے سے تھی۔ جی ٹی روڈ پر واقع ہونے کی وجہ سے اس شہرکو بہت اہم مقام حاصل تھا ۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت اپنی مثال آپ تھی ۔دونوں اطراف خوبصورت پلیٹ فارم جن کے تحفظ کے لیے دونوں جانب مضبوط لوہے کے جنگلے نصب تھے ۔ اسٹیشن کے مغرب میں ریلوے ملازمین کے لیے رہائشی کوارٹرتھے ریلوے ملازمین کی سہولت کے لیے انگریز حکومت نے یہاں دو کنویں بھی کھدوا رکھے تھے۔ جہاں سے ضرورت کے مطابق پینے ،نہانے اور کپڑے دھونے کاپانی حاصل کیاجاتا تھا۔کنویں سے پانی نکالنا اور پھر گھر لانا ایک مشکل اور تکلیف دہ عمل تھا ۔ہر گھر میں مٹی کے دو تین مٹکے ، لکڑی کی گھڑونجی پر پہلے سے آراستہ نظر آتے ۔ جن میں ضرورت کا پانی محفوظ کیاجاتا۔ گرمیوں کے موسم میں پانی کے یہ گڑھے سورج کے ساتھ ساتھ حرکت کرتے ۔دھوپ آنے سے پہلے انہیں اٹھا کر یاگھیسٹ کر سائے میں لایاجاتا اور سارا دن گھر والوں کی نظریں ان گھڑوں پر ہی مرکوز رہتی۔اگر کہیں کوتاہی ہوجاتی تو پھر سب کو گرم پانی پیناپڑتا ۔ اس زمانے میں فریج ، ڈیفریز ر اور ریفریجٹر موجودنہیں تھے ۔ رات کے پکے ہوئے سالن کو بھی صبح تک محفوظ رکھنے کے لیے لوہے کی تاروں والا ایک چھکا ہوتاجس میں پکی ہوئی ہانڈی اٹھا کر رکھ دی جاتی ۔ جس کے چاروں اطراف سے ہوا اور سالن کی تازگی اور ذائقہ کو محفوظ رکھتی ۔ اس زمانے ابھی بجلی ریلوے کوارٹروں میں نہیں آئی تھی اس لیے شام ہوتے ہی گھروں میں اندھیرے کا راج شروع ہوجاتا ۔روشنی کے لیے لالٹین یا برنل جلا لیا جاتا ۔ جہاں لالٹین یا برنل جلا کر رکھ لیا جاتا گھر کاوہی حصہ مرکزی مقام بن جاتا۔شام ہونے سے پہلے لالیٹن کا شیشہ صاف ، مٹی کا تیل اور بتی وغیرہ چیک کرلیے جاتے تاکہ اندھیرے میں کسی پریشانی سے محفوظ رہا جاسکے۔
بہرکیف وہ دن بھی کیا تھے جب ماں اس چھوٹے سے کوارٹر میں شام سے پہلے ہی مرچیں اپنے ہاتھ سے پیس کر ہانڈی میں ڈالتی اور گندم اپنی گھر کی چکی میں پیس کر پہلے آٹا بناتیں پھر اسے گوندھ کر روٹی پکاتیں۔ روٹی پکانے کے لیے لکڑیوں سے آگ جلانے کا عمل شروع ہوجاتا یہ عمل اس قدر دشوار تھا پھونکیں مار مار کرماں کی آنکھیں سوجھ جاتیں اور سارا گھر دھویں سے بھر جاتا۔چارپائی کے نیچے رکھی ہوئی آٹا پیسنے والی چکی کو چلانے کی ڈیوٹی میری اور ماں کی ہوتی ۔ ایک ہاتھ میرا اور ایک ہاتھ ماں کا ہوتا۔ تب کہیں دو پتھروں کو گھمانے میں کامیابی حاصل ہوتی ۔ اس چھوٹے سے کوارٹر( جس میں صرف ایک کمرہ ، چھوٹا سا برآمدہ اور دو چارپائیوں کاصحن تھا ) سونے کے لیے جگہ بہت کم تھی جگہ کی تنگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے والدہ نے اوپر نیچے چارپائیاں بچھا رکھی تھیں ۔ جو تھوڑی جگہ باقی بچتی وہاں والدہ نے گھر کاسامان رکھا ہوا تھا ۔اسی کوارٹر کے سامنے ایک بڑا سا پیپل کا درخت بھی تھا جس کے نیچے بیٹھ کر کوارٹروں کی عورتوں فرصت کے لمحات میں کسی نہ کسی کام میں مصروف ہوجاتیں ۔
بہرکیف یہ سب کچھ 1964ء تک جاری رہا جب تک ہم والد صاحب کے ہمراہ لاہور کینٹ منتقل نہیں ہوگئے ۔ اس مرتبہ پتوکی جانے کا محرک یہ واقعہ بنا کہ میرے دوست سید ندیم احمد کے والدکا انتقال ہوگیا۔ ان کی وفات پر تعزیت کرنا ضروری تھا، ابھی ہم پتوکی جانے کا پروگرام ترتیب دے ہی رہے تھے کہ ندیم بھائی ایک حادثے کا شکار ہوکر بستر پر لیٹ گئے ۔ ان کی ٹانگ پر اس قدر گہری چوٹ لگی کہ ڈاکٹروں نے گھٹنے کا آپریشن تشخیص کردیا ۔اس کے باوجودکہ میرا یہ دوست مضبوط اعصاب کامالک ہے اس کی زندگی بے شمار چیلنجوں سے ہی عبارت ہے۔لیکن اس نے ہر مشکل کا خندہ پیشانی سے سامنا کیااور ہمت نہیں ہاری ۔انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ڈگری کے حامل سیدندیم محکمہ ڈاک میں پتوکی پوسٹ ماسٹرتعینات ہوگئے ۔ یہاں انہوں نے اپنی ذہانت اور دیانت کا سکہ جمانا چاہا تو غلطی سے ایک کرپٹ ٹولے پر ہاتھ ڈال دیا جو جعلی منی آرڈر کی مہریں لگا کر محکمہ ڈاک کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچا رہاتھا ۔ یہاں کرپشن کرنے والے اکیلے نہیں ہوتے بلکہ ان کی جڑیں بہت دور تک پھیلی ہوتی ہیں ۔اگر کوئی غلطی سے انہیں کوئی پکڑنے کی غلطی کرلے تو اس کا خیمازہ ضرور بھگتنا پڑتا ہے۔ میرے دوست ندیم سے بھی یہی غلطی ہوئی انہوں نے لاکھوں روپے مالیت کا سیکنڈل پکڑا ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ محکمہ ڈاک کی جانب سے انہیں انعام سے نوازا جاتا لیکن ہوااس کے برعکس ۔ اسے معطل کرکے کیس ایف آئی اے کے سپرد کردیا گیا ۔گزشتہ دو تین سالوں سے وہ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے لیکن اس کی جان نہیں چھوٹ رہی۔ آدھی سے زیادہ تنخواہ معطلی کی وجہ سے کاٹ لی جاتی ہے تو دوسری جانب اسے روزانہ پتوکی سے لاہور بذریعہ بس آنا پڑتا ہے ۔پہلے وہ ڈاکخانے کی بالائی چھت پر رہائش پذیر تھا اب اسے رہنے کے لیے دس ہزار روپے ماہوار کرایے مکان لینا پڑا ۔
ان وجوہات کی بنا پر تعزیت اور مزاج پرسی کے پتوکی جانا ضروری تھا لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ میرے ایک گھٹنے کا آپریشن ہوچکا ہے جس کی وجہ سے واش روم میں سپیشل انتظامات کرنے پڑتے ہیں ۔ عام گھروں میں یہ سہولت موجود نہیں ہوتی ۔ اسی طرح فیس بک پر ایک نوجوان سے دوستی ہوئی جس کا نوید مظفر ہے جب میں نے پتوکی آنے کی خواہش کااظہار کیا تو انہوں نے ویلکم کرتے ہوئے کہاکہ میرے گھرکے باتھ روم میں کمپوڈ نصب ہے ۔میں نے کہا کہ مجھے صرف کرسی والا باتھ روم ہی نہیں چاہیئے بلکہ پتوکی پہنچ کر میں واں رادھا رام نہ جاؤں تو پتوکی جانے کامقصد ختم ہوجاتاہے ۔ واں رادھا رام میری زندگی کا انتہائی اہم ترین شہر ہے جس پر میں نے زمین پر پاؤں رکھ کر چلنا سیکھا تھا اور مقامی سکول میں کچی پکی پہلی دوسری ،تیسری اور چوتھی جماعت تک زیر تعلیم بھی رہا ۔ واں رادھارام کی سیر کروانے کا وعدہ ہی لاہور سے نکلنے کا باعث بن سکتا ہے ۔ نوید مظفر نے کرسی والے باتھ کی فراہمی اور واں رادھا رام لے جانے کا وعدہ بھی کرلیا ۔ اب میرے لیے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی ۔
چنانچہ پتوکی جانے کے لیے میں اور میری اہلیہ پونے آٹھ بجے ہم لاہور کینٹ اسٹیشن پر جاپہنچے ۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ پلیٹ فارم پر دور دور تک پولیس اہلکار دکھائی نہیں دیئے لیکن دو فوج کے چاق و چوبند جوان تمام مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کر رہے تھے ۔ خیبر میل کا ٹکٹ خریدکر ہم لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گئے ۔پلیٹ فارم جگہ جگہ سے ٹو ٹا ہوا تھا ۔ اس اہم ترین اسٹیشن پر کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے والا کوئی سٹال موجودنہیں تھاجبکہ پہلے نہ صرف مسافروں سے پلیٹ فارم بھرا ہوا ہوتا بلکہ گرما گرم پکوڑے ، پھل فروخت کرنے والوں کی ریڑھیاں اور چائے کاٹی سٹال ہر اسٹیشن کا حصہ ہوتا۔ بہرکیف بہت مدت کے بعد ٹرین کے سفر کا شوق ہمیں ایک بار پھر ریلوے اسٹیشن پر لے آیا تھا ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ریلوے ایک جادو نگری ہے ریلوے کو اگر عوام کی محبوب ادارہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا یہ وہ ادارہ ہے جو چاروں صوبوں کو آپس میں ملاتا ہے اس پر پنجابی بھی سفر کرتے ہیں ، سندھی بھی ، بلوچی بھی سفر کرتے ہیں اور پٹھان بھی ۔اس طرح یہ چاروں صوبوں کی زنجیر ہے ۔ پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دور بدترین دور تھا ۔دنیا بھر میں ریلوے ترقی کررہی ہے لیکن ہمارے ہاں تین چوتھائی ٹرینیں بند کردی گئی ہیں اور جو چلتی ہیں ان کی رفتار چالیس سے پچاس کلومیٹر بمشکل ہوتی ہے ،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اتنی کم رفتار سے چلنے والی ٹرین کے ایک ایک پرزہ کی آواز ہر مسافر تک پہنچتی ہے ۔پہلے کمیشن حاصل کرکے چائنہ سے بوگیاں خریدی گئیں جن کا سائز ہمارے پلیٹ فارم سے بڑا تھا پھر پلیٹ فارم کو ٹریک سے دور کرنے کے لیے مشینری منگوائی گئی جس کواستعمال کرکے پشاور سے کراچی تک پلیٹ فارم کو چائنز بوگیوں کے قابل بنایا پھر کمیشن کے ہی چکر میں کارکردگی دیکھے بغیر چائنز ریلوے انجن خرید لیے گئے ۔جن میں ٹرین کی بوگیاں کھینچنے کی طاقت ہی دکھائی نہیں دیتی ۔
مجھے یاد ہے کہ جب واں رادھا رام والد صاحب کی ڈیوٹی کیبن پر ہوا کرتی تو والدہ مجھے کھانا ایک چنگیر میں رکھ کر کیبن پر جا کر دینے کے لیے کہتی ۔ میں ابھی کیبن کی طرف چلنا شروع ہی ہی کرتا تو ساہی وال کی جانب سے ڈیزل انجن کسی بھی ایکسپریس ٹرین کو طوفانی رفتار سے کھینچتا ہوا لاہور کی جانب جارہا ہوتا اور اکثر ڈرائیور شہر سے گزرتے ہوئے ہارن بھی بجایا کرتے تھے ۔ اس وقت انجن کا ہارن اس قدر تیز اور خوفناک ہوتا کہ میں کئی مرتبہ کھانے والی چنگیر پھینک کر گھر کی جانب دوڑ پڑتا ۔ ابھی الیکٹرک انجن متعارف نہیں ہوئے تھے جبکہ کالے اسٹیم انجن پسنجر گاڑیوں کے ساتھ نظر آتے ۔واں رادھا رام کااسٹیشن ، پلیٹ فارم ، حفاظتی جنگلے اور مسافر خانہ اپنی مثال آپ ہوا کرتے تھے ۔دن میں شاید ہی کوئی وقت ایسا جاتا ہو جب پلیٹ فارم مسافروں سے بھرا ہوا نہ ہو ۔ ارد گرد کے دیہاتوں کے لوگ کئی کئی گھنٹے پہلے ٹکٹ لے کر گاڑی کے انتظار میں فرش پر ہی چادربچھا کر لیٹ جایا کرتے تھے ۔اب جب سے ریلوے زوال پذیر ہوئی ہے نہ اسٹیشن کی عمارت قائم رہی اور نہ ہی مسافرخانہ اور پلیٹ فارم ۔ ہر چیز کھنڈر کا ڈھیر بن کر رہ گئی ہے ۔مزید جب سے ٹرین کے ساتھ چائنز انجن چلنا شروع ہوئے ہیں۔ایکسپریس ٹرینوں کی رفتار بھی کسی بیمار شخص جیسے لگتی ہے نہ انجن کا وسل رعب دار ہے اور نہ ہی اس میں طاقت دکھائی دیتی ہے جس کے بل بوتے پر ٹرین کی بوگیوں کو انجن لے کر بھاگتا ہے ۔ اس کے باوجود کہ نیا ٹریک بھی بچھایا گیا اور پرانے ٹریک کی مرمت کی جارہی ہے لیکن نیا اورپرانا دونوں ٹریک میں اتنی جان نہیں کہ وہ 70 یا 80 کلومیٹر کی رفتار سے چلتی ہوئی بوگیوں کے پہیوں کو گریپ کرسکے ۔ شاید انجنوں کی کمزوری کی وجہ سے ہر ایکسپریس ٹرین کئی کئی گھنٹے لیٹ منزل مقصود پر پہنچتی ہے ۔
...................
بہرکیف انہی سوچوں میں گم میں اور میری بیگم اس جانب بہت چاہت سے دیکھ رہے تھے جس طرف سے خیبر میل نے پلیٹ فارم پر آکر کھڑا ہونا تھا ۔ ایکسپریس ٹرینوں کا کسی اسٹیشن پر قیام دو تین منٹ ہی ہوتا ہے اس لیے نشست کی تلاش میں مدد کے لیے میرا بھتیجا وسیم اکرم اپنے دو پیاریپیارے بچوں کے ساتھ ہمارے ساتھ موجود تھا ۔جونہی ہی خیبرمیل دور سے آتی دکھائی دی تو دل تیزی سے دھڑکنے لگا ۔سانپ کی طرف بل کھاتی ہوئی خیبر میل بہت اچھی لگ رہی تھی ۔ خیبرمیل کے رکتے ہی وسیم نے دوڑ کر ایک ایسے ڈبے میں ہمارا بیگ رکھ دیا جہاں بیٹھنے کی کچھ گنجائش موجود تھی ۔ ہم دونوں میاں بیوی بھی سوار ہوگئے ۔وسیم ہمیں نشست پر بٹھا کر خودگاڑی سے اتر گیا ۔اس کے باوجود کہ میری نشست کھڑکی سے کچھ دور تھی لیکن میری نگاہیں باہر کے مناظر دیکھنے میں مصروف ہوگئیں۔ یہ لاہور کے مضافات ہی تھے جہاں روزانہ نہیں تو ہفتے میں ایک دور مرتبہ ضرور یہاں سے گزر ہوتا تھا لیکن گاڑی میں سوار ہوکر ان کی اہمیت میں حد درجہ اضافہ ہوچکا تھا اور میں نہایت دلچسپی سے اپنی نگاہیں کھڑکی سے باہر ہی مرکوز رکھے ہوئے تھا ۔خیبر میل بہت قدیمی ٹرین کا نام ہے ، جس کی رفتار قابل دید اور منزل پشاور سے کراچی تک تھی۔ اب اس اہم ترین ایکسپریس ٹرین کی رفتار بہت کم ہوچکی تھی ۔شاید اس کی وجہ وہی چائنزانجن تھے جو چلنے میں تیزی نہیں رکھتے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق چالیس سے پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے خیبر میل آگے بڑھ رہی تھی ۔ کوٹ لکھپت اسٹیشن پر چندلمحات کے لیے رکی پھر دوبارہ چلنے لگی ۔پھر ہلوکی میں بھی چند منٹوں تک روکنے کے بعدرائے ونڈ اسٹیشن پر پہنچ گئی ۔ اس اسٹیشن کی حالت زار بھی لاہور کینٹ سے مختلف نہ تھی۔ پلیٹ فارم جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا ۔سفیدی کے باوجود اسٹیشن کی عمارت اپنی بوسیدگی کی کہانی الگ سنا رہی تھی ۔یہاں کھانے پینے والی اشیاء کا صرف ایک اسٹال دکھائی دیا جو اس اسٹیشن کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ناکافی تھا ۔ رائے ونڈ کو اس اعتبار سے بہت اہم مقام حاصل ہے کہ یہ شہر تبلیغی جماعت کامرکز ہے جہاں سارا سال تبلیغی جماعتوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے ۔ بلکہ جب اجتماع ہوتا ہے تو اس شہر میں دور دور تک انسان ہی دکھائی دیتے ہیں ۔
بہرکیف یہاں بھی خیبر میل چند منٹ ٹھہرنے کے بعد چل پڑی ۔ اب ہماری منزل پریم نگر ،کوٹ رادھا کشن ، بھوئے آصل ، چھانگا مانگا ، واں کھارا اور پتوکی تھی ۔اس دوران گاڑی کی رفتار میں وہ بات نظر نہیں آئی جیسے پہلی ہوا کرتی تھی ۔بلکہ بے شمار جگہوں پر ریلوے لائن کے قریب گندگی کے ڈھیر دکھائی دیئے جو شاید مقامی انتظامیہ نے بطور خاص ٹرین پر سفر کرنے والوں کی تفریح طبع کے لیے جمع کررکھے تھے ۔ عام طور پر ریلوے ٹریک سے سڑک کا فاصلہ بیس پچیس میٹر دور ہی رہا لیکن کوٹ رادھا کشن اسٹیشن سے کچھ پہلے یہ فاصلہ کم ہوکر صرف چند فٹ رہ گیا۔یہ ٹریک کے بالکل نزدک تعمیرات ریلوے پولیس کی ہی مہربانی تھی ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ریلوے پولیس رشوت خوری اور ریلوے زمینوں پر ناجائز تجاوزات کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ریلوے پھاٹک ہوں یا ریلوے زمینیں ہر جگہ اگر قبضہ ہوتاہے تو ان کی چشم پوشی اور نااہلی کی وجہ سے ہی ہوتا ہے ۔ ان کی جیب اگر گرم کر دی جائے تو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ گاڑی چھانگامانگا جنگل کی حدود میں داخل ہوئی تو بیس پچیس کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ مشہور جنگل بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں تھا ۔ بہرکیف ٹھیک ساڑھے دس بجے خیبرمیل پتوکی کے پلیٹ فارم پر پہنچ گئی ۔
جیسے ہی ہم ٹرین سے اترے تو ٹف ٹائلوں والے پلیٹ فارم کو دیکھ کر دل خوش ہوگیا پھر یہاں لائن کراسنگ کے لیے جو پل بنایا گیا تھا اس کی حالت بھی قدرے ٹھیک ہی تھی ۔ یہاں ہمارے میزبان نوید مظفر صاحب تھے ۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ لے کر اسٹیشن سے باہر نکل آئے ۔پھر ہم ان کی کار میں سوار ہوکر گھر واقع فیصل کالونی پہنچے جہاں انہوں نے ہمارے لیے ناشتے کااہتمام کررکھاتھا ۔ ناشتے کے بعد ہمیں واں رادھا رام جانے کی جلدی تھی کیونکہ وہاں کے پرائمری سکول کے اساتذہ اور میرے پرانے وقتوں کے کلاس فیلو محمد حسین ہمارے منتظر تھے ۔میں نے فون کرکے انہیں اپنی آمد کے بارے میں پہلے سے آگاہ کررکھا تھاکہ میں اس سکول کو اندر سے دیکھنا چاہتا ہوں جہاں کبھی میں پہلی سے چوتھی جماعت تک پڑھتا رہا ہوں ۔
محمد حسین بار بار ہمیں موبائل پر کال کرکے جلد آنے کی تلقین کررہے تھے کہ سکول میں انتظار ہورہا ہے چھٹی ہونے سے پہلے پہنچ جائیں ۔ میرا یہ خیال تھا کہ بیگم کواپنے دوست ندیم کے گھر چھوڑ دوں گا اور میں خود واں رادھا رام چلا جاؤں گالیکن کوشش کے باوجود برادرم ندیم کا گھرہمیں نہیں مل سکا اس لیے مجبورا بیگم کو بھی اپنے ساتھ لے کر واں رادھا رام روانہ ہوگئے ۔ پتوکی شہر اپنی مثال اور خوبصورت شہر ہے یہاں کے لوگ بھی بااخلاق اور ملنسار ہیں ۔ کشادہ سڑکوں پر چلتے ہوئے ہم سہجووال کے قریب جاپہنچے جہاں دور دور تک پھولوں والے پودوں کی نرسریاں دکھائی دیں ۔ اگر پشاور سے لاہور تک ریلوے لائن کے ارد گرد خالی جگہ کو بھی نرسریوں کے لیے مخصوص کردیاجائے تو پاکستان پھولوں کی نہ صرف منڈی بن سکتا ہے بلکہ زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے ۔اسی طرح موٹروے اور جی ٹی کے ارد گرد بے شمار جگہیں خالی ہیں ان کو بھی پھولوں کی افزائش اور پیداوار کے لیے استعمال کیاجاسکتا ہے ۔ یہاں سے کچھ آگے بڑھے تو واں رادھا رام شہر کو جانیوالے پل دکھائی دیا۔ خوشی کی بات تو یہ تھی کہ یہ پل بالکل نئے ،خوبصورتی اور معیار کے حوالے سے بہت اچھے لگے ۔ جس جگہ یہ پل تعمیر ہوئے ۔1963ء میں میں اور میرے دو بڑے بھائی رمضان اور اکرم یہاں پھل اور سگریٹ بیچا کرتے تھے ۔بھائی پھل اور میں سگریٹ کاکھوکھا گلے میں ڈال کر سگریٹ فروخت کیاکرتا تھا ۔ اس وقت میری عمر بمشکل آٹھ نو سال ہوگی ۔ والد صاحب کی تنخواہ چونکہ بہت کم تھی اس لیے پیٹ بھرنے اور سکول کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہم تینوں بھائیوں کو بھی والد کا ہاتھ بٹانا پڑتا تھا۔ اس وقت سگریٹ کے معروف برانڈ کے ٹو ، ایمبسی ، ہتھوڑا اور قینچی ہواکرتے تھے ۔ جب ٹرین کی آمد کی وجہ سے پھاٹک بند ہوتا تو چھابڑی فروشوں کی موجیں ہوجاتی ۔ ایک بس ان دنوں ہم چھابڑی فروشوں کے لیے بہت اہمیت کی حامل تھی اس کانام "ہریانہ بس " تھاوہ کراچی سے پشاور تک چلتی تھی ۔ اکثر اوقات وہ شام ڈھلنے سے پہلے یہاں سے گزرتی تھی اس میں سوار مسافر بہت شاپنگ کرتے تھے ۔ہم اس بس کو دیکھ کر ہی گھر جاتے تھے ۔
..............
بہرکیف ہم جوں جوں شہر کی جانب بڑھ رہے تھے تو یادوں کے سلسلے دراز سے دراز ہوتے جارہے تھے ۔ شہر شروع ہونے سے پہلے ہی بائی پاس کا موڑ آگیالیکن پہلے ہر قسم کی ٹریفک شہر کے اندر سے ہوکر گزرتی تھی۔ جونہی بس شہر کے وسط میں رکتی تو پھل فروشوں کے آوازیں طوفان اٹھالیتیں ۔ ہم جب شہر میں داخل ہوئے تو قدرے بہتر سڑک ہمیں شہر کی جانب جاتی دکھائی دی ۔ اسی سڑک کے بائیں ہاتھ ایک آٹا پیسنے والی چکی ہوا کرتی تھی جس کے احاطے میں بیری کے چند درخت بھی موجود تھے ۔جب ہم سر پر گندم کا تھیلا اٹھا کر آٹا پیسانے کے لیے یہاں آتے تو بیر توڑنا نہ بھولتے ۔جو مزہ اپنے ہاتھوں سے بیر توڑ کر کھانے کا آتا تھا وہ اب کہاں ۔ بچپن بھی کیا چیز ہے انسان کوکبھی نہیں بھولتا ۔بطور خاص ایسے مقام پر جب مدت دراز کے بعد پہنچا جائے جہاں بچپن کے ماہ و سال گزرے ہوں تو وہاں کی ایک ایک چیز انمو ل اور پیاری لگتی ہے ۔کچھ یہی عالم میرا بھی تھا میں گردن گھماکر اردگر د کا ماحول دیکھ کر پرانے زمانے کی چیزیں تلاش کرنے کی جستجو کررہا تھا ۔ لیکن زمانہ کی رفتار نے سب کچھ آنکھوں سے اوجھل کردیا۔ جہاں پہلے کھیت اور کھلیان ہواکرتے تھے وہاں اب انسانی آبادی ہوچکی تھی ۔ ہمارے زمانے میں اس ویرانے میں ایک بوہڑ کا درخت بہت مشہور تھا۔ اس پر جنات کاسایہ تھا۔ کتنے ہی لوگوں نے اسے وہ بے ہوش ہوجاتا۔ایک شخص نے ہمت کرکے جب درخت پر کہلواڑا مارا تو درخت کے اس تنے سے خون کی دھار نکلی۔ جسے دیکھ کر و ہ شخص اپنے ہوش کھو بیٹھا ۔ اس کے بعد اس درخت کے نزدیک کوئی نہیں جاتا تھا ۔ میں بھی جب اسٹیشن سے ریلوے پھاٹک پر سگریٹ بیچنے کے لیے جاتا تو ریلوے لائن پر چلتا ہوا اس درخت کی جانب دیکھنا بھی گناہ سمجھتا کیونکہ مجھے بہت ڈر لگتا تھا ۔
بڑھتی ہوئی انسانی آبادی نے اس درخت کو بھی نگل لیا تھا ۔ چلتے چلتے ہم شہر کے وسط میں پہنچ گئے۔ جہاں پہلے بائیں جانب ملک عاشق کی پیلی حویلی ہواکرتی تھی جس کے ساتھ ایک بڑی مسجد نظر آتی ۔ پیلی حویلی کا وجود تو ختم ہوگیا لیکن مسجد اب بھی موجود تھی ۔واں رادھا رام کا ریل بازار سب سے پرانا اور تاریخی اہمیت کاحامل تھا۔ جہاں چھوٹی سی گلی کے اردوگرد مختلف نوعیت کی دکانیں سجی دکھائی دیتیں ۔ یہی پر چاچا موج دین کی دکان ہواکر تی تھی جہاں سے ہم سودا وغیرہ خریداکرتے ۔یہ بازار پہلے سے زیادہ خوبصورت اور اچھا دکھائی دے رہا تھا ۔ چونکہ ہم نوید مظفر صاحب کی گاڑی میں سوار تھے اس لیے ہم ریل بازار میں جانے کی بجائے سیدھے محمد حسین المعروف حسینی کے گھرجاپہنچے وہاں کار کھڑی کی ۔پہلے یہاں مالٹے اور سنگتروں کا باغ ہوا کرتا تھا جو واں رادھا رام اسٹیشن کے مشرقی پلیٹ فارم کے بالکل ساتھ واقع تھا ۔ اب باغ کی بجائے وہاں بھی مکان ہی مکان دکھائی دے رہے تھے ۔ میرے دوست محمد حسین نے اچھے وقتوں میں کوارٹروں سے نکال کر یہاں مکا ن بنا لیا ۔جس میں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے ۔ اﷲ تعالی نے اسے دو بیٹوں سے نوازا ہے ایک دوبئی میں ملازمت کررہا ہے اور دوسرا دوبئی جانے کے لیے پرتول رہا ہے ۔ گھر میں بچوں کی خوب رونق دکھائی دی۔ ہم یہاں سے پیدل ہی چلتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کی نئی عمارت میں جا پہنچے جہاں چند پولیس اہلکار دھوپ میں بیٹھے دکھائی دیئے ۔ تعارف ہوا تو پتہ چلاکہ اس عمارت میں چینی انجینئر ز جدید ترین سسٹم کی مشینری نصب کرنے میں مصروف ہیں اور یہ پولیس والے ان کو سیکورٹی فراہم کررہے ہیں ۔اس جدید سسٹم کی تنصیب کے بعد پاکستان ریلوے میں انقلابی اور حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی ۔
..................
جب میرے والد واں رادھا رام اسٹیشن پر کانٹے والا کی حیثیت سے تعینات تھے اس وقت ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن جانے والی ٹرین کو لائن کلیئر کا پیغام گولہ سسٹم کے ذریعے دیا جاتا تھا ۔ جو ٹرین رک کر چلتی اس کے فائر مین کو کانٹے والا خود جاکر گولہ پکڑا آتا اور جو ایکسپریس ٹرینیں رکے بغیر تھرو چلتیں ان کو گولہ پکڑانے کا اس وقت ایک منفرد طریقہ رائج تھا ۔ لوہے کا ایک رینگ اسٹیشن اور کیبن کے درمیان میں خالی جگہ پر نصب ہوتا۔ جہاں لوہے کی تار والے گول رینگ میں ایک چمڑے کا چھوٹا سا بکس ہوتا اس میں لائن کلیئر کا گولہ( جو اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کے دفتر میں نصب مشین سے نکلتا تھا ،)ڈال کر کانٹے والاہینگر کوپکڑ کر کھڑا ہوجاتا ۔انجن میں دو افراد موجودہوتے ایک ڈرائیور اور ایک فائر مین ۔ تیز رفتار سے چلتی ہوئی ایکسپریس ٹرین کا فائر مین ،انجن پر نصب لوہے کے راڈ کے ساتھ اس گولے کو اٹھالیتا اور اسٹیشن سے گزر کر اگلے اسٹیشن پر ریت کے کمپاؤنڈ پر پھینک دیتا ۔ اگر یہ گولہ اٹھانے میں ناکامی کا سامناکرنا پڑتا تو پھر ٹرین کو ہر حال میں اسٹیشن پر رکنا پڑتا ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن میرے والد محمددلشاد خان لودھی کی بطور کانٹے والا ڈیوٹی تھی تو لاہور سے ایک سپیشل ٹرین خانہ کعبہ کا غلاف لے کر کراچی جارہی تھی جہاں سے وہ غلاف بذریعہ بحری جہاز سعودی عرب روانہ کیا جانا تھا ۔ یہ دور فیلڈ مارشل محمدایوب خان کا تھا جبکہ شنید یہ ہے کہ غلاف کعبہ جماعت اسلامی کے پہلے امیر مولانا مودودی نے اپنی رہنمائی میں تیار کروایا تھا ۔ غلاف کعبہ کی زیارت کرنے کا شوق ہر شخص کے دل میں موجزن تھا ۔ اسپیشل ٹرین کو روک زیارت کرنے کے لیے واں رادھا رام شہر کے سارے لوگ ریلوے لائن کے اردگرد کھڑے ہوگئے۔لیکن ٹرین کی آمد و رفت کو کنٹرول کرنے والا ریلوے افسر (جس کو ریلوے کی زبان میں کنٹرولر کہاجاتاہے )، لاہور میں بیٹھا ہوا چیخ کر اسٹیشن ماسٹر کو حکم دے رہا تھاکہ یہ سپیشل ٹرین کسی بھی صورت واں رادھا رام اسٹیشن پر نہیں رکنی چاہیئے ۔ والد صاحب نے راز دارانہ لہجے میں کہہ دیا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اگر آپ کو غلاف کعبہ سے عقیدت ہے تو میرے دل میں بھی اس کے بارے میں بے حد احترام ہے ۔میں بھی چاہتاہوں کہ غلاف کعبہ کی زیارت کروں اور اس کا بوسہ لوں ۔ لائن کلیئر ہوچکا تھا، سگنل بھی ڈاؤن اور کانٹے سیٹ ہوچکے تھے،اب صرف سپیشل ٹرین کا انتظار تھا ۔ دور سے طوفانی رفتار سے آتی ہوئی ٹرین کو دیکھ کر والد صاحب نے لوہے کا ہینگز مضبوطی سے پکڑلیا اور اس لمحے کا انتظار کرنے لگے جب ٹرین کا فائر مین راڈ کی مدد سے وہ گولہ حاصل کرنے کے لیے جھکے ۔ جونہی انجن روبر و پہنچا اور فائر مین گولہ حاصل کرنے کے لیے جھکا تو والد صاحب نے ہینگر کا رخ تبدیل کردیا جس سے فائر مین گولہ اٹھانے میں کامیاب نہ ہوسکا اور حسب قانون گاڑی کو رکنا پڑا۔پورا شہر انجن اور بوگیوں پر ٹوٹ پڑا اور غلاف کعبہ کی زیارت کر لی ۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا اس وقت واں رادھا رام کااسٹیشن ماسٹر غصے میں لال پیلاہوکر دھاڑ رہا تھا کہ گاڑی کیوں رک گئی کس نے اسے روکنے کی جرات کی ۔ بعد میں بہت دنوں تک انکوائری چلتی رہی لیکن والد صاحب نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ گولہ اٹھانے میں تیزرفتاری کی وجہ سے فائر مین کامیاب نہیں ہوسکا ،اس میں کسی کا قصور نہیں ہے ۔
یہ واقعہ کئی عشرے پہلے ریلوے میں رائج گولہ سسٹم کی نشاندھی کرتا ہے ۔ لیکن سنا ہے اب گولہ سسٹم کی جگہ پر PLC سسٹم ( یعنی پیپر لائن کلیئر ) چل رہا ہے ۔ہر اسٹیشن پر PLC کی ایک کتاب موجودہے جب کوئی گاڑی ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن پر جانے لگتی ہے تو ایکسپریس ٹرین کے فائر مین کو پکڑانے کے لیے یہ کاغذ سٹک پر نصب کرلیا جاتاہے ۔ پسنجر گاڑیاں تو کب کی ختم ہوچکی ہیں ۔ایکسپریس ٹرینیں ہر اسٹیشن کی حدود میں پہنچ کر آہستہ ہوجاتی ہے تاکہ فائر مین آسانی سے PLC کی سلیپ پکڑ لے ۔ اگر یہ سلیپ نہ پکڑی جاسکے تو ایکسپریس ٹرین کو بھی اسٹیشن پر رکنا پڑتا ہے
............
اب چائنز انجینئر اسی سسٹم کی جگہ ایک ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے تحت کانٹے سیٹ کرنا ، سگنل ڈاؤن کرنے کا کام اب کیبن سے نہیں ہوگا بلکہ ہر اسٹیشن پر اے ایس ایم کے سامنے ایک بڑی سی LCD یعنی ٹی وی سکرین نصب ہوگی جس کو کمپیوٹر ماؤس کے ذریعے آپریٹ کیاجائے گا ۔ اس نئے سسٹم کے تحت اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر اپنے دفتر میں بیٹھ کر ہی ماؤس کی مدد سے کانٹے سیٹ کرکے سگنل بھی ڈاؤن کرلیاکرے گا ۔ اس طرح ہر اسٹیشن پر کیبنوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ بھاری بھرکم لیور کھینچنے کا عمل بھی انجام کو پہنچے گا ۔مزید برآں وائر لیس کے ذریعے اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کا براہ راست رابطہ ٹرین گارڈ اور ڈرائیور سے بھی ہوگااور کنٹرولر سے بھی ۔ جو LCD اسٹیشن پر نصب ہوگی اس پر ٹرینوں کی نقل و حرکت واضح طور پر دکھائی دے گی ۔
.................
میرے والد چونکہ کیبن مین کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں اس لیے مجھے اندازہ ہے کہ اسٹیشن سے دور کیبن پر سردیوں اور گرمیوں کے موسم میں کس قدر اذیت کا سامنا کیبن مین کو کرنا پڑتاہے ۔ اجاڑ بیانان میں بنی ہوئی کیبن بطور خاص رات کے وقت خوف کی علامت بن جاتی ۔ پھر چھوٹے اسٹیشنوں پر بجلی کی عدم موجودگی کی بنا پر دور دور تک اندھیرا چھایا ہوا ہوتا۔ جتناعرصہ ہم وہاں واں رادھارام اسٹیشن پر قیام پذیر رہے کبھی کیبن کے ارد گرد کھڑکیوں میں لگے ہوئے شیشے مکمل نہیں ہوئے ۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے خون جمادینے والی سردی میں جب جسم کو چیرتی ہوئی ٹھنڈی ہوا کیبن کی کھڑکی سے داخل ہوکر دوسری جانب نکلتی تو کیبن مین کی اس وقت حالت کیا ہوگی۔ اس کااندازہ یقینا وہی لگا سکتے ہیں جو سردیوں کی رات گھر سے باہرکھلے ماحول ڈیوٹی دیتے ہیں ۔ ریلوے کے افسران جو خوبصورت اور کشادہ بنگلوں کے چاروں اطراف سے بند بیڈ رومز کے گرم گرم لحاف میں سو رہے ہوتے ۔انہیں کبھی فرصت نہیں ملی کہ وہ کبھی اپنے ڈویژن کے ملازمین کی حالت زار اور وہاں ڈیوٹی کرنیوالے کیبن مینوں کے مسائل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ان کے ازالے کی کوشش کریں ۔
اے ٹی او صاحب کبھی دورے پر جاتے بھی تو پورا ڈویژن ہائی الرٹ ہوجاتا لیکن صاحب بہادر کو کبھی فرصت نہیں ملی کہ وہ اپنی سپیشل بوگی کی کھڑکی کے شیشے نیچے کرکے ملازمین کی حالت زار پر بھی نظر ڈال لیں ۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کلاس چہارم کے یہ ملازمین کس طرح انتہائی کم تنخواہ میں اپنا پیٹ بھرتے ہوں گے اور کس طرح اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہوں گے ۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار جب میں سکول پہنچا تو ہمارے سکول ماسٹر کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں ۔ بچوں میں چونکہ شرارت کرنے کا جذبہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے اس لیے میں جب چھٹی کرکے گھر پہنچا تو ماں کو بتایا کہ ماسٹر صاحب کی آنکھیں آج ایسے سوجھی ہوئی تھیں ۔ میری بات سن کر ماں نے مجھے ڈانٹا اور کہا بیٹا اچھے بچے بڑوں کی نقلیں نہیں اتارا کرتے ۔اس نقل اتارنے کا اثر یہ ہواکہ شام ہونے سے پہلے پہلے میری آنکھیں بھی اسی طرح سوجھ گئی جس طرح ماسٹر صاحب کی سوجھی تھیں ۔ چار بجے جب والد صاحب ڈیوٹی ختم کرکے گھر پہنچے تو اپنے لاڈلے کی آنکھیں سوجھی دیکھ کر بے قرار ہوگئے ۔ماں سے اس کی وجوہات پوچھیں تو والدہ نے صاف صاف بتا دیاکہ آپ کے لاڈلے نے ماسٹر صاحب کی نقل اتاری تھی اس لیے اﷲ تعالی کو اس کی یہ حرکت پسند نہیں آئی چنانچہ اس کی آنکھیں بھی قدرت نے ویسے ہی کردی ہیں جس طرح ماسٹر صاحب کی تھیں ۔ والد صاحب کو غصہ تو بہت آیا لیکن جلد ہی شفقت پدری غصے پر غالب آگئی ۔ ان دنوں واں رادھا رام میں کوئی ڈاکٹراور کوئی نیم حکیم بھی نہیں تھا چنانچہ سردیوں کی شام کے اندھیرے چار سو پھیلنے لگے اور والدصاحب مجھے اپنی آغوش میں لیے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر اس گاڑی کا انتظار کرنے لگے جو رینالہ خورد کی جانب جاتی تھی ۔ جس کا فاصلہ واں رادھا رام سے بیس پچیس میل تو ہوگا ۔ اسے ہم ریلوے لائن کے اردگرد قدرتی طورپر اگی ہوئی بیری کی جھاڑیوں کی مناسب سے میلیاں والا بھی کہاکرتے تھے کیونکہ ان قدرتی جھاڑیوں پر چھوٹے چھوٹے بیر لگاتے ۔جیب ہمیشہ ہماری خالی ہوتی اس لیے مفت کے بیر کھانے کے لیے کانٹوں کے درمیان میں ہاتھ ڈالنے سے بھی گریز کرتے ۔ اس کوشش میں کئی مرتبہ ہاتھ زخمی بھی ہوجاتے لیکن اس کی ہمیں پرواہ نہ تھی۔
جوں جوں رات کااندھیرا گہرا ہوتا جارہا تھا ویسے ہی سردی میں بھی اضافہ ہورہا تھا والدصاحب مجھے اپنی آغوش میں چھپا کر پلیٹ فارم کے ٹھنڈے بینچ پر بیٹھے تھے گاڑی آئی تو اس پر سوار ہوکر ہم رینالہ خورد جا پہنچے اب ہمیں اس نیم حکیم کی تلاش تھی جس کو میری آنکھیں چیک کروائی جانی تھیں ۔ حسن اتفاق سے جب ہم نیم حکیم کے پاس پہنچے تو وہ اپنی دکان بند کررہا تھا ۔والد صاحب نے منت سماجت کرکے اسے میری آنکھیں چیک کرکے دوائی دینے کی درخواست کی ۔ پہلے تو اس نے کل آنے کاکہہ کرانکار کردیا پھر جب اسے پتہ چلا کہ ہم واں رادھا رام سے آئے ہیں تو اس کے دل میں کچھ رحم آگیا ۔اس نے میری آنکھیں چیک کیں اور آنکھوں میں ڈالنے کے لیے دوائی ( یعنی دارو ) دے دیا ۔ یہ دوائی لے کر ہم ایک بار پھر رینالہ خورد کے اسٹیشن پر آ بیٹھے تاکہ کراچی سے لاہور جانیوالی گاڑی پر سفر ہوکر اپنے گھر پہنچیں ۔بہرکیف گھر پہنچتے پہنچے رات کے دس بج چکے تھے یہ وقت قصباتی شہر میں کس قدر خوف ناک اور اذیت ناک ہو تا ہے اور وہ بھی سردیوں کے موسم میں ۔ اس کا تصور کرکے ہی جھرجھری آجاتی ہے ۔ یادرہے کہ جب والد صاحب ریلوے سے ریٹائر ہوگئے اور آنکھوں کی بینائی بھی جاتی رہی تو میں انہیں اپنے ساتھ لے کر آپریشن کے لیے سروسز ہسپتال لاہور جاپہنچا وہاں آپریشن کے دوران جتنے دن بھی رات کو ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر سونے کاموقعہ آیا تو باقی بھائیوں نے دن کی ڈیوٹی سنبھال لی اور کوئی بھی رات کو ہسپتال ٹھہرنے کے لیے آمادہ نہ ہوا ۔ اس لمحے مجھے یاد تھا کہ والد صاحب نے میرے سکھ کے لیے کتنی سردیوں کی راتیں آنکھوں میں بسر کرلی تھیں ۔اس لیے سردیوں کی راتیں ہسپتال کے فرش پر لیٹ کر سونے کی ذمہ داری اور نگہداشت کا فریضہ میں نے بخوشی اداکیا ۔ایک بات ہمیشہ میرے ذہن میں نقش رہتی کہ والد اگر بھاری بھرکم کیبن پر لیور کھینچتے ہیں تو وہ صرف میرا پیٹ بھرنے اور میرے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں ۔ والد اگر شٹنگ پورٹر کی حیثیت دو بوگیوں کو آپس میں جوڑنے کا خطرناک ترین کام کرتے ہیں تو میرے لیے ہی کرتے ہیں ۔ جب بچے میں یہ احساس پیداہوجائے تو وہ والدین کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا ۔ وہیں ماں باپ جو اپنی جان پر کھیل کر بچوں کی پرورش کرتے ہیں ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب ان کو بچوں کی نگہداشت اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر بچوں کے دل میں اپنے بچپن کے واقعات نقش ہوں تو وہ بڑھاپے میں کبھی والدین کو تنہا اور بے سہارا نہیں چھوڑتے ۔ قدرت کا انسان کے لیے بہت بڑا سبق ہے ۔ کیونکہ بچوں کے رات دن کمانے والے ہاتھ سدا مضبوط اور توانا نہیں رہتے ۔وہ وقت بھی ضرورآتا ہے جس طرح بچپن میں بچوں کو انگلی پکڑکر زمین پر پاؤں رکھ کر چلنا سیکھاجاتا ہے اسی طرح بچوں کو بھی جوان ہوکر والدین کی دیکھ بھال اسی طرح کرنی پڑتی ہے ۔ سدا رہنے والی ذات صرف اﷲ کی ہے ۔ باقی سب کو زوال ہے ۔
....................
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ریلوے افسران ، چھوٹے اسٹیشنوں کے ملازمین کو انسان ہی نہیں سمجھتے ۔ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں ۔میرے والد کی تنخواہ اس وقت صرف 80 روپے تھی ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کس قدر مشکل سے زندہ رہنے کی جستجو کیا کرتے تھے ۔ مہینے میں صرف ایک مرتبہ اور وہ بھی تنخواہ والے دن گوشت پکتا تھا جو صرف ایک پاؤ ہوا ۔ جتنی بوٹیاں ملتیں وہ والد اور بڑے بھائی کے لیے ہی مخصوص ہوتی۔ ہمیں صرف گوشت کا شوربہ ہی ملتا جس میں ہم روٹی کے ٹکڑوں کو ڈبو ڈبو کر پیٹ بھر لیاکرتے تھے ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ماں سب سے آخر میں روٹی کھانے لگتی اور اس کے لیے سالن بھی نہ بچتا ۔وہ اکثرخالی ہانڈی میں روٹی کاٹکڑا لگا لگا کر پیٹ بھرلیا کرتی تھی ۔اس زمانے میں سالن بار بار پکانے کا رواج ہرگز نہیں تھا کیونکہ آگ جلنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔اس لیے ہم بھی اکثرایک ہاتھ میں پیاز تو دوسرے ہاتھ میں روٹی پکڑ کر کھانے لگتے ۔ کبھی عیاشی کودل کرتا تو گھی شکر ملالیتے ، وگرنہ مرچ اور نمک کو پانی میں ملاکر اسے بھی سالن کے طور پر استعمال کرلیتے ۔اس زمانے میں سکول کا یونیفارم ملیشیا کا ہوا کرتا تھا اس لیے سکول کی وردی میں ہی ہم ہفتہ گزار لیتے تھے ۔ اس وقت نہ زیادہ صابن خریدنے کی مالی استطاعت تھی اور نہ ہی پانی کی فراوانی ۔ ایک فرلانگ دور جاکر کنویں سے پانی نکال کر لاناپڑتا اور کنویں سے پانی نکالنے کا یہ کام صرف والد صاحب ہی کر سکتے تھے ، ہم میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کنویں سے پانی نکال سکیں ۔ ہمیں تو کنویں کے اندر جھانک کر بھی ڈر لگتا تھا ۔ کئی کئی ہفتے نہانے کے بغیر ہی گزر جاتے ۔ جب والد صاحب کو وقت ملتا تو وہ ہم سب بھائیوں کولے کر پلیٹ فارم سے ملحقہ کنویں کے پاس جاپہنچتے ۔پھر کنویں سے پانی نکال کر بار ی باری ہم سب کو نہلا کر گھر بھجواتے رہتے ۔ گھرپہنچ کر پہننے کو کپڑے ملتے ۔ یہ معمول گرمیوں کا تھا لیکن سردیوں میں تو اتنی سردی پڑتی تھی کہ کنویں کے ٹھنڈے پانی سے نہانا ناممکن تھا چنانچہ جب کالا اسٹیم انجن اسٹیشن پر آتا تو اس میں سے گرم پانی حاصل کرکے ہی سب غسل کرتے ۔ بے شک اس میں کئی کئی مہینے گزر جاتے۔
.............
تمہید کچھ طویل ہوگئی اور تصورات کی دنیا میں بہتا ہو اکہیں سے کہیں نکل گیا ۔ حقیقت میں واں رادھا رام کے اسٹیشن کی نئی عمارت میں کھڑا چائنز انجینئر کو کام کرتا ہوا دیکھ کر وہ وقت بھی یاد آرہا تھا جب 1967ء کے زمانے میں لاہور تا خانیوال الیکٹرک انجن اور اس حوالے سے ریلوے لائن کے اوپر بجلی کے تار بچھائے جارہے تھے ۔ اس وقت بھی کچھ انجینئرواں رادھا رام میں اسی طرح کا م کیا کرتے تھے ۔اسٹیشن سے ہم اس لیے جلدی سے نکل کھڑے ہوئے کہ ہمیں کوارٹر بھی دیکھنے تھے اور پھر اس سکول کا بھی دورہ کرنا تھا جہاں میں زمین پر بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا اسی سکول میں پہلی سے چوتھی جماعت تک پڑھنے کا اعزاز مجھے حاصل ہوا ۔ ریلوے کوارٹر جس میں والدین سمیت ہم سب بھائیوں نے زندگی کے چھ سال گزارے تھے ،وہ کوارٹر صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے ، ایک دو کوارٹر کا ملبہ نظر آیا باقی ہر طرف ویرانیوں کے ڈیرے تھے ۔ یہاں ایک مسجد کو دیکھ کر ضرور خوشی ہوئی جو ہمارے وقتوں میں اینٹوں کا ایک تھڑا ہواکرتا تھا اور میں اس تھڑے کی صفائی اس لیے کیاکرتاکہ مجھے گیا کہ یہ اﷲ کاگھر ہے۔ یہاں کچھ کینگ مین نماز بھی پڑھا کرتے تھے لیکن باضابطہ مسجد نہیں تھی ۔ پورے شہر میں صرف ایک ہی مسجد تھی اور وہ بھی مین بازار میں تھی جہاں صرف جمعہ کے دن یا عید کے دن ہی جایا جاتا تھا ۔اس تھڑے کے اوپر کیکر کے چند درخت بھی موجود تھے، جن کے پتے اس تھڑے پر گر جاتے جہاں ایک چھوٹی سی صف بھی رکھی ہوئی تھی جس پر نماز پڑھی جاتی۔ مجھے یادہے اسی تھڑے کے قریب درختوں کے نیچے بچے بچوں کی ایک شادی کا فنکشن بھی ارینج ہوا تھا ۔جس کا دولہا میں اور ایک چھوٹی سی لڑکی کو دلہن کا روپ دے کر بچوں کی بارات آئی اور چھوٹی سی دیگچی میں چاول بھی پکائے گئے ۔ بچپن کی وہ باتیں مسجد کو دیکھ کر خوب یاد آرہی تھیں ۔ نہ جانے وہ بچپن کی ننھی منی سی دلہن اب کہاں ہو گی اور وہ چھوٹے چھوٹے باراتی بھی نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ جب کہ دولہا بننے والاشخص بھی اب پوتوں کا دادا اور نواسوں کا نانا بن چکا ہے ۔
جب میں ماضی کے دریچوں میں لا محدود وادیوں میں غوطہ زن تھا ،اس لمحے میرے ساتھ میرا پرانے وقتوں کا کلاس فیلو محمد حسین ، ماسٹر طارق اور نوید مظفر اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر پتوکی بھی تھے ۔میں مٹی کے ان ڈھیروں میں اپنی یادوں کو تلاش کرتے ہوئے سکول کے دروازے پر جاپہنچا ۔ جہاں ایک نوعمر اور مستعد لڑکے نے پہلے ہمارا استقبال کیا پھر ہماری تلاشی لے کر سکول میں جانے کی اجازت دی ۔ اس کے باوجود کہ یہ سکول اب پختہ عمارت پر مشتمل ہے جس میں چاردیواری اور کلاس روم بھی خوبصورت عمارت کا روپ دھارچکے ہیں لیکن میری آنکھیں وہی بچپن والا پرانا منظر ابھرا تھا ۔ میں تصورات کی دنیا میں خودکو ایک درخت کے نیچے بچھے ہوئے ٹاٹ پر بیٹھا قلم دوات لے کر تختی لکھنے میں مصروف تھا ۔ماسٹر عزیز صاحب ایک کرسی پر قریب ہی بیٹھے ہوئے ہم سب کو غور رہے تھے ۔ہم اس خوف سے گردن بھی نہ اٹھاتے کہ کہیں ماسٹر صاحب کی ڈانٹ نہ پڑ جائے ۔ مجھے مغرب کی جانب وہ چھوٹی سی کچی مٹی کی دیوار بھی دکھائی دے رہی تھی جس کے اس پار میرے والد بطور خاص امتحان کے دن کھڑے ہوا کرتے تھے ۔ دیوار کے اس پار خربوزوں کے کھیت تھے جہاں آدھی چھٹی کے وقت ہم اپنے ہاتھوں سے خربوزے توڑ کر کھایا کرتے تھے ۔ جنوب کی جانب سکول کی چاردیواری میں برابر دو پختہ کمرے تھے جن میں سے ایک ہیڈ ماسٹر ابراہیم صاحب کے لیے مخصوص تھا تو دوسرے کمرے میں پانچویں جماعت کے طالب علم بیٹھاکرتے تھے ۔ ہیڈماسٹر ابراہیم صاحب کی شخصیت بہت ہی پروقار تھی وہ سر پر اونچے شملے والی پکڑی پہنا کرتے تھے جبکہ شلوار قمیض زیب تن رکھتے۔ ہم میں اتنی جرات نہیں ہوا کرتی تھی کہ ہم ان کے دفتر کے سامنے سے بھی گزر جائیں ۔ وہ ہمارے لیے سکول کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے ۔ان کا خوف ہر بچے کے ذہن میں موجود ہوتا ۔ جبکہ ماسٹر عزیز تو لمبے قد کے پتلے دبلے انسان تھے کچھ غصے میں ہوتے تو کبھی بہت نرم مزاج بن جاتے ۔ جس بچے کو سبق نہ آتا تو اس کے کان پکڑ کر مروڑنا شروع کردیتے ۔
میں تصورات کی دنیا سے اس وقت واپس آیا جب سکول کے موجود ہ ہیڈماسٹر معراج حسین خالد صاحب ، ماسٹر کاشف علی ، ماسٹرمحمد بخش جاوید ، ماسٹر محمدلطیف اور ماسٹر اﷲ وسایا کے ہمراہ سکول کے برآمدے میں ٹہلتے ہوئے میرے قریب آ پہنچے ۔ میں نے ادب سے سلام کیا جس پر انہوں نے بھی شفقت کااظہار کرتے ہوئے مصافحہ کیا ۔ چند منٹ تعارف میں لگے پھر ہم چلتے ہوئے چوتھی جماعت کے کلاس روم میں جا پہنچے ۔ یہاں کھڑے ہوکر میں نے بھی بچوں سے کچھ گفتگو کی پھر ہیڈ ماسٹر صاحب نے بچوں سے میرا تعارف کروایا ۔ بعد ازاں ہم ہیڈ ماسٹرصاحب کے کمرے میں موجودکرسیوں پر آبیٹھے ۔جہاں بطور خاص شفقت کامظاہرہ کرتے ہوئے ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہمارے لیے گاجر کا جوس منگوا لیا ۔جسے اعزاز سمجھ کرہم سب نے پیا اور اﷲ کا شکر بھی ادا کیاکہ جس سکول کی زمین پر بیٹھ کر ہم پڑھاکرتے تھے جس سکول میں ہمیں ایک تنکے کے برابر بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا ۔آج اسی سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کے روبرو رکھی ہوئی کرسی پر مجھے بیٹھنے کااعزاز حاصل ہورہاتھا یہ خوش قسمتی نہیں تو اور کیا ہے ۔
جب میں سکول میں کھڑا تھا تو مغرب کی جانب مجھے ایک مسجد کے مینار دکھائی دیئے ۔جو سکول سے ملحق تھی لیکن ہمارے وقتوں میں یہ سکول کا ہی حصہ ہوا کرتی تھی ۔ یہ وہی مسجد تھی جس میں سے مجھے پانی کے بے شمار بوکے نکالنے پڑے تھے ۔ قصہ کچھ یوں ہوا ۔کہ میرے بھائی محمداکرم لودھی ایک کتے کابچہ اپنے ساتھ رکھتا تھااس کو مختلف طریقوں سے شکار کرتربیت دیاکرتا تھا ایک دن وہ کتا لے کر مسجد میں پہنچا ۔ کتے کو دوسری جانب کھڑا کرکے خود مخالف سمت کھڑا ہوگیا پھر اس نے مخصوص آواز لگاکر کتے کو اپنے پاس آنے کا حکم دیا ۔ کتے نے چھلانگ لگائی لیکن وہ دوسری جانب نہ پہنچ سکااور کنویں کے اندر جاگرا ۔ اپنے کتے کو پانی میں ڈوبتے ہوئے دیکھ کر بھائی اکرم کو دیوانہ ہوگیا وہ( یہ دیکھے بغیر کہ اس کے وزن سے لج ٹوٹ بھی سکتی ہے ) کنویں پانی نکالنے والی لج (ایک مضبوط رسی ) کوپکڑ کر کنویں میں اترگیا ۔ڈوبتے ہوئے کتا جمپ لگا کر بھائی اکرم کو چمٹ گیا اور وہ انتہائی مشکل سے کنویں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا ۔ جب بھائی اکرم کنویں باہر نکلے تو چند نمازی ملحقہ آبادی سے نماز پڑھنے کے لیے آ پہنچے ۔انہوں نے مسجد کے کنویں سے انسان اور کتے کونکلتے دیکھا تو وہ سیخ پا ہوئے انہوں نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے بھائی اکرم کو پہلے ڈانٹا بھی حکم دیاکہ 150 بوکے پانی کنویں سے نکالو تب تمہیں گھر جانے کی اجازت ملے گی ۔ سردیوں کا موسم تھا بھائی اکرم کے کپڑے پانی سے بھیگ چکے تھے وہ سردی سے کانپ رہے تھے اس نے مجھے حکم دیا کہ تم یہاں کھڑے رہو میں گھر سے کپڑے تبدیل کرکے آتا ہوں پھر پانی نکال کر کنویں کو پاک کرتے ہیں ۔ مجھے زر ضمانت بیٹھا کر خود بھائی اکرم پہنچے کپڑے تبدیل کرکے دھوپ میں لیٹ کر سوگئے اور مجھے نمازیوں کو زر ضمانت کے طور پر پکڑ رکھا تھا ۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن ایک دو بوکے پانی نکال کر میری ہمت جواب دے گئی ۔ پھر ایک نیک سیرت بزرگ وہاں آپہنچا اس نے میری جان چھڑائی اور میں وہاں سے نجات پاکر گھر واپس آیا ۔جب میں ما ں کو ساری کہانی سنارہا تھا تو بھائی اکرم سکون کے ساتھ دھوپ میں چارپائی پر لیٹے سو رہے تھے اور چہیتا کتا ان کی چارپائی کے نیچے بیٹھا حفاظتی ڈیوٹی دے رہا تھا ۔
اس سرزمین سے بے شمار یادیں وابستہ ہیں لیکن اب بطور خاص اس شہر کا مغربی حصہ اپنا وجود کھوتا جارہا ہے ۔ مسجد کے قریب ہی ایک حکیم کی دکان نظر آئی جس پر جلی حروف میں لکھا تھاکہ یہاں موت کے علاوہ ہر بیماری کاعلاج ہوتا ہے ۔ میں نے تجسس کا اظہار کرتے ہوئے حکیم صاحب سے پوچھا تو اس نے بااعتماد طریقے سے بات کرتے ہوئے بتایا ہاں جی میں یہاں ہر بیماری کاعلاج کرسکتا ہوں ۔ واپسی پر ہمارے دائیں سب پلیٹیئر کی عظیم الشان کوٹھی تھی جس کے قریب جاتے ہوئے بھی ہم خوفزدہ ہوجایا کرتے تھے لیکن اب یہ وسیع و عریض کوٹھی بھی بھوت بنگلہ بن چکی ہے ۔اس کی ویرانیوں کے قصے دور سے ہی دکھائی دے رہے تھے ۔ اس بات کاعلم نہیں کہ ریلوے کی پراپرٹی کو برباد کرنے میں کس کس نااہل افسران کا ہاتھ ہے ۔ یہ ویرانیاں صرف حبیب آباد تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ لاہور سے حبیب آباد تک جتنے سے اسٹیشن نظر سے گزرے سب کے سب اپنے اوپر گزرنے والی قیامت خیز داستان کے امین دکھائی دیئے ۔
یہاں سے واپسی پر ہم چند لمحات کے لیے اپنے کلاس فیلو محمد حسین کے گھر ٹھہرے ان کے بچوں سے پیار کیا اور اجازت لے کر واپسی کی راہ کی ۔ پتوکی پہنچ کربرادرم نوید مظفر کے گھر دوپہر کاکھانا کھایا اور کچھ وقت کے لیے ہم برادرم ندیم کے گھر ٹھہرے ان کے والد مرحوم کے تعزیت کی اور ندیم بھائی کی عیادت کی جو ایک حادثے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے بھی معذور ہوچکے ہیں ۔جب ہم یہاں سے فارغ ہوکر لاہور کا قصد کرنے کا ارادہ کررہے تھے تو نوید ظفر نے بتایا کہ اب اگلی صبح ہی لاہور جانے والی ٹرین ملے گی بیگم کااصرار تھا کہ ہم بس کے ذریعے لاہور روانہ ہوجائیں لیکن میری خواہش تھی کہ ہوسکتا ہے یہ زندگی کا آخری سفر ہو ۔ اسے ہر حال میں ٹرین پر ہی کرنا چاہیئے کیونکہ ٹرین کا سفر حقیقتمیں ایک یاد گار سفر کہلاتاہے ۔چنانچہ رات نوید مظفر کے گھر قیام کیا جن کا چھ مرلے کا خوبصورت گھر اپنی مثال آپ تھا ۔ ہمیں وہاں رات بسر کرنے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔جس پر نوید مظفر کے لیے دل سے دعائیں نکلیں ۔ اگلی صبح ناشتہ کرنے کے بعد ہم لاہور روانگی کے لیے علامہ اقبال ایکسپریس کے منتظر تھے جو تین گھنٹے لیٹ تھی ۔جب ہم اسٹیشن پہنچے تو وہ بھی چھوٹ چکی تھی ۔ مجھے نوید مظفر نے بتایا کہ لاہور کینٹ میں کوئی بھی ایکسپریس ٹرین نہیں رکتی اس لیے آپ کولاہور ہی اترنا ہوگا ۔ لاہور سے کیسے ہم اپنے گھر پہنچیں گے اگر رکشے پر سفر کریں تو لاہور سے پتوکی کاکرایہ 130 تھا لیکن رکشے والے نے پانچ سو روپے مانگ لینے تھے ویگن میں مرغابن کر سفر کرنا اب اپنی توہین لگتا ہے اسی سوچوں میں گم تیزگام پتوکی کے پلیٹ فارم پر آپہنچی ۔بارہ بجے تیز گام پتوکی سے روانہ ہوئی اور تین بجے لاہور کینٹ اسٹیشن پر چندسیکنڈ کے لیے اتفاقا رک گئی ۔ موقع غنیمت جان کر ہم یہاں اتر گئے لیکن خواجہ سعد رفیق کو ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ لاہور مضافات کے رہنے والوں کے لیے بطور خاص کینٹ ، والٹن ،کوٹ لکھپت پر ہر ایکسپریس کو ضرور رکھنا چاہیئے ویسے بھی تو اب ٹرین کی وہ رفتار نہیں رہی جس کو ہم تیزگام کے نام سے پکاریں ۔ اب اگر اس ایکسپریس ٹرین کا نام تبدیل کرکے سست گام رکھ دیا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 658782 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.