سچائی اور ایمان داری :-

چوری والے واقعہ میں دونوں ہاتھوں والی بات درست نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنی بیٹی کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا دونوں ہاتھوں والی بات درست نہیں ہے -
اگر یہ بچوں کی غلطی ہے تو اور بات ہے اگر سکول کی کتابوں میں ایسا لکھا ہے تو قابل غور اور قابل توجہ بات ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنّم بنا لے فرمایا :
" جس نے جان بوجھ کر کوئی ایسی حدیث بیان کی جو مجھ سے ثابت نہیں وہ اپنا ٹھکانہ جہنّم بنا لے "

سچائی اور ایمان داری :-

انسان کو ہمیشہ سچ بولنا چاہیے- لوگوں کی امانتوں میں خیانت نہیں کرنی چاہیے- سچ بولنا اچھے لوگوں کی نشانی ہے- مومنوں کی صفت ہے -
اللہ تعالیٰ ہمیشہ سچ بولنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے-
اور وہ لوگ جو دوسروں کی امانتیں اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور واپس نہیں کرتے ان کے بارے میں بھی اللہ تعالی نے سخت عذاب کی وعید کی ہے -

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے

"امانت میں خیانت نہ کرو"

جب ہم کوئی برا کام کرتے ہیں تو اللہ پاک سب دیکھنے والا ہے اس کی سزا اللہ کے ہاتھ میں ہے -
اور اگر کوئی اچھا کام کرتے ہیں تو اس کی جزا بھی اللہ تعالیٰ ہمیں دیتا ہے -
ہمیشہ سچ بولو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " سچ میں برکت ہے" -
ایک موقع پر قریش کی عورت نے چوری کی تو جب اس کی چوری پکڑی گئی تو اس نے کہا کہ میں نے تو چوری کی ہی نہیں تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا - تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس کی جگہ میری بیٹی بھی ہوتی اور وہ چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سی امانتیں تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کہا کہ تم میرے بستر پر سو رہو تو صبح ہوتے ہی لوگوں کی امانتیں واپس کردینا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایمان داری کا پتہ چلتا ہے

سچ میں برکت :

ایک مرتبہ رستے میں گزرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی ملا تو اس کے پاس ایک گھوڑا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ سودا کر لیا تو آپ صلی ا؛للہ علیہ وسلم نے تم میرے ساتھ چلو میں تمھیں رقم وصول کر دیتا ہوں تو آپ آگے آگے چل رہے تھے تو گھوڑے کا مالک گھوڑا لے کر پیچھے پیچھے چل رہا تھا تو راستے میں ایک آدمی اس کو ملا تو اس نے اسے لالچ دیا تو کہا کہ تم یہ گھوڑا مجھے دے دوتو گھوڑے کا مالک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا کہ میں تو گھوڑا اس کو دینے لگا ہوں تم اس گھوڑے کا سودا میرے ساتھ کر چکے ہو تو وہ کہنے لگا کہ میں نے تو آپ سے سودا کیا ہی نہیں ہے میرا تو سودا اس آدمی کے ساتھ ہوا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تم تو جھوٹ بول رہے ہو تو مالک نے کہا اگر آپ سچے ہیں تو کوئی گواہ دیں آہستہ آہستہ لوگ وہاں جمع ہونا شروع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پروانہ جس کا نام عبداللہ بن حارث تھا وہ آگے بڑھا اور کہا کہ کیا ہوا ہے تو اس کے سامنے سارا ماجرہ بیان کیا گیا تو اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں انہوں نے سودا کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ میں نے سودا کیا ہے مگر تم اس وقت ہمارے ساتھ موجود نا تھے تو اس نے کہا کہ اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جی ہم نے آپ کی ہر بات مانی ہے ہم نے نہیں دیکھا کہ جنت اور دوزخ ہے مگر ہم نے مان لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرشتوں کے بارے میں فرمایا تو ہم نے بن دیکھے مان لیا ہم نے تو اللہ کو بھی نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ہم نے مان لیا -

ہم نے اتنی ساری باتیں بغیر دیکھے مان لیں ہیں اور ہمارا یقین ہے کہ آپ اس معاملے میں بھی جھوٹ نہیں بول رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بات اتنی پسند آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو گواہیوں کی ضرورت ہو تو وہاں میرا یہ ایک پروانہ ہی کافی ہے یعنی اس کی ایک گواہی بھی دو سے زیادہ قابل قبول ہے
آج سے میرے اس پروانے کی ایک گواہی دوآدمیوں کی گواہی کے برابر ہوگی تو یہ ہوتی ہے سچ میں برکت -
ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی ایسا ہی سچّائی والا اور ایمان دار بننے کی توفیق عطا فرمائے-
آمین

ایمان بانو کے قلم سے

تبصرہ :

چوری والے واقعہ میں دونوں ہاتھوں والی بات درست نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنی بیٹی کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا دونوں ہاتھوں والی بات درست نہیں ہے -
اگر یہ بچوں کی غلطی ہے تو اور بات ہے اگر سکول کی کتابوں میں ایسا لکھا ہے تو قابل غور اور قابل توجہ بات ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنّم بنا لے فرمایا :
" جس نے جان بوجھ کر کوئی ایسی حدیث بیان کی جو مجھ سے ثابت نہیں وہ اپنا ٹھکانہ جہنّم بنا لے "
گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کے لیے بد دعا فرمائی ہے -
ہمیں اس معاملہ میں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ والدین اگرچہ کافر بھی ہوں ان بھی بددعا اولاد کے حق میں قبول ہو جاتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مسلمانوں کے روحانی باپ ہیں اور پیغمبر رب الٰعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں -

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 125925 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.