سوشل میڈیا پر سائبر دہشتگردی……حکومت کہاں ہے؟

پچھلی ایک دہائی میں سوشل میڈیا نے پاکستان میں تیز رفتار ترقی کی ہے اور اب سوشل میڈیا پاکستانی معاشرے کی رگوں میں خون کی طرح سرایت کرچکا ہے۔ انٹرنیٹ سے تعلق رکھنے والا ہر شخص فیس بک، ٹوئٹر، لنکڈ اور دیگر بہت سی سوشل سائٹس سے جڑی دنیا کا باشندہ بن چکا ہے۔ جس طرح ہر چیزکے مثبت و منفی اثرات ہوتے ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا کے بھی دونوں قسم کے اثرات ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں، جو معاشرے میں نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔ مختلف جماعتوں، فرقوں، گروہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی اپنی لابیاں بنائی ہوئی ہیں، جن کا مقصد فریق مخالف کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا ہوتا ہے۔ متعدد معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور ججز کے نام سے آئی ڈیز سماجی رابطے کی سائٹس پر موجود ہیں، لیکن وہ شخصیات بار بار اس کی تردید کرچکی ہیں۔ سوشل میڈیا پر آپ کسی کے خلاف جو چاہے لکھیں۔ کسی کو گالی دیں، کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں،کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی ہماری حکومت نے ایسے افراد کی گرفت کے لیے کوئی قانون سازی کی ہے اور نہ ہی حکومتی ذمہ داروں نے کوئی ایسا فلٹریشن سسٹم لگایا جو اسلام مخالف، فحش اور دوسرے بیہودہ مواد کو روک سکے۔ سائبر وار فیئر، سائبرکرائم اور سائبر ٹیررازم جیسی اصطلاحات دنیا میں رائج ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے ہمارے یہاں کوئی جامع بات دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان میں قومی اسمبلی سے اگرچہ سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے بل منظور کیا جاچکا ہے، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی اور اس کے تحت تین ماہ سے 14سال قید اور پچاس ہزار سے لے کر پانچ کروڑ تک جرمانے کی سزا کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شایع کرنے اورخوف و ہراس پھیلانے والے کوپانچ کروڑتک جرمانہ اور 14سال کے لیے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے۔ اس قانون سازی کے اجرا سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں سائبر کرائم میں خاطر خواہ کمی آتی، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے، کیونکہ ہمارے یہاں قوانین بن تو جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

سوشل میڈیا کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ قانون کی کمزوری کی وجہ سے اسے ملحدین اور اسلام دشمن عناصر کی جانب سے شعائر اسلام، ناموس رسالت کی توہین اور مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں تشکیک میں مبتلا کرنے کے لیے بلاروک ٹوک استعمال کیا جارہا ہے۔ ذرایع کے مطابق ملحدین نے الحاد کی تبلیغ کے لیے مسلم دنیا کے لیے خصوصی انٹرنیٹ گروپس تشکیل دیے ہوئے ہیں۔ان گروپس کے لوگ گزشتہ آٹھ سال سے پاکستانی نیٹ ورک کی دنیا میں آزادی اظہار رائے کے نام پر اپنے مقاصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کی بلاگنگ کا مقصد شعائر اسلام کا مضحکہ اڑانا یا کم ازکم ان کے بارے میں شکوک پھیلانا ہے۔ انتہائی تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی نیٹ دنیا میں اکثر اسلام کے مسلمہ اصول و ارکان کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے والے لوگوں کے نام بدستور مسلمانوں والے ہیں اور خود کو مسلمان ظاہر کر کے یہ لوگ اﷲ کی شان میں گستاخی، اس کے کلام پر اعتراضات کی بھرمار، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کا مضحکہ اڑا کر اور جنت دوزخ اور دوسرے مغیبات کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلا کر علوم دین سے ناواقف مسلمانوں کو راہ راست سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔

کچھ عرصہ قبل فیس بک پر ’’بھینسا Bhensa ’’نامی شیطانی پیج جناب نبی کریم کی ذات اقدس، ازواج مطہرات اور شعائر اسلام کی گستاخی کا سلسلہ شروع کیا، جو کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف شہروں میں سوشل میڈیا پر توہین رسالت کے مرتکبین کی گرفتاری کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ علمائے کرام اور دینی رہنماؤں نے گستاخ بلاگرز کو شدید ترین سزائیں دینے اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، جس کی اساس اور بنیاد اسلام اور کلمہ طیبہ ہے۔ اس سنگین گستاخی پر حکومتی خاموشی اور غفلت، قانون کو عوام کے ہاتھ میں دینے کے مترادف ہے۔ ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر بھینسا نامی پیج اور اس کے علاوہ دیگر تمام گستاخانہ پیجز کے سبھی کرداروں کو گرفتار کرکے توہین رسالت ایکٹ کے تحت سخت سے سخت سزا دی جائے اور اسلام اور ریاست کے خلاف زہر اگلنے والے عناصر کی سر کوبی کرے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ فیس بک اور سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد اپلوڈ کرنے والے تمام اکاوئنٹس اور پیجز کی جانچ کرکے ان لوگوں کا پتا لگائے کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں، آیا یہ لوگ پاکستان میں ہی ہیں یا کسی دشمن ملک میں بیٹھ کر پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اسی قسم کے لوگ شیعہ سنی کے نام سے پیجز بنا کر ان سے ایک دوسرے کے مخالف پوسٹنگ کرتے ہیں اور اپنے جعلی پیجز سے دیگر فرقوں اور مذاہب کے خلاف پوسٹنگ کر کے ایک دوسرے کو آپس میں لڑاتے ہیں۔ ان کی روک تھام ضروری ہے۔ اگر ان کو نکیل نہ ڈالی گئی تو خدانخواستہ یہ لوگ پورے معاشرے کو فساد اور انتشار کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔

تعزیرات پاکستان میں ایک آئینی شق 295 سی (295?c)کو قانون توہین رسالت کہا جاتا ہے۔اس کے تحت ‘‘پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت/پیشکش،یا انکے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ سٹیٹمنٹ دینا جس سے ان کے بارے میں بْرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو، یا ان کو نقصان دینے والا تاثر ہو، یا ان کے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا، ان سب کی سزا عمر قید یاموت اور ساتھ میں جرمانہ بھی ہوگا۔ ’’ فیس بک پر جعلی اکاؤنٹ بنا کر شعائر اسلام اور شان رسالت کی توہین کا جو گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے،اس سے ہر مسلمان رنجیدہ ہے۔ ایسی حرکات کرنے والوں کی گرفت کرنا حکومت، متعلقہ اداروں اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ متعلقہ ادارے، ایف آئی اے وغیرہ آسانی سے ان کی شناخت کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس بہت بڑا سسٹم ہے، وہ چاہیں تو ایسے لوگوں کو آسانی سے پکڑ سکتے ہیں۔ قانونی ماہرین کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر توہین رسالت کا حالیہ واقعہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اگر کوئی شخص گستاخی پر مبنی کوئی پوسٹ آگے شیئر کرتا ہے تو اس کے لیے بھی بہت سخت سزا ہے اور اگر کوئی شخص خود توہین رسالت پر مبنی پوسٹ لکھتا ہے یا تبصرہ کرتا ہے تو اس کی سزا تو اس سے بھی سخت ہے جو صرف اور صرف پھانسی ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں، اگر ان پر عمل ہو تو مجرمین عبرت کا نشان بن جائیں۔ اگر کوئی بھی شخص مکمل ثبوتوں کے ساتھ متعلقہ ادارے کو درخواست دے تو وہ ادارہ کارروائی کرتا ہے۔یہ بات بھی واضح رہے کہ کوئی بھی شخص جعلی اکاؤنٹ بناتا ہے تو اس کو پکڑنا انتہائی آسان ہے، کیونکہ کوئی بھی شخص نیٹ استعمال کر تا ہے تو جس موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ سے استعمال کر رہا ہے، اس کنیکشن کا ایک نمبر ہوتا ہے، ایک آئی پی نمبر ہوتا ہے، جس کی مدد سے جعلی اکاؤنٹ والے کسی بھی شخص کو پکڑنا انتہائی آسان کام ہے۔

اس حوالے سے ناموسِ رسالت اور عظمت رسول کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے احکامات و ریمارکس نے نہ صرف پاکستان کے 20 کروڑ عوام، بلکہ دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دینی و ایمانی جذبات کی درست ترجمانی کی ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کو روکنے کے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کے ایک کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس صدیقی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم جیسی مقدس شخصیات کی توہین کا جرم کیا گیا ہے، یہ دہشت گردی کی بد ترین قسم ہے۔ جسٹس صدیقی نے کہا ہے کہ بحیثیت مسلمان گستاخانہ مواد کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر ہم نے محسن انسانیت کی شان میں گستاخی نہ روکی تو اس کے خلاف شدید عوامی ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔ انہوں نے اس گستاخانہ مواد کے ذمہ داروں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم بھی جاری کیا۔ دریں اثنا وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سوشل میڈیا آزادی اظہار رائے نہیں، جھوٹ کی آزادی کے تحت کام کر رہا ہے۔ مغرب کو اندازہ ہو یا نہ ہو، مگر پاکستان میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور دانشوروں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ حرمت رسول کے بارے میں عامۃ المسلمین کے کیا جذبات ہیں اور جب کبھی کسی نے ان جذبات سے کھیلنے کی جسارت کی تو اس کے خلاف شدید ردعمل ہوا ہے۔ نہ صرف اسلام، بلکہ ہر عقیدے اور مذہب کی مقدس ہستیوں کا احترام ہم سب پر واجب ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان نے کہا ہے کہ حکومت انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا ویب سائٹس پر گستاخانہ مواد کو موثر طور پر بلاک کرنے کے سلسلہ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی اور ایسی تمام سوشل میڈیا ویب سائٹس جو اس سلسلہ میں تعاون سے انکار کریں گی، ان کو مستقل طور پر بلاک کرنے سمیت کسی بھی حد تک جائیں گے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے گستاخانہ مواد پھیلانے کی اجازت ہر گز نہیں دی جائے گی، جس سے پاکستان کے عوام کے مذہبی جذبات مجروح ہوں۔

واضح رہے کہ اگست 2012ء میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور پاکستان کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی حکومت نے پالیسی ہدایت نامہ جاری کیا تھا، جس کے تحت پاکستان میں انٹرنیٹ سے توہین آمیز اور فحش مواد بلاک کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، لیکن اس ہدایت پر عمل چار سال گزرنے کے بعد بھی نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں جاری کیے گئے ہدایت نامے میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں انٹرنیٹ پر کھلے عام توہین آمیز اور فحش مواد کی موجودگی اسلام کی بنیادی تعلیمات، قراردادِ مقاصد اور ساتھ ہی آئین کے آرٹیکل 19 اور 31 کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں میں کئی درخوا ستیں دائر کی گئی ہیں، جن میں عدالتوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس مسئلے کو موثر انداز سے حل کرے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ توہین آمیز اور فحش مواد کی روک تھام کے لیے مانیٹرنگ کا موثر نظام وضع کیا جائے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار کی آزادی کا حق مجروح نہیں ہونا چاہیے، بشرطیکہ یہ پابندی اسلام کے وقار کے تحفظ اور اس کے مفاد کی خاطر عاید کی گئی ہو۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت پی ٹی اے کو ہدایت دیتی ہے کہ توہین آمیز اور فحش مواد کی روک تھام کے لیے ایک مخصوص یونٹ قائم کیا جائے، اس کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں اور ضروری افرادی قوت کو مقرر کیا جائے، جدید ترین آلات، کال سینٹرز اور ضروری اقدامات کیے جائیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسا کوئی بھی نظام وضع یا نصب نہ کیا جائے، جو شہریوں کے قراردادِ مقاصد میں وضع کردہ اختیارات یا آئین کے آرٹیکل 19 اور 31 کے منافی ہو، کوئی بھی اس نظام کو اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر استعمال نہ کرسکے۔ اسی دوران پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے حکام کا کہنا ہے کہ ادارہ اپنے دستیاب وسائل اور محدود اختیارات کے ساتھ پوری کوشش کر رہا ہے کہ موثر انداز سے انٹرنیٹ پر توہین آمیز مواد روکا جا سکے، حکومت کو اس عمل میں ملوث افراد کو گرفتار کرکے سزائیں دینا ہوں گی، تاکہ انہیں دوسروں کے لیے عبرت کا مقام بنایا جا سکے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 629942 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.