’ پونم ‘اور اس کا شاعربشیر شادؔ

’پونم‘اردو کے معروف شاعر بشیر شادؔ کا تیسرا شعری مجموعہ ہے ۔ پہلا ’قوسِ قزح‘، دوسرا ’ شفق‘تھا۔ یکے بعد دیگرے ان دونوں مجموعوں کی تخلیق کا سفر شاعر کو ’پونم‘ کی جانب کھینچ لایا۔ پونم سے مراد چودھویں کے چاند کی شب ہے۔ یہ وہی شب ہوتی ہے جب چاند اپنے شباب کی حدود کو چھورہا ہوتا ہے، آسمان پر ستارے جگ مگا رہے ہوتے ہیں جیسے آسمان پر قوس و قزح رقصاں ہو۔ یہ چودھویں کا چاند اپنی آب و تاب سے زمین ہی کو نہیں بلکہ پورے عالم کو منورکیے ہوئے ہوتا ہے، سمندر میں تغیانی کا سما ہوتا ہے ،سمندری لہریں جوشیلے انداز میں چاند کی چاندنی سے اٹکھیلیاں کررہی ہوتی ہیں۔شاعر نے پونم کے حوالے سے ہندو رسم و رواج کے مطابق پونم اپواس کی شب یعنی ان کے روزہ کھولنے کی رات بتا یاہے۔ چودھویں کے چاند کو پورا چاند بھی کہا جاتا ہے۔ قمری مہینوں کی ہر چودہ(14 )تاریخ کوچاند اپنی ہیئت یعنی شکل و صورت جو ہمیں نظر آرہی ہوتی ہے کے اعتبار سے مکمل گولائی میں ہوتا ہے اور عام دنوں کے مقابلے میں اس کی چمک دمک، روشنی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ چودہ تاریخ کے بعد چاند کی روشنی اور چمک آہستہ آہستہ مدھم ہوتی چلی جاتی ہے۔یکم سے چاند پھر سے رفتہ رفتہ چادھویں کی جانب سفر کرتا ہے اس کی روشنی و چمک اسی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے اور اسلامی مہینے کے عین وسط یعنی چودہ تاریخ کو چاند جوبن پر ہوتا ہے۔ ہندو ہی کیا پوری دنیا میں چودھویں کے چاند کو اہمیت حاصل ہے، کائینات کے زرہ زرہ چودھویں کے چاند کی چمک سے فیض یاب ہوتا ہے ۔اس شب سورج کے غروب ہوتے ہی چاند کی رعنائیاں کائینات پر بکھر نے لگتی ہیں۔المختصر چودھویں کے چاند کی چمک دمک، حسن و خوبصورتی، رعنائی وحسن پونم ہے۔ اردو کے معروف شاعر شکیل بدایونی کا مشہور شعر ؂
چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو

ابن انشاء نے چودھویں کی شب کے حوالے یہ خوبصورت شعر کہا تھا ؂
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ ترا

’پونم‘کے شاعر اور’ پونم‘ تک میری رسائی کیسے ہوئی اس کا حال بیان کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ پونم کا شاعر جو بنیادی طور پر ہے تو پاکستانی لیکن مجھ سے ہزاروں میل دور ’یونان ‘ کا باشندہ ہے ۔ جیسے ہم کسی گرین کارڈ رکھنے والے کو پاکستانی انگریز کہا کرتے ہیں اسی طرح پونم کا شاعربشیر شادؔ جو اب میرا ادبی دوست بن چکا ہے ’پاکستانی یونانی ‘ہے۔ جس لمحے میرے اس ادبی دوست نے مجھے یہ بتا یا کہ وہ یونان کا شہری ہے ، اُس لمحے مجھے حیرت نہیں ہوئی اس لیے کہ میں یونان کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکاہوں بلکہ یونان کے بارے میں اپنے کئی مضامین میں یونان کی علمی و ادبی ترقی ، تصانیف و تالیفات کے بارے میں لکھ بھی چکا ہوں۔ یونان وہی سرزمین ہے کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ’ موجودہ جدید ترقی اہل یونان کی مرہون منت ہے‘۔ اہل یونان نے علم کو جمع اورمحفوظ کرنے ، قدیم زبانوں کی کتب کے تراجم کرنے میں جو کام کیا دنیا اُس سے آج بھی فیض یاب ہورہی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے شاعروں، ادیبوں، فلسفیوں نے یونان کی سرزمین پر جنم لیا۔ اسکندریہ لائبریری و میوزیم، اس میں جمع شدہ علمی مواد پیپائرس پر تھا، اس کی تعداد دو سے سات لاکھ بتائی جاتی ہے ، لائبریری کی کتب کی فہرست ’پینکس‘ کے نام سے کیلی مارکس نے مرتب کی تھی۔ اس علمی ادارے کے قیام سے یونان میں کتب کی تدوین و اشاعت کو فروغ حاصل ہوا۔ یونانی فلسفی و عالم ارسطو ، افلاطون ، کیلی مارکس، گیلن الغرض یونان اور یونانی تہذیب دنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے ہے۔آج یونان کا کیا حال ہے وہ تو میرا یہ ادبی دوست ہی بہتر جانتا ہوگا۔یقیناًیونان میں بھی تبدیلی و تغیر آیا ہوگا۔ یہاں بس اتنا ہی، باقی آئندہ۔ اس موضوع پر میرا ایک مضمون بعنوان ’اسکندیہ لائبریری اور اس کی تباہی و بربادی‘اردو ویب سائٹ ’ہماری ویب ‘‘پر موجود ہے جس کا یو آر ایل : https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=65253&type=textہے۔1975میں ایک کتاب بعنوان ’کتب خانے تاریخ کی روشنی میں‘‘ لکھی تھی اس میں یونان اور وہاں پر علمی و ادبی ترقی کا تفصیلی ذکر ہے۔یہ کتاب دراصل میرے تصنیفی سفر کا نقطہ آغاز کہی جاسکتی ہے۔

ہر وہ لکھنے والا جس نے کمپیوٹر بادشاہ اور ملکہ عالم انٹر نیٹ سے دوستی کر لی ہے گویا اس نے اپنے دوستوں کا دائرہ دنیا کے کونے کونے تک وسیع کر لیا ہے۔چنانچہ پونم کے شاعر بشیر شادؔ سے ہماری دوستی کی بنیاد یہی ملکہ انٹر نیٹ ٹہریں۔ فیس بک سے بات شروع ہوئی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے ہم مزاج، ہم پیشہ و مشرب، سوچ میں مطابقت رکھنے والے کی جانب تیزی سے بڑھتا ہے۔اسی جذبے کے پیش نظر ہم دونوں نہ صرف فیس بک فرینڈز ہوئے بلکہ شاد ؔ صاحب نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ادبی دوستی کی پیش کش کی جسے میں نے خوش دلی سے تین مرتبہ قبول ہے ، قبول ہے، قبول ہے کہہ کر قبول کر لیا۔ اب ہم نے ان پر اور انہوں نے ہم پر علمی ، ادبی،تصنیفی و تالیفی اور شاعرانہ کاوشیں آشکار کیں۔ ہم واقعتا ہم مزاج، ہم پیشہ، علمی و ادبی سرگرمیوں کے اعتبار سے ہم سفر ہی نہ تھے بلکہ عمر کے اعتبار سے بھی ہم دونوں’ہم عمر‘ ہیں یعنی وہ 10اکتوبر 1947کو دنیا میں وارد ہوئے اور میری آمد پنجاب کے شہر میلسی (ملتان) میں25مارچ1948کو ہوئی ، گویا شادؔ صاحب مجھ سے کوئی چھ ماہ بڑے ہوئے ، علمی، ادبی اور شعر وسخن میں ان کا قد اور بھی بلند ہے۔ شاعری میں انہیں آمد ہوتی ہے ، ہم شعر اپنی ضرورت کے
لیے گڑھتے ہیں ، صورت حال کچھ اس قسم کی ہے ؂
شاعری کی الف بے سے کہاں واقف ہوں میں
فقط لفظوں کی بندش سے شعر کہہ لیتا ہوں میں

بشیر شادؔ تیرا برس کی عمر سے مشق سخن کی وادیوں میں سفر کر رہے ہیں۔ان کی شاعری اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ انہوں نے شاعری کو کبھی سود و زیاں کا کھیل نہیں سمجھا بلکہ زمینی حقائق اور سچائی کو اپنی سوچ سے جہاں تک ممکن ہوا پیش کیا۔ اُن کی شاعری میں ایک خاص قسم کا رکھ رکھاؤ اور نظم و ضبط پایا جاتا ہ ہے اور محاسنِ کلام کی جو خوبی نظر آتی ہے وہ شاعری میں ان کے کہنا مشق اور مشتاقی کی دلیل ہے۔ بشیر شادؔ نہ صرف ایک کہنا مشق شاعر ہیں بلکہ اردو زبان سے محبت ،عشق، چاہت اور اس کے فروغ و ترقی کے لیے وہ دن رات سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے جدید ایجادات کا سہارا لیا ۔کمپیوٹر، نیٹ، ویب سائٹ، بلاگ وغیرہ کی مدد سے وہ اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے جو کا وشیں کر رہے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔انہوں نے از خود تحریر فرمایا ہے کہ شاعری کی جانب میلان کی وجہ ’’حسن ‘‘ ہے ۔ گویا شادؔ حسن کا شاعر ہے اور کائینات کے ذرے ذرے میں حسن ہے۔ وہ حسن جس کا خالق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔اسی حسن کو شاعر حسین و خوبصورت الفاظ کی لڑی میں پرو کر اپنے خیال کا اظہار کرتا ہے یعنی اس کا یہ عمل شاعری کہلاتا ہے۔بشیرشادؔ کی شاعری میں محاورات کی خوبی، زبان میں سادگی اور روانی پائی جاتی ہے۔ زبان و بیان میں دھیماپن، نرمی ، سادگی اور روانی کا احساس نمایا ہے۔شادؔ کی غزلوں کے چمن زار میں داخل ہوتے ہی اندازہ ہوجاتا کہ یہ کس قدر حسین اور پختہ گو شاعر ہے ۔

بشیر شادؔ کا تعلق بنیادی طور پر پنجاب کے زمیندار خاندان سے ہے، پڑھاکو ہونے کے ساتھ ساتھ ذہین بھی، میٹرک نمایاحیثیت سے کیا، پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹر ز کی ڈگری لی، بائیوکیمک ڈاکٹر بھی ہیں۔ ابتدا میں وزارت خارجہ میں ملازمت کی، دس سال بنک الجزیرہ اور بن سعودی الفرانسیسی میں پی آر او اور کنٹرلر رہے۔ سیاحت مزاج کا حصہ تھی ، سالوں پہلے ملکوں ملکوں گھومتے ہوئے یونان پہنچے ، بقول ان کے وہاں ان کا تمام تر سامان چوری ہوگیا، اب بندہ کرتا بھی تو کیا ، یونان ہی کو اپنا مسکن بنا یا اور وہیں کے ہورہے۔ یو کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ موصوف نے یونان کا انتخاب نہیں کیا بلکہ یونان کی مٹی نے انہیں مجبور کر دیا کہ یہ یونان کی قدیم تہذیب کے آثارو ں میں اپنی بقیہ زندگی علم و ادب کی خدمات کرنے میں گزاریں۔ اردو سے تعلق رکھنے والے بہت سے احباب جو اردو کا دیا کھاتے ہیں انہوں نے اردو کے لیے کچھ نہیں کیا جو کچھ بشیر شاد دیار غیر میں رہتے ہوئے اردو کی ترقی اور فروغ کے غم میں اسمارٹ سے اسمارٹ تر ہوتے جارہے ہیں۔ یہ شاعر ہی نہیں بلکہ افسانہ نگار بھی ہیں اور کہانی نویس بھی، فیچر رائیٹر بھی ہیں اور انٹر ویو لینے کے ماہر بھی، یہ جتنا اچھا لکھتے ہیں اس سے اچھا بولتے بھی ہیں ، میں نے تو ان کی آواز کا جادوں موبائل پر محسوس کیا، یہ ریڈیوں کے پروڈیوسر بھی رہے ٹی وی اینکر بھی۔ ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں اور خوبیوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ بے شمار کتابیں تخلیق کر چکے ہیں۔ جن کی تفصیل میں جانا یہاں مناسب نہیں ۔ یہاں مقصد ان کے تیسرے شعری مجموعے ’پونم‘ کے حوالے سے گفتگو کرنا ہے ، بات کہیں سے کہیں چلی گئی اور جانی بھی چاہیے تھے۔ آج ہی میں ایک کتاب مولانا عبد الرحمٰن مظاہری صاحب کی ’’امام اعظم ابو حنیفہ ؒ ۔ حیات و خدمات‘‘ پڑھ رہا تھا یہ کتاب ربانی بک ڈپو دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھارت کی تصانیف اول تو ملتی نہیں اور ملتی بھی ہیں تو ان کی قیمت کئی گنا وصول کرتے ہیں۔ اس کتاب میں ایک جملہ پڑھا ، اُس وقت یہ خیال آیا کہ یہ جملہ شادؔ صاحب کی کتاب کے مطالعہ میں لکھوں گا۔ وہ یہ کہ ’’ کتاب تو بعد میں آتی ہے صاحب کتاب (مؤلف) پہلے آتا ہے‘‘۔ بات بالکل درست ہے کہ کسی بھی تخلیق کے بارے میں کچھ کہنے یا لکھنے سے پہلے اس کے خالق کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا ضروری امر ہونا چاہیے تاکہ تخلیق کار کی تخلیق کا اس کی شخصیت کے حوالے سے اندازہ لگا یا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ’پونم‘ پر قلم اٹھانے سے قبل پونم کے شاعر کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت کی ہے۔

9 مارچ 2017 کو مجھے عمرہ کے لیے کراچی سے سعودی عرب روانہ ہونا تھا۔ بشیرشاد ؔ کے کرم فرما فیصل قریشی صاحب نے مجھے بارہ گھنٹے قبل ’پونم‘ میرے گھر پہنچائی ۔ ان کی اس زحمت کے باعث ہی میں اس قابل ہوسکا کہ اس کا مطالعہ کروں اور سعودی عرب میں اپنے مختصر قیام کے دوران اپنے ادبی دوست کی اس تخلیق کا پوسٹ مارٹم کرنے کی کوشش کروں۔ یہ میرا معمول ہے کہ میں جب بھی لمبے سفر پر جاتا ہوں تو میرا لیپ ٹاپ ساتھ ہوتا ہے، اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے وقت کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے میں بھی استعمال کر لیا کرتا ہوں ۔ میری بے شمار تحریریں سعودی عرب میں قیام کے دوران ہی لکھی گئیں۔ پونم کیا ہے؟ اس کی تشریح اوپر بیان کی جاچکی۔ پونم 124 صفحات پر مشتمل شاعری کا مجموعہ ہے ۔پونم کا ٹائیٹل پونم کے معنی و شرح کے اعتبار سے ڈیزائن کیا گیا ہے جو پر کشش ہے ۔ حسُن ،پورے چاند اور اس کی روشنی و کشش کی جانب بال کھولے کھنچا چلا جارہا ہے۔سیاہ بیک گراؤنڈ پر سفید رنگ سے لکھا لفظ’ پونم‘ کے شاعرانہ حسن میں اضافے کا باعث ہے۔ پیش لفظ شاعر کا تحریرکردہ ہے۔ جس میں کچھ شاعری کے بارے میں ، اپنی تصانیف و تالیفات کے بارے میں اور اپنے مستقبل کے کارناموں کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ مستقبل قریب میں کون کون سے تصانیف میدان میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔غزلوں ، نظموں کی تعداد92 ہے۔ ہر صفحہ پر ایک کاوش ہے۔ آغاز حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول سے ہوا ہے۔ پونم میں شامل غزلوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر غزل اور نظم کسی نہ کسی عنوان سے کہی گئی ہے۔ ایک خصوصیات یہ بھی پونم کی ہے کہ اس میں جو نظم یا غزل جس تاریخ کو اور جس مقام پر وارد ہوئی اس کی تفصیل اسی صفحے کے نیچے درج کردی گئی ہے۔بعض شعری مجموعوں میں ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ شاعر نے اپنا کلام جس مشاعرے میں سنایا اور وہ مشاعرہ جس بڑے شاعر کی صدارت میں منعقد ہوا وہ تاریخ، جگہ اور صدر مشاعرہ کانام نیچے درج کر دیا جاتا ہے۔پونم میں شامل ایک غزل ’خواب‘کے نیچے درج ہے ’سفر لاہور ۔ راولپنڈی یکم فروری 1989 ‘، اس غزل کا پہلا شعر دیکھئے ؂
دل لگا کے دیکھا ، باغ باغ تھا
آنکھوں سے ہوا اوجھل تو تار تار تھا

بشیر شا دؔ کم عمری ہی میں شعر کہنے لگے تھے۔ خاندانی روایات ، شعراء کی صحبت ، استاد کی نظر عنایت نے شادؔ کی شاعری میں نکھار پیدا کردیا ۔ وہ حقیقت اور سچائی کے شاعر ہیں،ان کی شاعری میں رکھاؤ اور نظم و ضبط اور محاسنِ کلام کا معیارصاف پڑھا جاسکتا ہے۔ وہ صرف ایک کہنا مشق شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ اردو زبان سے محبت ، چاہت ان کے کلام سے صاف عیاں ہے۔ شاد ؔ کی شاعری میں حسن ہے، درد ہے، میٹھاس ہے، اچھوتا پن ہے۔ سوز وگداز، درد مندی، غم والم، حسن و جمال، احساساتِ حسن، تشبیہات، شفتگی و ترنم،خلوص، سادگی، صداقت، خطابیہ انداز پایا جاتا ہے۔حجاب کے حوالے سے ایک شعر ملاحظہ کیجیے ؂
حجاب میں بکھرا تبسم جی ہمیں سب یاد ہے
زخم دے کر پوچھتے ہو کیوں دل برباد ہے
کس زمانے کی بات کرتے ہو
کیوں ستانے کی بات کرتے ہو
دل ہے اپنا ، بجھا بجھا سا
تم مسکرانے کی بات کرتے ہو
میری آرزو ، لہو لہو کر کے
تم جانے کی بات کرتے ہو

غالبؔ نے ناسخؔ کے لیے کہا تھا کہ وہ ایک فنے ہیں (یعنی غزل گو ئی پر قا در تھے)، اسی طرح شادؔ غزل گوئی میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے مجموعہ ’پونم ‘ میں غزلیں زیادہ ہیں ۔ غزل پر ان کی دستر س ان اشعار سے صاف عیاں ہے ؂
کبھی ٹھکراکے جاو گے ، ہمیں آتا یقیں کیسے
محبت کر کے ٹھکرایا ، بتاو کیا تھی مجبوری
تمہارے ناز گر ہوتے ، اٹھاتا شادؔ چاہت سے
ناپید تھی وفا ان میں ، مگر زیادہ تھی مغروری

بشیر شادؔ کے کلام میں سادگی، خلوص اور صداقت کا عنصر نمایاں ہے ، شاعر نے فنی رموز کو سچائی کے ساتھ استعمال کیا ہے ؂
رہے ہر روز متمنی ، کہ وعدہ کب وفا ہوگا
مگر نہ ہوسکا ایسے ، تمہیں اٹھکیلیاں سوجھیں

شادؔ نے شاعری میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جو عام زندگی میں معروف ہیں اور عوام الناس ان
سے اچھی طرح آگاہ ہیں جیسے حجاب، سقوط ڈھاکہ، جدائی ، حسن یوسف، محرومی، صلہ‘وفا، آنسو، آس، ظلم کوئی کرگیا، زندہ لاش، قصہ مفلسی، سادگی، ہلالِ عید سعید، اکیسویں
صدی اور دیگر شامل ہیں۔ ان کا انداز اور لب و لہجہ سیدھا سادہ اور عام ہے ؂
تیری یادوں کو، دل سے ، بھلاتا کیسے
بیتے لمحوں کی ، کسک کو، میں مٹاتا کیسے
جان کو روگِ محبت لگا بیٹھا ہوں
تیری تصویر کو سینے سے لگا بیٹھا ہوں

وطن سے دور رہتے ہوئے شاد اپنے ہم وطنوں کو اور اپنی زمین کو نہیں بھولے۔ وطن کی چاہت اس حد تک انہیں ستاتی ہے کہ وہ اپنے وطن کو خواب میں ہی دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں ؂
اہلِ وطن اہل و طن کو خواب میں ہی دیکھ لو
کس طرح کرتے ہیں محنت حجاب میں ہی دیکھ لوں
پھر رہا ہے ، بے وطن ، شباب میں ہی دیکھ لوں
پردیس میں حالت خراب ، خراب میں ہی دیکھ لوں
کوسوں دور بیٹھے ہوں، مگر جب یاد آجائے
بہت محسوس ہوتا ہے ، لمس قربِ محبت کا
بشیر شادؔ کے مجموعہ کلا م ’نمود‘ سے انتخاب ؂
میں آج تلک، غموں کے، انبار لیے پھر تا ہوں
کہنے کو زندگی ہے مگر ، مستعار لیے پھر تا ہوں
دھوکے مجھے ملے ہیں ، جس دوستی کے ہاتھوں
اس دوستی کو لب پر ، بیکار لیے پھرتا ہوں
اپنی خوشی کی خاطر ، اتنا ہمیں بتا دو
کتنا سکوں ملا ہے ، ہمیں اشکبار کر کے
جانے سے قبل ، میری قبر پہ اے یارو
بکھرانا گلوں کو ذرا ، خاروں کو ہٹا کر
کھائے ہیں زخم کتنے زیست کے ہاتھوں
شادؔ کئی بار مراہوں ، خواہشوں کو دبا کر
میرا نام تیرے ساتھ ، لے ر ہیں ہیں لوگ
کہ قبر میں بھی جینا ، حرام ہوگیا ہے
پیمانہ صبر، کیوں لبریز ہوا جاتا ہے
تم تو اتنے بے صبر نہیں تھے
ّآہ ! میری تحریر کو ، پڑھ لیا ہوتا
ہم ہمیشہ زیر تھے زبر نہیں تھے
شایان شان ہو تو ، اتنا ہی بتا دو
تمہیں ضرورت کیا پڑی تھی، ہماری رسوائی کی
میں اجنبی نہیں تھا ، پھر بھی عجب دیکھا
تم نے اجنبیت دکھا کر ہماری جگ ہنسائی کی
خود کو ذرا بچانا ، اکیسویں صدی ہے
ترقی پہ ہے زمانہ ، اکیسویں صدی ہے
مشینیں گھر چلائیں ، دکانوں میں مشینیں
فضا میں مشینیں ، تہہ خانوں میں مشینیں
ہاتھوں میں مشینیں غسل خانوں میں مشینیں
مشینیں بنائیں کھانا، اکیسویں صدی ہے
خود کو ذرا بچانا ، اکیسویں صدی ہے
مجھ کو عطا کیے ہیں ، آنسو جو عمر بھر کے
لوٹا نے پڑیں گے تجھ کو ، اشکبارگی کے ساتھ
میری شب گزررہی ہے کروٹ بدل بدل کے
تیرا سکوں لٹے گا ایک ان آہ و زارگی کے ساتھ

’پونم ‘ کے شاعر کو اردو ادب کو قدر خوبصورت تحفہ دینے پر مبارک باد۔ اللہ کرے بشیرشادؔ اپنی شاعری اور نثر نگاری سے ادبی دنیا کو اسی طرح شاد و آباد کرتے رہیں۔ اپنی بھر پور توانائیوں کے ساتھ ان کی عمر دراز ہو اور وہ اسی تنددہی اور کشتِ ادب کی آبیاری میں مصروف عمل
رہیں۔ (14مارچ2017، جدہ، سعودی عربیہ)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277754 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More